تین اہم فیصلے اور ان کے مضمرات

خان صاحب کے خلاف بھنگڑے اور لُڈیاں ڈالنے والے بھی اپنی اداؤں پر غور فرمائیں


Tanveer Qaisar Shahid October 24, 2022
[email protected]

اکیس اکتوبر 2022 بروز جمعۃ المبارک ہمارے لیے حیرت انگیز اور یادگار خبریں لایا: (1) پاکستان کو FATF کے چار سالہ جانگسل اور پُر آزمائش عالمی عذاب سے نجات ملی(2) چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مبینہ طور پر کہا کہ وہ اگلے پانچ ہفتوں میں ریٹائر ہو کر گھر چلے جائیں گے(3) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو نااہل کردیا۔

FATF کی گرے لسٹ سے وطنِ عزیز کو جو نجات ملی ہے،اس پر ہم سب کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے پاکستان لاتعداد مالی اور سفارتی مصائب سے گزر رہا تھا۔ اب یہ رکاوٹیں اور مصائب ختم ہو گئے ہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے، کچھ عرصہ قبل، جو وعدہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے تھرو قوم سے کیا تھا، وہ وعدہ نبھانے کا پھر اعادہ کیا ہے۔اُن کا شکریہ بھی ہم پر واجب ہے۔ چند دن پہلے جنرل صاحب جب واشنگٹن میں تھے، تب بھی آپ نے وہاں بھی اِس وعدے کو دہرایا تھا۔

اب آئیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اُس اہم ترین فیصلے کی جانب جس کی بازگشت پاکستان سمیت ساری دنیا میں سنائی دی گئی ہے۔عجب اتفاق ہے کہ پانچ سال قبل جب نواز شریف کو وزیر اعظم ہوتے ہوئے عدالت نے تاحیات نااہل قرار دیا تھا،تب بھی وہ دن جمعے کا تھا۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ تازہ فیصلہ پی ٹی آئی، عمران خان اور ہماری سیاست کو کس جانب لے جائے گا؟

اب سے 44سال قبل مسٹر احمد رضا قصوری منتخب وزیر اعظم اور مقبول ترین سیاسی شخصیت،زیڈ اے بھٹو صاحب،کے خلاف اپنے والد کے مبینہ قتل کا مقدمہ عدالت میں لے کر گئے اور عدالتوں نے بھٹو صاحب کو سزائے موت سنا دی۔بھٹو کا مبینہ عدالتی قتل تو ہو گیا مگر کیا بھٹو صاحب کا نام اور اثر و نفوذ ہماری پارلیمانی سیاست سے مٹ گیا؟ ہرگز نہیں۔

بھٹو کا نام اور اثرورسوخ آج تک قائم و دائم ہے، یہاں تک کہ آج بھٹو کا نواسہ پاکستان کا وزیرخارجہ ہے اور سندھ کی حکومت پچھلے ڈیڑھ عشرے سے بھٹو کے نام پر چل رہی ہے۔ درمیانی عرصے میں بھٹو کا ایک داماد صدرِ پاکستان بنا اور بھٹو کی ایک بیٹی دو بار وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو ایک خط نہ لکھنے کی پاداش میں عدالتِ عظمیٰ نے پانچ سال کے لیے انتخابی سیاست سے نااہل کر دیا تھا۔ اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت نے انھیں کئی برس جیل میں بھی قید کیے رکھا، ایک فضول الزام کی بنیاد پر۔لیکن کیا ملتان میں اور قومی سیاست سے سید یوسف رضا گیلانی کا نام ہمیشہ کے لیے حرفِ غلط کی طرح مٹ گیا؟بالکل نہیں۔

سید یوسف رضا گیلانی آج بھی پاکستان کے ایوانِ بالا کے محترم رکن اور اس کے اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اُن کے ایک صاحبزادے،علی موسیٰ گیلانی،چند دن پہلے ہی ملتان کے ضمنی الیکشن میں کئی ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیت کر رکن قومی اسمبلی بنے ہیں۔

نواز شریف کو ہماری ایک بڑی عدالت نے، پانچ سال قبل، پُراسرار حالات میں عمر بھر کے لیے نااہل قرار دے کر پارلیمانی سیاست و سیادت سے نکال باہر کیا تھا۔بودا سا الزام یہ تھا کہ نواز شریف نے اپنے بیٹے سے جو تنخواہ لینی تھی اور انھوں نے لی بھی نہیں لیکن انھوں نے اس تنخواہ کا ذکر اپنے اثاثوں میں نہ کرکے جرم کیا ہے،اس لیے تا حیات نااہل بھی کیے جاتے ہیں اور پارٹی صدارت سے فارغ بھی۔یہ زیادتی تھی اور ظلم بھی۔

اس کے باوصف کیا نواز شریف کا نام سیاست سے محو کیا جا سکا؟ جو کسی کی نیت اور منصوبہ بندی بھی تھی۔ ایسا بالکل نہ ہو سکا۔ نواز شریف آج پارلیمنٹ اور ملک سے باہر بیٹھ کر بھی ہماری قومی سیاست کا ایک نہایت قوی اور موثر ترین نام ہیں۔اُن کی مرضی اور منشا سے ہی موجودہ اتحادی حکومت تشکیل پائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اصل طاقت و قوت نواز شریف کے ہاتھوں میں ہے۔ نون لیگ کا ووٹ بھی نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز، کا ہے۔

