سچ کہا جسٹس ایس خواجہ نے وزارتِ اطلاعات کے وجود کا کیا جواز ہے

خبر کو آہنی زنجیروں میںجکڑنے اور طلائی جال میں پھانسنے کی کالی کتھا، ان کے لیے جو اپنی تاریخ سے بھی ناواقف ہیں۔

خبر کو آہنی زنجیروں میںجکڑنے اور طلائی جال میں پھانسنے کی کالی کتھا، ان کے لیے جو اپنی تاریخ سے بھی ناواقف ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
ان دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کی ایک بینچ کے سامنے، جو جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل ہے۔

وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے سیکرٹ فنڈ کے بارے میں ایک اہم مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔ پٹیشن دو سینیر صحافیوں نے دائر کی تھی، جو پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرونک میڈیا کا بھی خاصا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

ز خم ناسور بن جائے تو صحت مندی کی توقع رکھنا کارِ حماقت ہے۔ ناسور کا وجود مٹانے کے لیے اسے کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے، بہ صورتِ دیگر مریض جاں بر نہیں ہوگا۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا ایک ریمارک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''منسٹری آف انفارمیشن کے وجود کا جواز ناقابل فہم ہے۔ شاید یہ غلامی کے دور کی ضرورت رہی ہوگی، جس سے حاکم اپنے غلاموں کو حسبِ منشا انفارمیشن فراہم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہوں گے۔''

کیا اس میں شبہے کی کوئی گنجایش ہے؟

یہی اصل نکتہ ہے، لیکن یہ نکتہ پہلی بار نہیں اُٹھایا گیا۔ آج خود ہمارے صحافیوں کو اس حقیقت کا علم نہیں کہ وزارتِ اطلاعات و نشریات کی کارستانیوں کے خلاف ان کی نمایندہ تنظیم، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، جس کا قیام 1950 میں عمل میں آیا، پہلے دن سے جدوجہد کرتی رہی ہے۔ اس کے بانیوں کو یہ سمجھنے میں کوئی دُشواری محسوس نہیں ہوئی کہ یہ وزارت اہلِ اقتدار کو جا و بے جا معاونت فراہم کرے گی، اور اہلِ صحافت کے خلاف اپنے کارخانے میں نئی نئی زنجیریں ڈھالتی رہے گی۔

نئی نئی زنجیریں ڈھلتی رہیں۔ سب سے پہلے تو اخبارات و رسائل کے لیے ڈکلریشن حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اگر آپ حکومتِ وقت کی جا و بے جا مدح خوانی کا شغل انجام دے سکتے ہیں تو آسانی سے ڈکلریشن حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر تنقید، خواہ وہ صحت مندانہ ہی کیوں نہ ہو، کا جذبہ رکھتے ہیں تو وزارتِ اطلاعات کی دہلیز کے سامنے سر پٹخ پٹخ کر جان دے دیں، ڈکلریشن کے دیدار سے محروم رہیں گے۔

تحریر کا کوئی لفظ حکومتِ وقت کی طبع نازک پر گراں گزرتا تھا، تو ڈکلریشن منسوخ کردیا جاتا تھا۔ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔ چناںچہ، اخبارات و رسائل مہلک ترین آزار... سیلف سینسر شپ... میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔ نتیجتاً، عوام تک دُرست اطلاعات اور خبروں کی فراہمی کا فرض خواب بن کر رہ گیا۔ جنھوں نے اپنے مقدس پیشے سے وفاداری نباہنے کا راستہ اختیار کیا، انھیں ''غداری'' اور ''ملک دشمنی'' کے جرم میں جیل کی کوٹھریوں میں ٹھونس دیا گیا۔ ریڈیو پر حکومت کی اجارہ داری قائم رہی، اور ریڈیو سے نشر ہونے والی خبروں اور تبصروں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی رہیں۔

صحافیوں کو روزانہ نامعقول ''پریس ایڈوائس'' کے تحفے ملتے رہے... ''فلاں خبر کسی قیمت پر نہیں چھپنی چاہیے۔ فلاں خبر کا فلاں حصّہ نہیں چھپنا چاہیے۔ فلاں فلاں مضمون نگاروں کے مضامین KILL کردیے جائیں۔ فلاں تصویر کا جھٹکا کردیا جائے۔ فلاں خبر کی سرخی TONE DOWN کرکے لگائی جائے۔ فلاں ملک میں حکومت کے خلاف شدید مظاہرے ہو رہے ہیں، ان مظاہروں کی خبریں نہ چھاپی جائیں یا انہیں سرسری انداز میں پیش کیا جائے۔ ا س سے حزبِ اختلاف کے حوصلے بلند ہوں گے، اور وہ بھی دانت تیز کرنے لگے گی۔

جو عمل کرے گا، حکومتِ وقت کی نوازشات سے مُستفید ہوگا، اس پر سرکاری اشتہارات کی بارش ہوگی، اسے غیر ملکی دوروں کے لیے منتخب کیا جائے گا، وزارتِ اطلاعات کی جیبِ خاص سے انعام و اکرام پانے کا حق دار ہوگا۔ پرمٹ پائے گا، پلاٹ پائے گا۔ حاکمِ وقت کے میٹھے مصافحے سے نوازا جائے گا، مُٹھی گرم ہوگی، رُخساروں پر سُرخی دوڑے گی۔ کیوں جان جوکھوں میں ڈالتے ہو، حکومت کے آہنی ہاتھوں سے ٹکرائوگے، تو پاش پاش ہوجائوگے۔

اچھائیاں دیکھو، تمہیں بُرائیاں ہی کیوں نظر آتی ہیں؟ چناںچہ اپنے ملازمین کو کم تر اُجرتیں دینے والے موقع پرست مالکانِ اخبارات بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے، ایک اخبار کی پسلی سے چار پانچ اخبارات اور رسائل نکالتے رہے۔ اور بے ضمیر صحافی بھی نکتہ آفرینی کا کمال دکھاتے ہوئے بد کردار حکومتوں کی ''خوبیاں'' گنواتے رہے۔ ہم بھی ہیں آپ کے وفاداروں میں، ایک نظرِ کرم ہماری طرف بھی ہو جائے تو ہم اپنے قلم اور اپنی زبان کے اور جادو دکھائیں گے۔ آزمایش شرط ہے۔

اُس زمانے میں نیوز پرنٹ پر سرکاری کنٹرول ہوتا تھا اور اس کا کوٹا مقرر ہوتا تھا، جو حکومت کی جانب سے اخبارات اور جرائد کو رعایتی نرخوں پر فراہم کیا جاتا تھا۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات کا دعویٰ تھا کہ کاغذ کی مقدار میرٹ کی بنیاد پر فراہم کی جاتی ہے۔ اخبارات و رسائل کو ان کی تعدادِ اشاعت کے پیشِ نظر ABC سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے، اسی بنیاد پر ان کا کوٹا مقرر ہوتا ہے۔ وزارتِ اطلاعات کے اہل کاروں کو رشوت دے کر بڑی سے بڑی تعدادِ اشاعت کا ABC سرٹیفکیٹ حاصل کرنا رواج میں شامل تھا۔

عملی طور پر سرکار دربار کے حامیوں کو، جن کے اخبارات و رسائل کی تعدادِ اشاعت بہ قدر اشکِ بلبل ہوتی تھی، فراخ دلی سے نیوز پرنٹ فراہم کیا جاتا تھا۔ دو چار سو کاپیاں چھاپنے کے بعد باقی کاغذ بلیک مارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا تھا۔ آپ تصور نہیں کرسکتے، اس وقت یہ کتنا منفعت بخش کاروبار تھا۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ وزارتِ اطلاعات کے متعلقہ افسروں کی جیبیں بھر کے ڈمی اخبارات بھی خاطر خواہ نیوز پرنٹ (اور اشتہارات بھی، جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے) حاصل کرسکتے تھے۔

پرنٹنگ پریس کے لیے بھی ڈکلریشن حاصل کرنا ضروری تھا۔ لیکن یہ راستہ بھی کرنسی نوٹ کی کنجی سے کُھل سکتا تھا۔ پرنٹنگ پریس کے مالکان ہر وقت دھمکیوں کی زد پر رہتے تھے۔ کوئی بھی اخبار، رسالہ، پمفلٹ، ہینڈبل، کتاب شایع کرنے سے پہلے محدب شیشے سے اس کا معائنہ کرتے تھے۔ سرکار کے خلاف کچھ چھاپنا سنگین ترین جرم تھا، اسے ملک دشمنی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ سیاسی کارکن اور طلبہ تنظیموں کے کارکن خاص طور پر چھاپا خانوں کے چکر لگا لگا کر بے دم ہوجاتے تھے، کوئی مالک چوری چھپے جلسوں، جلوسوں، مظاہروں کے بارے میں پمفلٹ چھاپنے پر رضامند ہوجاتا تو وہ خوش ہوجاتے تھے۔

لیکن بہت سے معاملات میں راز کُھلنے پر سرکار نے ایسے مالکان کے چھاپا خانے ضبط کرلیے۔ جن اخبارات کے اپنے پرنٹنگ پریس تھے، ''قابلِ اعتراض'' تحریر چھاپنے کے جرم میں اخبار کے ساتھ ان کے پرنٹنگ پریس کا ڈکلریشن بھی منسوخ کردیا جاتا تھا۔ تمام سول اور فوجی حکومتیں اس نسخۂ کیمیا پر عمل کرتی رہیں اور آزادی صحافت اور آزادیِ اظہار کے پرچم کی دھجیاں گلیوں کوچوں میں اڑتی رہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر مختلف قسم کی پابندیوں، سرکاری اشتہارات سے محرومی اور جرات انکار رکھنے والے صحافیوں کو قیدوبند، جیل کی سلاخوں اور برطرفیوں کا تحفہ پیش کرنا معمول کا حصہ رہا، جو پرویز مشرف کے دور تک جاری رہا۔

ایوب خاں کے دور میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی دست درازی میں خوف ناک اضافہ ہوا۔ اسی دور میں سرکاری ٹی وی چینل کا آغاز ہوا، اور یوں طویل عرصے تک الیکٹرونک میڈیا بلاشرکتِ غیرے حکومت کے قبضے میں رہا۔ اس قبضے کو مستحکم کرنے کا کام وزارتِ اطلاعات و نشریات ہی کے کارندے انجام دیتے تھے۔ اس دور میں پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈی نینس نافذ کیا گیا، جس کے باعث اہلِ صحافت کے لیے سانس لینا بھی دوبھر ہوگیا۔

پھر وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ہتھوڑے کے نیچے ''نیشنل پریس ٹرسٹ'' نامی ادارہ قائم کیا گیا، اور ملک کے متعدد مشہور اخبارات اور جرائد کو قومی ملکیت میں لے کر انہیں غلامی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ ان اخبارات و جرائد کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی اور مشہور نیوز ایجنسی، اے پی پی کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔ گویا، اب وہ سب سرکاری ملازم تھے، اور صرف سرکار کے ''سنہری کارناموں'' کی تشہیر کر سکتے تھے۔

یوں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ساتھ بہت سارے اخبارات بھی سرکار کے اسلحہ خانے میں شامل ہوگئے۔ حقائق کو چھپانا اور ان میں حسبِ منشا کمی بیشی کرنا ان کا دستور تھا۔ یہ بھی ہوا کہ این پی ٹی کے اخبارات میں بعض ''سرکاری صحافی'' بھی بھرتی کیے گئے، جو وزارت اطلاعات و نشریات کے لیے جاسوسی کی خدمت انجام دیتے تھے۔ خیر سے یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ آج بھی ایسے بہت سے مشتبہ چہرے ہمارے درمیان موجود ہیں۔

وزارتِ اطلاعات و نشریات کا کرشمہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں جو ظلم ہوا، اس کے بارے میں ہمارے ذرایع ابلاغ مسلسل فریب آمیز خبریں اور تبصرے شایع اور نشر کرتے رہے۔ اب لکیر پیٹی جارہی ہے کہ بنگالیوں کو علیحدگی پر مجبور کیا گیا، بہت ظلم ہوا۔ کاش، ایسا نہ ہوتا۔ خبریں چھپانا، حقائق کو قتل کرنا جس قوم کا دستور ہو، اس کا یہی مقدر ہوتا ہے !!

سینسر شپ کے مذکورہ حربوں کے ساتھ پری سینسر شپ، خاص طور پر ضیا الحق کے دور میں، کی تلوار پوری قوت سے چلائی گئی، حتیٰ کہ قرآنی آیات پر بھی سینسر کی قینچی چلائی گئی۔ اخبار کی کاپیاں تیار کرنے کے بعد نیوز ایڈیٹر رات گئے مقامی وزارتِ اطلاعات کے مقررہ افسر کے سامنے پیش ہوتا تھا، جو اپنی صوابدید کے مطابق ''خطرناک'' خبریں اور مضامین اُکھاڑ دیتا تھا۔

کچھ دنوں تک ایسا ہوتا رہا کہ جو خبر اُکھاڑی جاتی، اس کی جگہ خالی رہتی، بعد میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کے وفاداروں کو احساس ہوا کہ اخبار کے کالموں میں خالی جگہیں دیکھ کر قارئین راز سے واقف ہوجائیں گے کہ اس جگہ کوئی خاص خبر تھی، جسے نکال دیا گیا۔ چناںچہ، اب حکم صادر ہوا کہ اخبار کا نمایندہ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے افسر کی خدمت میں حاضری دے تو اس کے پاس سرخیوں سمیت مختلف سائزوں کی زاید خبریں بھی ہونی چاہییں تاکہ وہ حسبِ ضرورت خالی جگہوں پر Paste کردی جائیں۔''


آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے خلاف سیاہ سے سیاہ تر قوانین، ظالمانہ حربے، لرزہ خیز تعزیریں، گرفتاریاں، آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے خلاف سول اور فوجی عدالتوں سے سزائیں، یہ سلسلہ کبھی نہیں رکا، یہاں تک کہ صحافیوں کی 1977-78 کی شان دار تحریک کے دوران میں چار صحافیوں کو کوڑوں کی سزا سے بھی نوازا گیا۔

مجموعی طور پر پریس کے خلاف بیس سے زاید آرڈی نینس جاری کیے گئے، جن کی گھٹن میں عامل صحافیوں کے لیے کام کرنا دُشوار تر ہوگیا۔ یہ سب کچھ تھا، لیکن ساتھ ساتھ وزارتِ اطلاعات و نشریات کی تجوریاں بھی کُھلی ہوئی تھیں...۔۔۔ سیکرٹ فنڈ، جس کا تذکرہ سپریم کورٹ کی مذکورہ بینچ کے سامنے ہوا۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات کا یہ گھناؤنا کردار گذشتہ ساٹھ برس کے دوران ہمیشہ مذمت کا نشانہ بنتا رہا، لیکن حاکمان وقت کی رعونت میں کمی نہیں آئی۔

ہر دور میں حزب اختلاف نے ہمارے مطالبے کے حق میں آواز اٹھائی، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس نے وہی ہتھ کنڈے اختیار کیے اور وزارت اطلاعات و نشریات کے مہلک ہتھیار کو اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ تاہم، عامل صحافیوں کی اکثریت نے کسی بھی ''سیکرٹ فنڈ'' کا لقمہ بننے سے انکار کیا۔ ایک محدود تعداد تھی، جو اپنا ضمیر فروخت کرنے کو تیار تھی۔

موقع پرست، زر اندوز مالکان سے قطع نظر، اس طویل دور میں، گذشتہ ساٹھ سال کے دوران میں، ملک کے عامل صحافیوں نے اپنی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر قیادت ہزاروں جلسے، مظاہرے اور جلوس منظمٕ کیے، بھوک ہڑتال کی، قید و بند کا تحفہ قبول کیا، ہزاروں پمفلٹ، پوسٹر اور یاد داشتیں لکھیں اور اپنی یادداشتوں، تقریروں اور بیانات میں بار بار ان مطالبات کا اعادہ کیا:

(1) وفاقی اور صوبائی وزارت اطلاعات و نشریات کا قلم دان ختم کیا جائے۔
(2) سرکاری اشتہارات کو بلیک میلنگ اور تحریص و تخویف کا ذریعہ اور جی حضوریوں پر بارشِ اکرام کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
(3) پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈی نینس سمیت صحافت دشمن تمام قوانین منسوخ کیے جائیں۔
(4) نیشنل پریس ٹرسٹ توڑ دیا جائے، اور اس میں شامل اخبارات و جرائد ان کے اصل مالکان کو واپس کیے جائیں۔
(5) ریڈیو، ٹی وی اور اے پی پی کو سرکاری قبضے سے آزاد کیا جائے۔

پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈی نینس اور نیشنل پریس ٹرسٹ کا وجود باقی نہیں رہا۔ لیکن وزارت اطلاعات و نشریات کا قلم دان، اس کا سیکرٹ فنڈ، سرکاری اشتہارات کے ذریعے بلیک میلنگ اور جی حضوریوں پر بارشِ اکرام کا سلسلہ اب تک جاری ہے، ساتھ ساتھ ریڈیو، ٹی وی اور اے پی پی حسبِ سابق حکومت کے قبضے میں ہیں۔

صحافتی حلقوں کی یہ جدوجہد، جس کے متن میں متعدد دیگر مطالبات بھی شامل تھے، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، یحییٰ خان، نواز شریف، پرویز مشرف، سب کے دور میں جاری رہی، لیکن میڈیا اور عامل صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے نئے نئے عریاں ہتھ کنڈے سامنے آتے رہے۔ انجام کار، ہر حکم راں طبقے کو پشیمانی سے دو چار ہونا پڑا، اور آیندہ بھی یہی ہوگا۔ یہ جدوجہد جاری رہے گی، کیوں کہ پاکستان کے بر سر اقتدار طبقات ظالم جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور خود غرض، سول اور فوجی افسروں پر مشتمل ہیں، اور ان کا کردار کم از کم مستقبلِ قریب میں بدلتا نظر نہیں آتا۔

اس تحریر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مذکورہ مقدمے کی سماعت کے دوران میں مفادِ پیوستہ رکھنے والے بعض حلقوں نے کہا، وزارتِ اطلاعات و نشریات کے وجود کے خلاف اس سے پہلے عامل صحافیوں نے آواز کیوں نہیں بلند کی، اور بعض ناواقف عامل صحافیوں نے سوال اٹھایا کہ آخر وزارت اطلاعات و نشریات کا وجود ہمیں پریشان کیوں کرتا ہے، یہ ہمارا دردِسر نہیں۔ نکتہ چینی کرنے والے بد خواہوں اور سوال اٹھانے والے ان اصحاب کو چاہیے کہ وہ غور سے تاریخ کا مطالعہ کریں۔

جو لوگ تپتی سڑکوں پر اپنی جُھلستی آرزوئوں کے ساتھ چلے نہیں، جلے نہیں، انہیں تاریخ میں جھانکنے کی کیا ضرورت ہے! پاکستان کے عامل صحافی، دوسرے مطالبات کے علاوہ، گذشتہ 60 سال سے یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ وزارتِ اطلاعات و نشریات کا قلم دان ختم کیا جائے، اس کے بلیک میلنگ کے ہتھیار توڑ دیے جائیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس ملک میں صاحبانِ اقتدار اندھے اور بہرے بن جاتے ہیں، کیوں کہ انہیں اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے، اس لیے انہیں عزیز ہے۔

سیکرٹ فنڈ ہے! سالِ رواں چار ارب روپے!! یہی انکشاف ہوا!

سپریم کورٹ کی مذکورہ بینچ کے سامنے وزارتِ اطلاعات و نشریات کے نمایندے نے کہا، ''میں اس بات کا مجاز نہیں کہ سیکرٹ فنڈ کے استعمال کے بارے میں کوئی بات بتائوں۔''

