فیصلوں کی درستگی
ملک میں اب صرف اعلیٰ عدلیہ ہی اصل بالاتر ہے کہ جس میں عمران خان کو خاتون جج سے معافی مانگنا پڑی
ایکسپریس نیوز میں تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اب انصاف ہونے سے پہلے ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہاں ہر چیز اصولی، آئین اور قانون کے مطابق بتائی جاتی ہے جب چیزیں طے ہو جاتی ہیں تو پھر سب ٹھیک اور اچھا ہو جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے معاملات طے ہوگئے ہیں۔
ان کا ووٹ کو عزت دو کارڈ کامیاب ہو گیا ہے۔ نواز شریف کو جس قانون کے تحت سزا دی گئی تھی ، اس قانون کو اب کالا قانون قرار دے دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے جائزے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ بار بھی سپریم کورٹ میں کئی ماہ پہلے درخواست دے چکی ہے کہ سپریم کورٹ اس سلسلے میں فل بینچ تشکیل دے کر فیصلہ کرے کہ جن کو ماضی میں تاحیات نااہلی کی سزا دی گئی تھی ان کی نااہلی کی مدت کا تعین سپریم کورٹ خود کرے یا یہ معاملہ پارلیمنٹ کو بھیجے کیونکہ آئین میں اس سلسلے میں ابہام ہے اور نااہلی کی مدت کی وضاحت ضروری ہے۔
سینئر وکلا اور سیاسی و عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ جب سیاسی معاملات پر کوئی مخصوص ججوں پر مشتمل بینچ بنتا ہے تو متوقع فیصلے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بینچ کی تشکیل اور سوموٹو ایکشن کا اختیار حاصل ہے۔
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے جس فیصلے کو غیر قانونی قرار دے کر جس فیصلے میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ قرار دیا گیا تھا اس فیصلے پر بھی سیاسی ناقدین نے اپنی رائے کا الگ سے اظہار کیا کہ ایک فیصلے میں منحرف ارکان کے ووٹ شمار اور دوسرے میں شمار نہیں کیے گئے جو آئین کے خلاف تھا۔ وفاقی حکومت بھی اس سلسلے میں وضاحت کے لیے سپریم کورٹ کے فل بینچ کی درخواست دے چکی ہے اور کئی ماہ بعد بھی یہ مسئلہ حل طلب ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں بڑی تعداد میں سپریم اور ہائی کورٹوں کے ججوں کی بڑی تعداد کو برطرف کر دیا تھا جس پر وکلا نے ملک گیر تحریک چلائی تھی اور میاں نواز شریف نے ججز بحالی تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ججز کی بحالی کا وعدہ پورا نہ کرنے پر پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ عدلیہ بحالی تحریک سے معزول جج بحال ہوئے تھے اور افتخار محمد چوہدری کے دوبارہ چیف جسٹس بننے کے بعد عدلیہ زیادہ مضبوط تصور کی جانے لگی۔
افتخار محمد چوہدری کے دور میں پیپلز پارٹی نے بے حد مشکلات کے باوجود اپنی حکومت کی مدت پوری کرلی تھی اور افتخار محمد چوہدری کے بعد آنے والے تین چیف جسٹس صاحبان سے کسی کو شکایت نہیں تھی مگر میاں ثاقب نثار نے چیف جسٹس بن کر جس جوڈیشل ایکٹیوازم کی بنیاد رکھی تھی آج بھی اس پر بحث کی جاتی ہے۔
اس میں قصور غیر سیاسی ہو جانے والی طاقتور قوتوں کا بھی تھا جن کی مداخلت پر آوازیں خود عدلیہ کی طرف سے بھی اٹھیں اور وکلا کے اجتماعات میں موضوع بحث بنے مگر ثاقب نثار کی پالیسی ملک کے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی۔ سب سے بڑے عدالتی سربراہ نے سیاست میں بھرپور مداخلت کی اور وزیر اعظم نواز شریف سے ذاتی عداوت کو عدالتی احکامات کے ذریعے قوم، سیاست، عدلیہ اور وکلا کو بھی تقسیم کردیا تھا۔
ثاقب نثار نے نواز شریف کو اقامے میں نااہل کرایا کیونکہ پاناما میں تو نواز شریف کا نام نہ تھا۔ تاریخ میں پہلی بار نواز شریف کے خلاف من پسند جے آئی ٹی بنائی گئی جو ملک کی سیاست میں کھلی مداخلت تھی اور افتخار چوہدری کے بعد ثاقب نثار کے دور میں ملک کے دوسرے وزیر اعظم کو نااہل کرایا گیا۔
جنرل ضیا کے دور میں ہی عدلیہ سے جس طرح سابق وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی کی سزا دلائی گئی تھی۔ اس عدالتی فیصلے پر تنقید بعض ججوں نے بھی کی تھی جس کی وجہ سے بھٹو کی پھانسی کو اب تک عدالتی قتل کہا جاتا ہے جس پر سپریم کورٹ میں پیپلز پارٹی کی دی ہوئی درخواست سالوں سے سماعت کی منتظر ہے۔
پاکستان کی عدلیہ میں جسٹس منیر اور جسٹس ثاقب نثار جیسے عدالتی سربراہ ہی نہیں میاں عبدالرشید، جسٹس کارنیلیئس، جسٹس دراب پٹیل، بھگوان داس جیسے قابل فخر عدالتی سربراہ بھی رہے ہیں جنھوں نے تاریخی فیصلے دیے۔
آمر وزرائے اعظم اور فوجی سربراہوں اور بااختیار صدور کے خلاف بھی فیصلے دیے۔ ملکی عدلیہ کا کردار انتہائی شاندار اور قابل تقلید بھی رہا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کا تدارک تو نہیں ہو سکتا مگر غلط فیصلے اب بھی درست کیے جاسکتے ہیں۔ غلطیاں بھی انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔
جن کے اعتراف سے عدالتی اور شخصی کردار بلند ہوتا ہے اسی لیے توقع کی جاتی ہے کہ ماضی کے غلط عدالتی فیصلوں کی درستگی کرکے نیا ریکارڈ قائم اور شکایات دور کی جائیں گی۔
قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی نے ججز تقرری کے طریقہ کار میں ترمیمی بل منظور کرکے سینیٹ کو بھیج دیا ہے جب کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ زندگی بھر کے لیے کسی کو نااہل کردینا آسان نہیں۔ آرٹیکل 62 ون ایف کا ڈیکلریشن بھی عدالت ہی دے گی شواہد کا جائزہ لیے بغیر کسی کو بے ایمان نہیں کہا جاسکتا۔
ملک میں اب صرف اعلیٰ عدلیہ ہی اصل بالاتر ہے کہ جس میں عمران خان کو خاتون جج سے معافی مانگنا پڑی اور عدلیہ نے واضح کردیا ہے کہ کوئی اس کی توہین کی جرأت نہ کرے۔ عدالتی نظام پر عوامی اعتماد کا اظہار قاضی عیسیٰ کے سوال میں مل گیا ہے اس لیے اب دنیا کی 128 عدالتوں کی درجہ بندی میں ملکی عدلیہ کے 121 ویں نمبر پر ہونے کی پوزیشن میں اب بہتری لانا ہوگی۔