اب الیکشن کمیشن آف پاکستان(ECP) نے پی ٹی آئی کے بانی، چیئرمین اور سابق وزیر اعظم پاکستان، جناب عمران خان، کو نااہل قرار دے دیا ہے۔ گویا وطنِ عزیز کی تینوں اہم ترین اور بڑی سیاسی جماعتوں کے تینوں اہم رہنما عدالتوں کی طرف سے، کسی نہ کسی الزام میں، نااہل قرار دے دیے گئے ہیں۔اب کو ئی کسی کو مہنا نہیں مار سکتا۔اب چھاج اور چھاننی برابر ہو چکے ہیں۔

ای سی پی میں خان صاحب کے خلاف نااہلی کا یہ کیس نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی،محسن شاہنواز رانجھا، لے کر گئے تھے۔فیصلہ سنائے جانے کے بعد رانجھا صاحب نے اسلام آباد میں ایک دھواں دھار پریس کانفرنس بھی کی ہے۔تو کیا عمران خان کو بھی نااہل قرار دیے جانے کا یہ مطلب ہے کہ عمران خان کو ہماری پارلیمانی سیاست سے مطلق طور پر نکال باہر کر دیا جائیگا؟ ہمارے سماج پر اُن کا اثر نفوذ ختم ہو جائیگا؟ہر گز نہیں۔ بلکہ کہنا چاہیے: ایں خیال است و محال است و جنوں!

الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنانے سے 32 دن پہلے یہ فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ فیصلہ محفوظ کرنے میں کیا حکمت کارفرما تھی، کوئی نہیں جانتا۔ تب سے خان صاحب اور پی ٹی آئی قیادت یک زبان و یک جہت ہو کر ECP کے خلاف مورچہ زن تھی۔ کونسا ایسا الزام اور کونسی ایسی زبان تھی جو پی ٹی آئی اور عمران خان نے ای سی پی کے چیئرمین، سلطان سکندر صاحب، کے خلاف استعمال نہیں کی؟

دیکھ اور سن کر ہر شخص نے کفِ افسوس ہی ملا۔مگر شاباش ہے ای سی پی پر جو خان صاحب اور ان کی جماعت کے باجماعت طاقتور پروپیگنڈے کے سامنے جھکے نہ دباؤ میں آئے۔ عمران خان کے خلاف آنے والا یہ فیصلہ ای سی پی کمیشن کا متفقہ فیصلہ ہے۔

مطلب یہ ہے کہ پانچوں ارکان نے ایک زبان اور ایک قلم بن کر یہ فیصلہ سنایا ہے۔ فیصلے نے بہرحال یہ تاریخ بھی رقم کی ہے کہ عمران خان اپنی جتھہ سیاسی طاقت اور طلاقتِ لسانی سے سب کو دباؤ میں لا کر اپنے حق میں ہمیشہ نہیں جھکا سکتے۔

پی ٹی آئی کارکنان کو فیصلہ سن کر دھچکا لگا ہے۔ اُن کا غصہ اور طیش بجا ہے۔ وہ سخت احتجاجی مُوڈ میں بھی ہیں۔محبوب کو سزا اور تکلیف پہنچے تو عاشق اِسی طرح کے فیل مچاتے ہیں۔ سچی بات مگر یہ ہے کہ ''ملک بھر میں'' پی ٹی آئی کارکنان نے فیصلے کے بعد جو احتجاج کیے ہیں، وہ ہرگز عمران خان کی توقعات کے مطابق نہیں ہیں۔

خان صاحب ان ''احتجاجات'' سے بجا طور پر مایوس ہُوئے ہیں۔اس کے باوجود پی ٹی آئی کے اِس اجتماعی ردِ عمل کو ''فطری''کہا جا سکتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ جب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت کے گلے میں عدالتوں نے نااہلی کے طوق ڈالے تھے تو کیا پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے کارکنان اور وابستگان نے اِسی طرح کے ہنگامے کیے تھے؟ دھمکیاں دی تھیں؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ تو پھر پی ٹی آئی کارکنان کو عمران خان کی محبت کیوں مشتعل کررہی ہے؟

کیا عمران خان کا یہ کہا رفتہ رفتہ سچ ثابت ہورہا ہے کہ اگر مجھے اقتدار سے نکالا تو میں زیادہ'' خطرے ناک'' ہو جاؤں گا۔ بھلا یہ کیا اسلوبِ سیاست و احتجاج ہے؟خان صاحب کو ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے خلاف سنائے جانے والے فیصلے کی اصل رُوح اور اِس کے مضمرات کو سمجھنا چاہیے۔

خان صاحب کے خلاف بھنگڑے اور لُڈیاں ڈالنے والے بھی اپنی اداؤں پر غور فرمائیں اور سوچیں کہ کل کلاں کسی عدالت نے خان صاحب کے خلاف سنائے جانے والے اِس فیصلے کو اُلٹا دیا تو پھرکیا ہوگا کہ عمران نااہلی اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کی جا چکی ہے اور آج سے اِس کیس کی سماعت بھی شروع ہو رہی ہے ۔ دیکھتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں