اقتدار کا کھیل
نواز شریف کی واپسی سے شتر بے مہار مہنگائی ‘بجلی کی آسمانی قیمتوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا
الیکشن کمیشن کا حالیہ فیصلہ پاکستان کی سیاسی اور قانونی تاریخ میں کس طرح دیکھا جائے گا' اس کا تقریباً سب کو علم ہے۔ میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ عمران خان ہرگز ہرگز ایک مثالی حکومت نہیں کر سکا۔
بطور وزیراعظم اس کے اکثر فیصلے حد درجہ عاقبت نااندیشانہ اور وقتی نوعیت کے تھے۔ اپنے پرنسپل سیکریٹری کے چناؤ سے لے کر وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب تک کے فیصلے اتنے غیر منطقی اور مبہم تھے کہ کوئی عام فہم سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا سیاستدان بھی شاید یہ سب کچھ نہ کر سکتا۔
عثمان بزدار پنجاب نہیں چلاسکتا تھا اور ایسا ہی ہوا، اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب کی طبیعت میں ہر دم تغیر بھی سب پر واضح تھا۔ خیبرپختونخوا کے موجودہ وزیراعلیٰ کی کارکردگی کے متعلق بھی سنجیدہ سوالات موجود ہیں لیکن خان صاحب نے ان پر اعتماد کیا۔ اسی لیے ایک سال پہلے یقین تھا کہ اگر خان صاحب نے بطور وزیراعظم پانچ سال پورے کر لیے تو شاید آیندہ ہونے والے چناؤ میں' تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہ ہو گا۔
شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ اقتدار سے ہٹائے جانے سے پہلے عمران خان سیاسی طور پر حد درجہ پستی کی طرف رواں دواں تھا۔ مگر چھ ماہ پہلے جس طرح انھیں اقتدار سے ہٹایا گیا' اس کے بعد عمران خان نے پاکستانی سیاست کو بدل دیا۔ اس کے گناہ دھل گئے۔ اس کی بے اعتدالیاں بلکہ کافی حد تک احمقانہ پالیسیاں یکدم فراموش ہو گئیں اور عوام کی اکثریت سابقہ وزیراعظم کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔
اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے حیرت انگیز سیاسی پالیسی بنائی۔ یہ تھی' عوام کو جلسوں کے ذریعے پیغام پہنچانا۔ لوگوں کی کثیر تعداد اس کے جلسوں میں آنے لگی۔ ایسا پاکستان میں شاید پہلے نہیں ہواتھا، یہ وہ عنصر تھا جو مہربانوں نے تصور تک نہیں کیا تھا۔ عوامی ذہن کو پہلی بار یہ سننے کو ملا کہ حکومتیں کس طرح لائی جاتی ہیں اور کس طرح انھیں ذلت کے گڑھے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
خان نے پہلی بار عام لوگوں کو یہ نکتہ ذہن نشین کروا دیا کہ ووٹ کی اہمیت حد درجہ کم ہے اور غیر سیاسی قوتیں اور بین الاقوامی طاقتیں ایک منصوبہ کے تحت کمزور ملکوں میں حکومتوں کو تبدیل کرتی ہیں۔ یہ شعور آج سے چھ سات ماہ پہلے اس شدت سے موجود نہیں تھا۔ آج آپ کسی ٹانگے والے سے پوچھیں ' کسی پھل فروش سے مکالمہ کریں' کسی ریڑھی والے کے ساتھ گفتگو فرمائیے۔
آپ کو وہ وضاحت سے بتائے گا کہ ہمارے ملک میں حکومتیں کون تبدیل کرتا ہے اور اقتدار کا یہ کھیل کیسے کھیلا جاتا ہے۔ عوامی سطح پر اس درجہ پختہ سیاسی شعور دینا ' خان کی اس رابطہ مہم کے ذریعے برپا ہوا جو اس نے چھ ماہ سے مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہمارا کوئی بھی سیاسی پنڈت اس بیداری کے عنصر کو وقت پر بھانپ نہیں سکا، پی ڈی ایم کی تجربہ کار لیکن آزمائی ہوئی سیاسی پارٹیوں کی قیادت بھی حیران اور پریشان ہے۔
اس معاملے میں میری بات پی ایم ایل ن کے اکابرین سے نجی محفلوں میں بھی ہوئی۔ انھوں نے ذاتی طور پر تسلیم کیا' کہ خان کو نکالنے کے بعد اس کے جلسوں کا توڑ ان کے پاس نہیں ہے۔ بلکہ ایک اہم ترین لیگی سیاست دان نے تو برملا کہا کہ وہ' عمران خان کے جلسوں میں کارکردگی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ غور فرمائیے۔ وہی خان' جو سات آٹھ ماہ پہلے حقیقت میں سیاسی ضعف کا شکار تھا۔ یکدم توانا ہو کر مؤثر ترین سیاسی قوت بن گیا۔ یہ سب کچھ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوا ہے۔
مہربانوں نے جن لوگوں کو حکومت دلوائی، ان کے پاس بھی کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں تھی۔ لہٰذا انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی نیب کے قوانین میں آئینی تبدیلی ' بیرون ملک پاکستانیوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنا اور الیکشن میں اے وی ایم مشینوں کو استعمال نہ کروانا' جیسے اقدامات کرنے شروع کیے مگر یہ ایک چیز پھر بھول گئے۔ وہ تھا عوام میں ان کے خلاف غم و غصہ' جو کہ لاوے کی طرح پک رہا تھا۔
خان عوام کے ذہن میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب ہوگیا کہ پی ڈی ایم کی حکومت ذاتی ایجنڈے پر کام کررہی ہے اور اپنے مقدمات ختم کرانا اس کی ترجیح ہے چنانچہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف اکثریت میں نشستیں جیت گئی اور پنجاب میں دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ میری مسلم لیگ ن کے کئی اکابرین سے بات ہوئی انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس سیاسی شکست کو کیسے ہضم کریں۔
بڑے میاں صاحب نے اپنی جماعت کے رہنماؤں کی حد درجہ سخت کلاس لی۔ پھر بھی کچھ وعدے وعید کیے گئے اور موجودہ پی ڈی ایم کو دوسرا موقع دیا گیا۔ دو چار ہفتے پہلے خالی نشستوں پر دوبارہ الیکشن ہوئے ۔ اس کے نتائج حد درجہ غیر متوقع تھے۔ پوری کوشش کے باوجود پی ڈی ایم سیاسی بساط پر ڈھیر ہو گئی ۔ خان پھر اکثریت میں نشستیں لینے میں کامیاب ہو گیا۔
میرا خیال ہے کہ یہاں سے کھیل کے تمام اصول تبدیل ہوئے ہیں۔ فیصلہ سازوں کو اندازہ ہو گیا کہ الیکشن کے ذریعے خان کو ہرانا ممکن نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسٹیٹس کو کی حامی قوتیں ہمیشہ سے پاپولر لیڈر شپ کو ناکام کرنے کی کوشش کرتی ہیں' پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا' پھر بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا سلوک ہوا' نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا اور اب عمران خان کی باری ہے۔
پہلے مرحلے میں عمران خان الیکشن کمیشن سے نااہل ہوئے ہیں' یہ فیصلہ اب عدالت میں جائے گا، وہاں اس کے قانونی پہلو سامنے آئیںگے لیکن اس فیصلے کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے۔
قانونی ماہرین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ فیصلہ اعلیٰ عدالتوں میں فی الفور ختم ہو جائے گا۔ مگر طالب علم کے طور پر مجھے ان قانونی ماہرین کی رائے پر یقین نہیں کیونکہ پاپولر لیڈر کے خلاف فیصلے بلاوجہ نہیں آتے، اس کی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔
نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلہ سب کے سامنے ہے لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو آخری منزل تک سرخرو کرانے کی سرتوڑ کوشش کی جائے گی۔
بہر حال ہمارے ملک میں نہ سیاست کسی اصول پر چلتی ہے اور نہ ہی ریاست نے بلند و بالا اصولی مؤقف اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ مفادات کی جنگ ہے جس کا حصول صرف اور صرف ناجائز دولت ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو خان صاحب بھی مہربانوں کے طفیل مسند شاہی پر براجمان ہوئے تھے۔ وہ بھی سیاست میں کسی اخلاقی بلند اصول کی نگہبانی نہیں کر سکے اور نہ کر رہے ہیں۔
مگر ایک اہم ترین نکتہ وہ غصہ ہے جو موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام کے ذہنوں میں برپا ہے۔ حد درجہ غیر مقبول سیاسی فیصلے پی ڈی ایم کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوئے ہیں۔ عوام ہوش ربا مہنگائی کو موجودہ مرکزی حکومت کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ جب کسی بھی متوسط یا سفید پوش گھر میں بجلی کا بل پہنچتا ہے تو پی ڈی ایم کے رہنماؤں کی شان میں معقول الفاظ نہیں کہے جاتے۔
ویسے تجزیہ تو یہ ہے کہ خان صاحب کی مقبولیت دراصل موجودہ حکمرانوں کی غیر مقبولیت کا نتیجہ ہے۔ یعنی جو شخص بھی موجودہ حالات سے پسا ہوا ہے وہ خان صاحب کا حمائتی بنتا جا رہا ہے۔ اس ردعمل کو کسی طور پر روکا نہیں جا سکتا۔ مہربانوں اور قدر دانوں کے لیے الیکشن ایک بھیانک خواب بن چکا ہے۔ جس سے پی ڈی ایم ہر صورت فرار حاصل کرنا چاہتی ہے۔
نواز شریف کی واپسی سے شتر بے مہار مہنگائی 'بجلی کی آسمانی قیمتوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آنے والے وقت میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ سیاسی بساط کس طرح کی ہو گی۔ جیسے ڈار صاحب کے وزیر خزانہ بننے کے بعد بین الاقوامی اقتصادی اداروں نے ہماری معاشی درجہ بندی مزید حقیر کر دی ہے۔ معاشی شعبے میں کوئی انقلاب نہیں آنے والا۔
اس تناظر میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو دیکھا جائے تو منظر نامہ واضح ہوجاتا ہے۔ بہرحال عمران خان نا اہل ہو گیا۔ مگر صاحبان ! یہ فیصلہ عوامی طاقت سے الٹا ہو سکتا ہے۔ عدالتی ریلیف کی عرض نہیں کر رہا۔ جانتا ہوں کہ عمران خان لانگ مارچ کیوں نہیں کر رہا تھا کیونکہ مہربان اس کے ساتھ رابطے میں تھے۔ لیکن اب لانگ مارچ ' خان کی سیاسی بقا کی ضمانت بن چکا ہے۔
اگر وہ یہ انتہائی قدم نہیں اٹھاتا تو تاریخ کے کوڑے دان میں جانے کا امکان ہے اور اگر وہ واقعی دو چار لاکھ لوگ اسلام آباد لے آتا ہے تو بازی پلٹ سکتی ہے۔ اگر یہ کھیل عوامی طاقت سے الٹ گیا تو ہماری سیاسی تاریخ کا پہلا عوامی فیصلہ ہو گا۔ اگلے چند ہفتوں میں کیا ہوتا ہے۔ اس کے متعلق قیاس کرنا آسان تو ہے مگر کافی پیچیدہ بھی ہے۔ اقتدار کا کھیل ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ بھی؟
بطور وزیراعظم اس کے اکثر فیصلے حد درجہ عاقبت نااندیشانہ اور وقتی نوعیت کے تھے۔ اپنے پرنسپل سیکریٹری کے چناؤ سے لے کر وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب تک کے فیصلے اتنے غیر منطقی اور مبہم تھے کہ کوئی عام فہم سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا سیاستدان بھی شاید یہ سب کچھ نہ کر سکتا۔
عثمان بزدار پنجاب نہیں چلاسکتا تھا اور ایسا ہی ہوا، اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب کی طبیعت میں ہر دم تغیر بھی سب پر واضح تھا۔ خیبرپختونخوا کے موجودہ وزیراعلیٰ کی کارکردگی کے متعلق بھی سنجیدہ سوالات موجود ہیں لیکن خان صاحب نے ان پر اعتماد کیا۔ اسی لیے ایک سال پہلے یقین تھا کہ اگر خان صاحب نے بطور وزیراعظم پانچ سال پورے کر لیے تو شاید آیندہ ہونے والے چناؤ میں' تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہ ہو گا۔
شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ اقتدار سے ہٹائے جانے سے پہلے عمران خان سیاسی طور پر حد درجہ پستی کی طرف رواں دواں تھا۔ مگر چھ ماہ پہلے جس طرح انھیں اقتدار سے ہٹایا گیا' اس کے بعد عمران خان نے پاکستانی سیاست کو بدل دیا۔ اس کے گناہ دھل گئے۔ اس کی بے اعتدالیاں بلکہ کافی حد تک احمقانہ پالیسیاں یکدم فراموش ہو گئیں اور عوام کی اکثریت سابقہ وزیراعظم کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔
اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے حیرت انگیز سیاسی پالیسی بنائی۔ یہ تھی' عوام کو جلسوں کے ذریعے پیغام پہنچانا۔ لوگوں کی کثیر تعداد اس کے جلسوں میں آنے لگی۔ ایسا پاکستان میں شاید پہلے نہیں ہواتھا، یہ وہ عنصر تھا جو مہربانوں نے تصور تک نہیں کیا تھا۔ عوامی ذہن کو پہلی بار یہ سننے کو ملا کہ حکومتیں کس طرح لائی جاتی ہیں اور کس طرح انھیں ذلت کے گڑھے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
خان نے پہلی بار عام لوگوں کو یہ نکتہ ذہن نشین کروا دیا کہ ووٹ کی اہمیت حد درجہ کم ہے اور غیر سیاسی قوتیں اور بین الاقوامی طاقتیں ایک منصوبہ کے تحت کمزور ملکوں میں حکومتوں کو تبدیل کرتی ہیں۔ یہ شعور آج سے چھ سات ماہ پہلے اس شدت سے موجود نہیں تھا۔ آج آپ کسی ٹانگے والے سے پوچھیں ' کسی پھل فروش سے مکالمہ کریں' کسی ریڑھی والے کے ساتھ گفتگو فرمائیے۔
آپ کو وہ وضاحت سے بتائے گا کہ ہمارے ملک میں حکومتیں کون تبدیل کرتا ہے اور اقتدار کا یہ کھیل کیسے کھیلا جاتا ہے۔ عوامی سطح پر اس درجہ پختہ سیاسی شعور دینا ' خان کی اس رابطہ مہم کے ذریعے برپا ہوا جو اس نے چھ ماہ سے مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہمارا کوئی بھی سیاسی پنڈت اس بیداری کے عنصر کو وقت پر بھانپ نہیں سکا، پی ڈی ایم کی تجربہ کار لیکن آزمائی ہوئی سیاسی پارٹیوں کی قیادت بھی حیران اور پریشان ہے۔
اس معاملے میں میری بات پی ایم ایل ن کے اکابرین سے نجی محفلوں میں بھی ہوئی۔ انھوں نے ذاتی طور پر تسلیم کیا' کہ خان کو نکالنے کے بعد اس کے جلسوں کا توڑ ان کے پاس نہیں ہے۔ بلکہ ایک اہم ترین لیگی سیاست دان نے تو برملا کہا کہ وہ' عمران خان کے جلسوں میں کارکردگی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ غور فرمائیے۔ وہی خان' جو سات آٹھ ماہ پہلے حقیقت میں سیاسی ضعف کا شکار تھا۔ یکدم توانا ہو کر مؤثر ترین سیاسی قوت بن گیا۔ یہ سب کچھ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوا ہے۔
مہربانوں نے جن لوگوں کو حکومت دلوائی، ان کے پاس بھی کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں تھی۔ لہٰذا انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی نیب کے قوانین میں آئینی تبدیلی ' بیرون ملک پاکستانیوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنا اور الیکشن میں اے وی ایم مشینوں کو استعمال نہ کروانا' جیسے اقدامات کرنے شروع کیے مگر یہ ایک چیز پھر بھول گئے۔ وہ تھا عوام میں ان کے خلاف غم و غصہ' جو کہ لاوے کی طرح پک رہا تھا۔
خان عوام کے ذہن میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب ہوگیا کہ پی ڈی ایم کی حکومت ذاتی ایجنڈے پر کام کررہی ہے اور اپنے مقدمات ختم کرانا اس کی ترجیح ہے چنانچہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف اکثریت میں نشستیں جیت گئی اور پنجاب میں دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ میری مسلم لیگ ن کے کئی اکابرین سے بات ہوئی انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس سیاسی شکست کو کیسے ہضم کریں۔
بڑے میاں صاحب نے اپنی جماعت کے رہنماؤں کی حد درجہ سخت کلاس لی۔ پھر بھی کچھ وعدے وعید کیے گئے اور موجودہ پی ڈی ایم کو دوسرا موقع دیا گیا۔ دو چار ہفتے پہلے خالی نشستوں پر دوبارہ الیکشن ہوئے ۔ اس کے نتائج حد درجہ غیر متوقع تھے۔ پوری کوشش کے باوجود پی ڈی ایم سیاسی بساط پر ڈھیر ہو گئی ۔ خان پھر اکثریت میں نشستیں لینے میں کامیاب ہو گیا۔
میرا خیال ہے کہ یہاں سے کھیل کے تمام اصول تبدیل ہوئے ہیں۔ فیصلہ سازوں کو اندازہ ہو گیا کہ الیکشن کے ذریعے خان کو ہرانا ممکن نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسٹیٹس کو کی حامی قوتیں ہمیشہ سے پاپولر لیڈر شپ کو ناکام کرنے کی کوشش کرتی ہیں' پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا' پھر بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا سلوک ہوا' نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا اور اب عمران خان کی باری ہے۔
