ماہِ اکتوبر کی تاریخی اہمیت

ماہِ رواں اکتوبر کئی اہم واقعات سے عبارت ہے جن تمام واقعات کا اس کالم میں احاطہ کرنا ممکن نہیں

S_afarooqi@yahoo.com

ماہِ رواں اکتوبر کئی اہم واقعات سے عبارت ہے جن تمام واقعات کا اس کالم میں احاطہ کرنا ممکن نہیں لیکن ان میں سے چند کا تذکرہ کرنا مقصود ہے۔

ابتدا یکم اکتوبر 1998جب ریڈیو پاکستان کراچی کے FM 101 کی نشریات کا آغاز ہوا تھا ، اس وقت سید انور محمود ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل اور راقم الحروف ریڈیو پاکستان کراچی کا اسٹیشن ڈائریکٹر تھا۔

سب سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس سے قبل چند تکنیکی مسائل کی وجہ سے یہ کام مشکلات کا شکار تھا لیکن اس خاکسار کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ ہماری انجینئرنگ کی ٹیم نے کوششِ بسیار سے اس مسئلے کا حل تلاش کر لیا اور یوں FM 101 کی نشریات کا یہ سفر جاری و ساری ہے۔

ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ۔ سوال یہ تھا کہ اس اہم اور یادگار تقریب کا افتتاح کس شخصیت کے ہاتھوں کرایا جائے۔ میرے دل نے کہا کہ حکیم محمد سعید کے علاوہ بھلا کون سب سے زیادہ موزوں ہوسکتا ہے ، چناچہ میں نے حکیم صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے استدعا کی کہ وہ اپنی گوں نا گوں مصروفیات میں سے تھوڑا سا وقت ہمارے لیے نکال کر تشریف لائیں۔

میرا اصرار تھا کہ ریڈیو پاکستان سے مدتِ دراز سے اْن کے تعلق کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ حکیم صاحب نے بخوشی میری درخواست کو قبول فرما کر میری عزت افزائی فرمائی ۔ اس ماہ کی 3تاریخ کا تذکرہ اس خاکسار کی ذاتی زندگی سے ہے کہ اس دن ہماری شادی خانہ آبادی کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔

اکتوبر کی 12 تاریخ کا تعلق اس واقعے سے ہے کہ 1999 کو اس دن اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ 16 اور 17 کی تاریخیں دو اہم شخصیات کی شہادتوں کی وجہ سے انتہائی اہم ہیں۔

16اکتوبر 1951کو قیامِ پاکستان کے روح رواں اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے دستِ راست اور پاکستان کے سب سے پہلے وزیر اعظم قائدِ ملت لیاقت علی خان کو لیاقت آباد راولپنڈی کے جلسہ عام میں انتہائی سفاکی سے قتل کردیا گیا۔ لیاقت علی خان کوئی معمولی آدمی نہیں تھے بلکہ بہت بڑے نواب تھے جنھوں نے پاکستان کی خاطر اپنا سب کچھ تج دیا اور آخرکار اپنی جان بھی دے دی۔

نواب صاحب نے ہندوستان کے علاقوں مشرقی پنجاب ، یو پی اور دہلی میں اپنی متروکہ املاک چھوڑ دیں اور ایک دمڑی بھی claim نہیں کی۔ اْن کی شہادت کے بعد اْن کی لائق و فائق اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے جو خدمات اس وطن کے لے انجام دیں اْن کے محض تذکرہ ہی کا یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔ اْن کے یومِ شہادت پر اْن کی خدمات کا تذکرہ تو کْجا میڈیا بالخصوص سرکاری میڈیا پر اْن کا ذکر بھی محض رسمی طور پر کیا جاتا ہے ۔


وطنِ عزیز میں ایک لابی لیاقت علی خان کے امیج کو مسخ کرنے کے لیے مسلسل سرگرم ہے۔ اِس لابی کا بس نہیں چلتا کہ اْن کا نام و نشان ہی مٹادیں۔ اِس لابی نے اْن کے خلاف طرح طرح کے افسانے تراشے ہیں اور الزامات لگائے ہیں جن میں یہ الزام بھی شامل ہے کہ انھوں نے روس کو نظر انداز کرکے ملک کو امریکا کے ہاتھوں گروی رکھ دیا۔

اس قسم کے الزامات کی تردید کرنے والوں میں سینئیر سفارت کار ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی بھی شامل ہیں جو اصل حقیقت سے واقف ہیں اور اصل صورتحال کے چشم دید گواہ ہیں۔

اْن کا کہنا ہے کہ سوویت یونین میں پاکستان کے سفیر شعیب قریشی نے اپنی اعلیٰ سفارت کاری اور ذاتی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کے نائب وزیرِ خارجہ گرومیکو کے ذریعے وزیرِ اعظم کے سرکاری دورہ کے لیے اہتمام کردیا تھا جس کے مطابق وزیرِ اعظم کو نومبر 1951 میں روس کے قومی دن کے موقع پر ماسکو جانا تھا۔

لیاقت علی خان نے وزارتِ خارجہ کے ذریعے اس دورے پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے روسی حکومت کو آگاہ کردیا تھا۔ اس دعوت نامے کو حتٰی الامکان خفیہ رکھا گیا۔پروگرام کے مطابق لیاقت علی خان کو روس کے قومی دن کے موقع پر شام کے وقت ماسکو پہنچنا تھا تاکہ وہ جوزف اسٹالین کے عشائیے میں شرکت کرسکیں جو سوویت رہنما اپنے قومی دن کے موقع پر دیتے تھے۔

وزیرِ اعظم نے کمال فراست سے ماسکو پہنچنے کے اوقات مقرر کیے تھے تاکہ وہ سوویت یونین کے قومی دن کی پریڈ میں سلامی کے چبوترے پر موجود نہ رہ کر خارجہ پالیسی میں غیر وابستگی کو برقرار رکھ سکیں۔ سوویت رہنما گرومیکو بعد ازآں مملکت کے صدر کے منصب پر بھی فائز رہے تھے ، جس سے اْن کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ روس کے اس دورے کا علم اْن کی کابینہ اور وزارتِ خارجہ کو تھا، جہاں سے اس خبر کی بھنک غیر ممالک کو پڑ گئی۔

اسی دوران پاکستان میں مقیم امریکی سفیر ایواوارن نے وزیرِ اعظم سے ملاقات کرکے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے حلیفوں کے اتحاد سے متعلق امریکی حکومت کی تجویز پیش کی۔

امریکی سفیر نے جس کا ذکر 12 اکتوبر 1951 کو اپنے ایک سفارتی مراسلے میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو تحریر کیا تھا کہ لیاقت علی خان نے امریکی تجویز پر قطعاً دلچسپی کا اظہار نہیں کیا بلکہ کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کو اْن کے نزدیک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مذکورہ مراسلے کو امریکی حکومتی پالیسی کے مطابق قارئین کے لیے افشا کیا جا چکا ہے۔ امریکی سفیر کے مراسلے کے محض چار دن بعد 16 اکتوبر کو لیاقت علی خان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منظر سے ہٹا دیا گیا۔

17 اکتوبر وہ منحوس دن ہے جب انسانیت کے قاتلوں نے ہمدردِ قوم اور جانثارِ پاکستان حکیم محمد سعید کو نمازِ فجر کے بعد مریضوں کی خدمت کے لیے آتے ہوئے اْن کے مطب کے باہر شہید کردیا۔
Load Next Story