سیلابی صورتحال کے بعد ریل کا سفر اور احتیاطی تدابیر
ملک میں شدید سیلاب کے بعد ریل کے سفر میں مشکلات درپیش ہیں جس کی وجہ سے مسافروں کو احتیاط کی ضرورت ہے
پاکستان میں ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کےلیے زیادہ تر ریل گاڑی یا پھر بس وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن مون سون کی حالیہ ریکارڈ بارشوں کے بعد ملک میں سیلاب آنے سے دو بڑے صوبے سندھ اور بلوچستان شدید متاثر ہوئے۔ سڑکوں کے بہہ جانے اور ریلوے ٹریک پر کئی فٹ پانی آجانے سے دونوں صوبوں کا ایک دوسرے سے رابطہ بھی منقطع رہا، جس کی وجہ سے ریل اور بس سروس والوں کو بھاری مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
ملک میں زیادہ تر بس سروسز نجی کمپنیاں چلاتی ہیں لیکن ریلوے کا محکمہ حکومت کے ماتحت چلتا ہے، جس کا نقصان بھی حکومت کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ریلوے کو سبسڈی کے بغیر نہیں چلایا جاسکتا کیونکہ ریلوے میں سفر کرنے والے بیشتر مسافر غریب اور متوسط طبقے کے ہوتے ہیں۔
سیلاب کے باعث ملک میں ٹرین سروس تقریباً ڈھائی ماہ بند رہی تاہم صورتحال بہتر ہوتے ہی مرحلہ وار ٹرین سروس بحال کی جارہی ہے۔ کراچی سے دیگر شہروں کے درمیان چلنے والی اب تک کل 8 ٹرینیں بحال کردی گئی ہیں جبکہ مزید ٹرینیں اگلے ماہ سے بحال کردی جائیں گی۔ ریلوے کی جانب سے ٹرین آپریشن تو شروع کردیا گیا ہے تاہم ریلوے ٹریک کی ابتر صورتحال کے باعث محکمہ کی جانب سے سفر کے دورانیے میں 4 سے 5 گھنٹوں کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے تاکہ سفر محفوظ بنایا جائے۔
چند روز قبل، ریل گاڑی سے کراچی سے لاہور کے درمیان سفر کرنے کا اتفاق ہوا جس پر معلوم ہوا کہ سفر کا دورانیہ بڑھنے کے باعث مسافروں کو ابتر صورتحال میں ہی سفر کرنا پڑ رہا ہے جبکہ ریلوے کی جانب سے کرایوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اگر آپ بھی ریل کے سفر کےلیے نکل رہے ہیں تو چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنا نہ بھولیے، بصورت دیگر مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ فیملی کے ہمراہ ان باتوں کا خاص خیال رکھیں کیونکہ بچوں کے ساتھ سفر دشوار ہوجاتا ہے۔
سیلاب کے باعث کراچی سے روہڑی کے درمیان ٹریک متاثر ہوا جبکہ نواب شاہ سے خیرپور کے درمیان شدید متاثر ہوا ہے، جس پر ریل گاڑی کا چلنا کسی خطرے سے کم نہیں تھا۔ کراچی سے صادق آباد تک ٹریک اب بھی مخلتف مقامات پر ٹھیک نہیں جس کے باعث ریل کی رفتار 100 تک بھی نہیں پہنچ پاتی۔
کراچی سے لاہور کا سفر عام صورتحال میں ساڑھے 17 سے 18 گھنٹے کا ہوتا ہے لیکن سیلابی صورتحال کے بعد ٹریک کی حالت خراب ہونے کے باعث سفر کے دورانیے میں 4 سے 5 گھنٹے کا اضافہ کردیا گیا ہے، لہٰذا شہری سفر کرنے سے قبل ذہن بنا لیں کہ تقریباً 23 گھنٹے کا سفر کرنا پڑے گا۔ دوران سفر ریل گاڑی کئی مقامات پر رکے گی بھی اور بعض جگہوں پر ''کنٹرولڈ اسپیڈ'' پر چلائی جائے گی۔
اسٹیشن سے بروقت روانگی کےلیے محکمہ ریلوے پرانی بوگیوں یا بند کی گئی ٹرینوں کی بوگیوں کا استعمال کررہا ہے کیونکہ ریلوے کے پاس اضافی کوچز موجود نہیں۔ پرانی بوگیوں یا دیگر ٹرینوں کی بوگیوں کے استعمال کے باعث ٹرین میں لگے چارجنگ پوائنٹس اکثر خراب نکلتے ہیں، جس سے مسافر شدید اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔ اس لیے مسافر اپنے ہمراہ ''پاور بینک'' ضرور رکھ لیں تاکہ کسی پریشانی سے بچ سکیں۔ ٹرین میں چارجنگ پوائنٹس کی سہولت صرف اے سی کلاس میں دی جاتی ہے جبکہ اکانومی میں یہ سہولت نہیں ہوتی۔
اگر آپ ریل گاڑی میں سفر کرتے وقت کھانے پینے کا سامان نہیں رکھتے تو مشکل میں پڑ سکتے ہیں، کیونکہ مکمل ٹرین آپریشن بحال نہ ہونے کے باعث فی الحال اسٹیشنز کی رونق پہلے کی طرح بحال نہیں جبکہ کھانے پینے کے مکمل اسٹالز بھی کھلے ہوئے نہیں ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ سفر کے دورانیے کے حساب سے کھانے پینے کا سامان رکھیں اور اسٹیشنز سے ملنے والی اشیا کے استعمال سے گریز کریں کیونکہ ایک تو وہ صحت بخش نہیں اور پھر مہنگی بھی فروخت کی جاتی ہیں۔