گویا سیکرٹ فنڈ ہے، اور اس کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ یقیناً استفادہ کرنے والوں میں خود غرض مالکان میڈیا کے ساتھ عامل صحافی بھی شامل ہیں۔ ہمیں خود بھی آئینہ دیکھنا چاہیے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ صحافیوں کا ایک حلقہ صحافتی ضابطۂ اخلاق کو ٹھوکر میں رکھتا ہے اور ''لفافوں'' کو چوم چاٹ کر جیب میں ڈال لیتا ہے۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات کا خاتمہ ہونا چاہیے، اور ایسے ضمیر فروش صحافیوں کا محاسبہ بھی ہونا چاہیے۔ میڈیا میں اکثر بعض مثبت تبصروں کے ساتھ گھما پِھرا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پوری صحافی برادری ایمان دار ہے، اور یہ سب کچھ اسے بدنام کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ یہ بات ایسے اینکر پرسن بھی کرتے ہیں، جن کے شرم ناک تماشے سامنے آچکے ہیں۔

جھوٹ کا سہارا لینا کاغذ کی کشتی میں سفر کرنے کے مصداق ہے۔ لفافہ لینے والے موجود ہیں، ان کا بے رحمی سے احتساب ہونا چاہیے۔

اور جناب، معاملہ صرف وزارتِ اطلاعات و نشریات کی رشوت تک محدود نہیں ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں، پریشر گروپ اور بزنس مین بھی اِس ''کارخیر'' میں مصروف ہیں، اور بلاشبہہ ایسے بے ضمیر صحافی موجود ہیں، جو ذاتی مفادات کی خاطر اپنے پیشے کا تقدس بیچ ڈالتے ہیں۔ اس رجحان میں اضافے کا سبب وہ خود غرض مالکانِ میڈیا بھی بنتے ہیں، جو اپنے کارکنوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں کم تر تن خواہوں کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں، اور اپنے نامہ نگاروں کو صرف اور صرف شناختی کارڈ عطا کرتے ہیں کہ یہی تمہاری تن خواہ ہے، خود بھی کماؤ اور ہمیں بھی بھجواؤ۔ منہگائی میں اضافہ ہوتا ہے، کارکنوں کی تن خواہیں برف خانے میں رہتی ہیں۔ مالکان اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی زنجیر کھڑی کر لیتے ہیں، لیکن ان کے منافع میں کارکنوں کا حصہ قلیل ترہی رہتا ہے۔

آخری بات، اس سے زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ ان دنوں متعدد صحافیوں اور اُن کی تنظیموں کے عہدے داروں نے کہا کہ ہمیں اپنی ذمے داریوں کا احساس ہے، اور ہمارے لیے ایک ضابطۂ اخلاق بنانا ضروری ہے۔

ضابطۂ اخلاق!!

صفائی پیش کرنے کا یہ معذرت خواہانہ انداز خوب ہے۔ ان لاعلموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ضابطۂ اخلاق تو پہلے دن سے موجود ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا قیام 1950 میں عمل میں آیا۔ پی ایف یو جے کے آئین میں ضابطۂ اخلاق کی تمام کلیدی شقیں درج ہیں، جو پیشہ ورانہ زندگی اور ذاتی زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ مطالعے کی زحمت کون کرتا ہے۔ پھر یہ کہ ضابطۂ اخلاق تو ہر شخص کے ضمیر میں زندہ رہتا ہے۔ اسے سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اس کا کون سا عمل اس کی ذاتی ساکھ اور اس کے پیشہ ورانہ عمل کو مجروح کرے گا۔ قوانین موجود ہوتے ہیں۔

ضابطۂ اخلاق موجود ہوتا ہے، پھر بھی بددیانت لوگ اپنا کام کر گزرتے ہیں، اور ہمارے جیسے ملک میں قانون اور ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے سلامت بھی رہتے ہیں، اور دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی معصومیت کا ڈنکا بھی بجاتے ہیں۔

کسی معذرت خواہی یا تجاہل عارفانہ کی ضرورت نہیں، سچے دل سے تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہمارے درمیان ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ کسی دانستہ یا نادانستہ تحفظ کے بغیر انھیں بے نقاب کیا جانا چاہیے۔ میڈیا کی ساکھ بحال کرنے کا اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ پاک باز اپنی پاک بازی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا کرتے، چاروں طرف سرسراتی مہکتی ہوا ان کی پاک بازی کا اعلان کرتی ہے۔
Load Next Story