پہلے مرحلے میں عمران خان الیکشن کمیشن سے نااہل ہوئے ہیں' یہ فیصلہ اب عدالت میں جائے گا، وہاں اس کے قانونی پہلو سامنے آئیںگے لیکن اس فیصلے کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے۔
قانونی ماہرین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ فیصلہ اعلیٰ عدالتوں میں فی الفور ختم ہو جائے گا۔ مگر طالب علم کے طور پر مجھے ان قانونی ماہرین کی رائے پر یقین نہیں کیونکہ پاپولر لیڈر کے خلاف فیصلے بلاوجہ نہیں آتے، اس کی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔
نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلہ سب کے سامنے ہے لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو آخری منزل تک سرخرو کرانے کی سرتوڑ کوشش کی جائے گی۔
بہر حال ہمارے ملک میں نہ سیاست کسی اصول پر چلتی ہے اور نہ ہی ریاست نے بلند و بالا اصولی مؤقف اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ مفادات کی جنگ ہے جس کا حصول صرف اور صرف ناجائز دولت ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو خان صاحب بھی مہربانوں کے طفیل مسند شاہی پر براجمان ہوئے تھے۔ وہ بھی سیاست میں کسی اخلاقی بلند اصول کی نگہبانی نہیں کر سکے اور نہ کر رہے ہیں۔
مگر ایک اہم ترین نکتہ وہ غصہ ہے جو موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام کے ذہنوں میں برپا ہے۔ حد درجہ غیر مقبول سیاسی فیصلے پی ڈی ایم کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوئے ہیں۔ عوام ہوش ربا مہنگائی کو موجودہ مرکزی حکومت کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ جب کسی بھی متوسط یا سفید پوش گھر میں بجلی کا بل پہنچتا ہے تو پی ڈی ایم کے رہنماؤں کی شان میں معقول الفاظ نہیں کہے جاتے۔
ویسے تجزیہ تو یہ ہے کہ خان صاحب کی مقبولیت دراصل موجودہ حکمرانوں کی غیر مقبولیت کا نتیجہ ہے۔ یعنی جو شخص بھی موجودہ حالات سے پسا ہوا ہے وہ خان صاحب کا حمائتی بنتا جا رہا ہے۔ اس ردعمل کو کسی طور پر روکا نہیں جا سکتا۔ مہربانوں اور قدر دانوں کے لیے الیکشن ایک بھیانک خواب بن چکا ہے۔ جس سے پی ڈی ایم ہر صورت فرار حاصل کرنا چاہتی ہے۔
نواز شریف کی واپسی سے شتر بے مہار مہنگائی 'بجلی کی آسمانی قیمتوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آنے والے وقت میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ سیاسی بساط کس طرح کی ہو گی۔ جیسے ڈار صاحب کے وزیر خزانہ بننے کے بعد بین الاقوامی اقتصادی اداروں نے ہماری معاشی درجہ بندی مزید حقیر کر دی ہے۔ معاشی شعبے میں کوئی انقلاب نہیں آنے والا۔
اس تناظر میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو دیکھا جائے تو منظر نامہ واضح ہوجاتا ہے۔ بہرحال عمران خان نا اہل ہو گیا۔ مگر صاحبان ! یہ فیصلہ عوامی طاقت سے الٹا ہو سکتا ہے۔ عدالتی ریلیف کی عرض نہیں کر رہا۔ جانتا ہوں کہ عمران خان لانگ مارچ کیوں نہیں کر رہا تھا کیونکہ مہربان اس کے ساتھ رابطے میں تھے۔ لیکن اب لانگ مارچ ' خان کی سیاسی بقا کی ضمانت بن چکا ہے۔
اگر وہ یہ انتہائی قدم نہیں اٹھاتا تو تاریخ کے کوڑے دان میں جانے کا امکان ہے اور اگر وہ واقعی دو چار لاکھ لوگ اسلام آباد لے آتا ہے تو بازی پلٹ سکتی ہے۔ اگر یہ کھیل عوامی طاقت سے الٹ گیا تو ہماری سیاسی تاریخ کا پہلا عوامی فیصلہ ہو گا۔ اگلے چند ہفتوں میں کیا ہوتا ہے۔ اس کے متعلق قیاس کرنا آسان تو ہے مگر کافی پیچیدہ بھی ہے۔ اقتدار کا کھیل ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ بھی؟