کوئی نہیں انھیں پوچھنے والا

مارکیٹ کمیٹیاں صرف نرخ مقرر کرتی ہیں مگر سرکاری نرخوں پر عمل کرانے کے لیے کوئی ذمے داری ادا کرنے کو تیار نہیں

m_saeedarain@hotmail.com

سالوں سے جاری کراچی انتظامیہ کی نااہلی سے کراچی ملک کا سب سے مہنگا شہر بن چکا ہے ، جس کا تازہ ثبوت کراچی میں دودھ کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہے جس کے بعد شہر میں دودھ دو سو روپے لیٹر اور دہی 300 روپے کلو ہوگئی ہے جب کہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے دودھ کی سرکاری قیمت 120 روپے لیٹر مقرر ہے اور شہر میں دودھ فروشوں نے اپنے اپنے نرخ مقرر کر رکھے ہیں۔

سردی سر پر ہے جس سے دودھ کی کھپت کم ہو جاتی ہے اور دودھ فروش باہمی مقابلے کے لیے نرخ کم کردیتے ہیں اور موسم کی تبدیلی کے نتیجے میں شہر میں دودھ ایک سو بیس روپے سے دو سو روپے لیٹر اور دہی ستر روپے پاؤ فروخت کی جا رہی ہے۔

لاہور میں دودھ اور دہی ایک ہی نرخ پر فروخت ہوتی ہے جب کہ پنجاب میں دہی کا استعمال زیادہ مگر سندھ میں کم ہوتا ہے اس وقت لاہور میں معیاری کہلانے والا دودھ 170 روپے سے دو سو روپے لیٹر اور عام دودھ 130 سے 140 روپے تک فروخت ہو رہا ہے اور لاہور میں دہی دودھ کے مقابلے میں دس روپے کلو کے اضافے سے فروخت ہو رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک سو ستر روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔

کراچی کے مقابلے میں لاہور میں اشیا کا معیار سختی سے چیک ہوتا ہے کیونکہ پنجاب فوڈ اتھارٹی فعال ہے جس کا جال پورے پنجاب میں پھیلا ہوا ہے اور یہ اتھارٹی انتہائی موثر اور فعال ہے جو مسلم لیگ (ن) کے دور میں قائم ہوئی تھی جو بڑے بڑے ریسٹورنٹس، بیکرز اینڈ سویٹس اور فیکٹریوں پر چھاپے مارنے کا ریکارڈ رکھتی ہے اور دودھ کا معیار سختی سے چیک ہوتا ہے اور پنجاب میں مضر صحت اور غیر معیاری دودھ روزانہ ٹنوں کے حساب سے بہا کر ضایع کیا جاتا ہے اور کھانے پینے کی اشیا کے معیار پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے مگر مضر صحت اشیا بنانے والے باز نہیں آتے۔

سندھ حکومت نے سندھ فوڈ کنٹرولنگ اتھارٹی بنائی تھی جس کی کارکردگی برائے نام اور اپنا وجود دکھانے تک محدود اور صرف کمانے تک محدود ہے اور یہی حال سندھ حکومت اور کراچی انتظامیہ کا ہے اور کمشنر کراچی اور کراچی کے سات ڈپٹی کمشنروں کی دیگر سرکاری مصروفیات اتنی زیادہ ہیں کہ انھیں گراں فروشی پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی اور کراچی انتظامیہ دودھ کے نرخوں پر سالوں توجہ ہی نہیں دیتی۔

کراچی انتظامیہ دودھ کے نرخ مقرر کرکے بھول جاتی ہے جس کی وجہ سے دودھ کا سرکاری نرخ 120 روپے لیٹر سے 200 روپے لیٹر تک پہنچ چکا ہے جس کی خبریں نمایاں طور پر ٹی وی پر نشر اور اخبارات میں چھپ رہی ہیں مگر کراچی انتظامیہ سوئی ہوئی ہے۔

کمشنر کراچی اور ساتوں ڈپٹی کمشنروں کو معیاری اشیا خوردنی، دودھ، گوشت، پھل اور سبزیوں کے بازاری نرخوں کا علم ہی نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود خریدیں یا مارکیٹوں اور بازاروں میں جائیں تو انھیں حقائق کا پتا چلے مگر موسم گرما میں ٹھنڈے دفاتر سے نکلنے کا کس کا دل کرے گا۔


سندھ میں بھی مارکیٹ کمیٹیاں تو ہیں جس کے افسران اپنے دفاتر میں بیٹھے مارکیٹوں میں جائے بغیر غیر حقیقی نرخ مقرر کردیتے ہیں۔ انھیں مفت میں پھل، سبزی گھر بیٹھے مل جاتی ہے لہٰذا انھیں بھی ضرورت نہیں کہ وہ راتوں کو منڈیوں میں جا کر نرخوں کا جائزہ لیں اس لیے منڈی اور شہر میں سبزیوں پھلوں کے نرخوں میں تقریباً دو گنا فرق ہوتا ہے اور شہریوں کے لیے شہر سے باہر منڈیوں میں جا کر خریداری کرنا ناممکن ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے علاقوں میں ریڑھی اور پتھارے والوں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں اور انتظامیہ کچھ نہیں کرتی۔

مہنگائی روکنا اب صوبائی حکومتوں کی آئینی ذمے داری ہے اور پٹرولیم مصنوعات اور بجلی گیس مہنگی کرنا اب وفاقی حکومت کا کام ہے جو وفاقی حکومت ہر 15 دنوں کے بعد یا آئے دن ضرور کرتی ہے مگر صوبائی حکومتیں گراں فروشی روکنے پر توجہ نہیں دے رہیں۔

پہلے سندھ کے بلدیاتی اداروں میں ہیلتھ افسران اور فوڈ انسپکٹر اور میونسپل مجسٹریٹ ہوا کرتے تھے۔ یہ افسران اشیا کا معیار سرکاری لیبارٹریوں سے چیک کرا کر غیر معیاری اور مضر صحت ہونے پر چالان کرتے تھے مگر اب ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔

روزنامہ ایکسپریس کے مطابق پنجاب فوڈ اتھارٹی نے صوبے بھر میں کھلے دودھ کی فروخت پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت دودھ پلاسٹک بیگز میں دستیاب ہوگا جس میں 5 سے 6فیصد فیٹ ہوگا اور بیگ پر درج ہوگا یہ دودھ کس شہر اور کس گوالے سے آیا ہے۔ یہ دودھ ملاوٹ سے پاک ہوگا اور مضر صحت ہونے پر اصلی ذمے دار کا بھی پتا چل جائے گا۔

کراچی میں جو دودھ دو سو روپے فروخت ہو رہا ہے اس کے معیار کا کچھ پتا نہیں چلتا اور شہری مہنگا دودھ خرید کر بھی اس کے معیار سے لاعلم ہوتے ہیں اس لیے سندھ فوڈ اتھارٹی بھی اگر پنجاب کی تقلید کرے تو لوگوں کو مہنگا دودھ معیاری تو مل سکتا ہے۔

کمشنری نظام سندھ اور خصوصاً کراچی میں مہنگائی روکنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا ہے اس لیے اس کی ذمے داری کمشنری نظام کے بجائے کسی اور ادارے کے سپرد کی جائے جس کے افسران کا کام اشیائے خور و نوش کی قیمتوں پر سختی سے کنٹرول کرنا اور مقررہ سرکاری نرخوں پر عمل درآمد یقینی بنانا ہو تاکہ لوگوں کو سرکاری نرخوں پر اشیائے خوردنی فراہم کی جاسکیں۔

مارکیٹ کمیٹیاں صرف نرخ مقرر کرتی ہیں مگر سرکاری نرخوں پر عمل کرانے کے لیے کوئی ذمے داری ادا کرنے کو تیار نہیں نہ گراں فروشوں کو کوئی پوچھنے والا ہے جس سے گرانی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
Load Next Story