سفر کے دوران اپنے ساتھ ابتدائی طبی امداد کا سامان بھی ضرور رکھ لیں۔ کیونکہ ریل گاڑی میں یہ سہولت میسر نہیں ہوتی اور نہ کسی ڈاکٹر کا فوری بندوبست ہوپاتا ہے۔ کسی بڑے اسٹیشن پر رکنے کے بعد ہی طبی سہولت میسر آتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ملک میں زیادہ تر بس سروسز نجی کمپنیاں چلاتی ہیں لیکن ریلوے کا محکمہ حکومت کے ماتحت چلتا ہے، جس کا نقصان بھی حکومت کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ریلوے کو سبسڈی کے بغیر نہیں چلایا جاسکتا کیونکہ ریلوے میں سفر کرنے والے بیشتر مسافر غریب اور متوسط طبقے کے ہوتے ہیں۔
سیلاب کے باعث ملک میں ٹرین سروس تقریباً ڈھائی ماہ بند رہی تاہم صورتحال بہتر ہوتے ہی مرحلہ وار ٹرین سروس بحال کی جارہی ہے۔ کراچی سے دیگر شہروں کے درمیان چلنے والی اب تک کل 8 ٹرینیں بحال کردی گئی ہیں جبکہ مزید ٹرینیں اگلے ماہ سے بحال کردی جائیں گی۔ ریلوے کی جانب سے ٹرین آپریشن تو شروع کردیا گیا ہے تاہم ریلوے ٹریک کی ابتر صورتحال کے باعث محکمہ کی جانب سے سفر کے دورانیے میں 4 سے 5 گھنٹوں کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے تاکہ سفر محفوظ بنایا جائے۔
چند روز قبل، ریل گاڑی سے کراچی سے لاہور کے درمیان سفر کرنے کا اتفاق ہوا جس پر معلوم ہوا کہ سفر کا دورانیہ بڑھنے کے باعث مسافروں کو ابتر صورتحال میں ہی سفر کرنا پڑ رہا ہے جبکہ ریلوے کی جانب سے کرایوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اگر آپ بھی ریل کے سفر کےلیے نکل رہے ہیں تو چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنا نہ بھولیے، بصورت دیگر مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ فیملی کے ہمراہ ان باتوں کا خاص خیال رکھیں کیونکہ بچوں کے ساتھ سفر دشوار ہوجاتا ہے۔
شدید متاثرہ ٹریک
سیلاب کے باعث کراچی سے روہڑی کے درمیان ٹریک متاثر ہوا جبکہ نواب شاہ سے خیرپور کے درمیان شدید متاثر ہوا ہے، جس پر ریل گاڑی کا چلنا کسی خطرے سے کم نہیں تھا۔ کراچی سے صادق آباد تک ٹریک اب بھی مخلتف مقامات پر ٹھیک نہیں جس کے باعث ریل کی رفتار 100 تک بھی نہیں پہنچ پاتی۔
سفر کا دورانیہ
کراچی سے لاہور کا سفر عام صورتحال میں ساڑھے 17 سے 18 گھنٹے کا ہوتا ہے لیکن سیلابی صورتحال کے بعد ٹریک کی حالت خراب ہونے کے باعث سفر کے دورانیے میں 4 سے 5 گھنٹے کا اضافہ کردیا گیا ہے، لہٰذا شہری سفر کرنے سے قبل ذہن بنا لیں کہ تقریباً 23 گھنٹے کا سفر کرنا پڑے گا۔ دوران سفر ریل گاڑی کئی مقامات پر رکے گی بھی اور بعض جگہوں پر ''کنٹرولڈ اسپیڈ'' پر چلائی جائے گی۔
ریل گاڑی کی صورتحال
اسٹیشن سے بروقت روانگی کےلیے محکمہ ریلوے پرانی بوگیوں یا بند کی گئی ٹرینوں کی بوگیوں کا استعمال کررہا ہے کیونکہ ریلوے کے پاس اضافی کوچز موجود نہیں۔ پرانی بوگیوں یا دیگر ٹرینوں کی بوگیوں کے استعمال کے باعث ٹرین میں لگے چارجنگ پوائنٹس اکثر خراب نکلتے ہیں، جس سے مسافر شدید اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔ اس لیے مسافر اپنے ہمراہ ''پاور بینک'' ضرور رکھ لیں تاکہ کسی پریشانی سے بچ سکیں۔ ٹرین میں چارجنگ پوائنٹس کی سہولت صرف اے سی کلاس میں دی جاتی ہے جبکہ اکانومی میں یہ سہولت نہیں ہوتی۔
اسٹیشنز کی صورتحال
اگر آپ ریل گاڑی میں سفر کرتے وقت کھانے پینے کا سامان نہیں رکھتے تو مشکل میں پڑ سکتے ہیں، کیونکہ مکمل ٹرین آپریشن بحال نہ ہونے کے باعث فی الحال اسٹیشنز کی رونق پہلے کی طرح بحال نہیں جبکہ کھانے پینے کے مکمل اسٹالز بھی کھلے ہوئے نہیں ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ سفر کے دورانیے کے حساب سے کھانے پینے کا سامان رکھیں اور اسٹیشنز سے ملنے والی اشیا کے استعمال سے گریز کریں کیونکہ ایک تو وہ صحت بخش نہیں اور پھر مہنگی بھی فروخت کی جاتی ہیں۔
ابتدائی طبی امداد
سفر کے دوران اپنے ساتھ ابتدائی طبی امداد کا سامان بھی ضرور رکھ لیں۔ کیونکہ ریل گاڑی میں یہ سہولت میسر نہیں ہوتی اور نہ کسی ڈاکٹر کا فوری بندوبست ہوپاتا ہے۔ کسی بڑے اسٹیشن پر رکنے کے بعد ہی طبی سہولت میسر آتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