فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا کریڈٹ کس کا
رکن ممالک کے ووٹ سے ہی آپ فیٹف کی گرے اور بلیک لسٹ سے نکل سکتے ہیں
پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ ایک عجیب بحث شروع ہو گئی ہے کہ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنا موجودہ شہباز شریف حکومت کی کامیابی ہے یا عمران خان حکومت سارا کام کر کے چلی گئی تھی اس لیے کامیابی بھی ان کی ہی ہے۔
ویسے تو یہ بحث فضول ہے کیونکہ یہ پاکستان کی کامیابی ہے، لیکن پاکستان میں اس وقت پاکستان کی کامیابی بھی اکٹھے ملکر انجوائے کرنے کا کوئی موسم نہیں ہے۔
اس لیے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ کس کی کامیابی ہے۔ یہ درست ہے کہ آرمی چیف نے پاکستان کو فیٹٖف کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے بہت محنت کی ہے۔
انھوں نے جی ایچ کیو میں ایک سیل بنایا۔ پاکستان کے اندر معاشی اصلاحات کرنے کے لیے بہت کام کیا۔ شاید اگر پاک فوج ان اصلاحات کے لیے اس قدر محنت نہ کرتی تو یہ اصلاحات کرنا ممکن بھی نہ ہوتا۔ اس لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کریڈٹ اپنی جگہ موجود ہے۔ اس سے کوئی انکار ممکن نہیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں معاشی اصلاحات کا کام 2020میں مکمل ہو گیاتھا۔ پاک فوج نے فیٹف کے اکثریتی نکات پر عمل کروادیا تھا، اور آج عمران خان کی ٹیم جو کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذاتی دلچسپی اور جی ایچ کیو میں جو سیل بنایا گیا تھا۔
اس کی مدد کے بغیر فیٹف کے نکا ت پر عمل ممکن نہیں تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت کہ دو سال سے ہم فیٹف کے نکا ت پر عمل کر کے بیٹھے تھے لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی وجہ بنا کر ہمیں فیٹف کی گرے لسٹ میں برقرار رکھا جاتا تھا۔
کیا یہ درست نہیں کہ عمران خان کے دور میں فیٹف کے کم از کم تین اجلاسوں سے پہلے ہمیں یہ بتایا گیا کہ ہم نے فیٹف کی شرائط پوری کر دی ہیں۔ بڑی بڑی پریس کانفرنسیں کی جاتی تھیں کہ ہمارا کام پورا ہے۔ بس ہم نکل جائیں گے۔ اور پھر جب ہمیں فیٹف کی گرے لسٹ میں برقرار رکھا جاتا تو کہہ دیا جاتا کہ بھارت کی لابی بہت مضبوط ہے۔بھارت کی مضبوط لابی ہمیں گرے لسٹ سے نہیں نکلنے دے رہی۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی کمزور سفارتکاری کی وجہ سے کم از کم ڈیڑھ سال سے فیٹف میں پھنسے ہوئے تھے۔ فیٹف کے رکن ممالک ہمارے حق میں ووٹ نہیں ڈال رہے تھے۔
رکن ممالک کے ووٹ سے ہی آپ فیٹف کی گرے اور بلیک لسٹ سے نکل سکتے ہیں۔ ہمیں گرے لسٹ میں برقرار رکھنا اس بات کا ثبوت تھا کہ ہمیں بلیک لسٹ میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ گرے لسٹ میں برقرار رکھنا فیٹف کی طرف سے اعلان تھا کہ وہ ہم سے مطمئن ہے، لیکن پھر یہ عالمی سفارتکاری کا معاملہ ہے۔ گرے لسٹ میں برقراری ہماری عالمی سفارتی تنہائی کا ثبوت تھا۔
یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ہمارے دشمن سفارتکاری میں ہم سے آگے ہیں اور ہمیں شکست دے رہے ہیں۔ صرف یہ کہناکہ بھارت ہمیں نکلنے نہیں دے رہا دراصل اپنی شکست کا اعتراف تھا۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے کئی بیان ریکارڈ پر موجود ہیں کہ بھارت کی وجہ سے ہمیں فیٹف کی گرے لسٹ میں برقرا رکھا گیا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی فرانس کے صدر میکرون سے ملاقات نے کھیل بدلا ہے۔ فیٹف میں فرانس ہمارے خلاف تھا۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ بھارت نے فرانس سے جنگی جہاز خریدے ہیں اس لیے فرانس ہمارے خلاف ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ثابت ہوا۔
حالیہ سیلاب میں شہباز شریف کی فرانس کے صدر سے ملاقات بہت مثبت رہی ۔ میکرون نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر فنڈ ریزنگ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ کہاں بتایا جاتا تھا کہ فرانس بھارت کی وجہ سے ہمارے خلاف ہے اور کہاں اب فرانس ہمارے ساتھ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کامیاب سفارتکاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔
کیسے ہم دشمن کو دوست اور دوست کو دشمن بنا سکتے ہیں۔ فرانس سے تعلقات کی بحالی نے پاکستان کو فیٹف سے نکالنے میں گیم چینجر کا کردار ادا کیا۔
موجودہ حکومت نے فیٹف سے نکلنے کے لیے بہترین سفارتکاری کی ہے۔ جو لوگ بلاول اور حنا ربانی کھر کے یورپ کے دوروں پر سوال اٹھا رہے تھے انھیں آج جواب مل گیا ہوگا جب یورپ کے ممالک پاکستان کے حق میں آئے تو ہی ہم فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
گرے لسٹ میں آنا بھی سفارتی ناکامی تھی اور اس سے نکلنا ایک سفارتی کامیابی ہے۔ جب تک ہم اس میں رہے وہ بھی ہماری سفارتی ناکامی تھی۔یہ دلائل کہ بھارت نکلنے نہیں دے رہا دراصل اپنی ناکامی کا اعتراف تھا۔
فیٹف کے حالیہ اجلاس سے پہلے بھی بھارت نے پاکستا ن کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کے لیے بہت کوشش کی۔ دو دن قبل بھارت کی جانب سے ٖحافظ سعید کے بیٹے اور ایک اور پاکستانی شہری کو اقوام متحدہ سے دہشت گرد قرار دلوانے کے لیے قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے بھی حافظ سعید اور مسعود اظہر کے خلاف اسی قسم کی قراردادوں کی وجہ سے ہی فیٹف میں پھنس گئے تھے۔ اب بھی بھارت کا گیم پلان یہی تھا کہ دو اور نام ڈلوا لیے جائیں اور پھر ان پر کارروائی کے لیے گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کے لیے کہا جائے گا۔
تاہم حکومت کے بروقت اقدامات کی وجہ سے بھارت کی یہ سازش ناکام ہوئی۔ چین نے بھارت کی اس کوشش کو پاکستان کی درخواست پر ناکام کیا۔ اس لیے ایسا نہیں تھا کہ اس بار کوئی بھارت پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کے حق میں تھا۔
یا ایسا بھی نہیں تھا کہ بھارت خاموش ہو گیا تھا۔ اس لیے ہم نکل گئے۔ بلکہ حقائق بتا رہے ہیں کہ بھارت اس دفعہ زیادہ متحرک تھا ۔ وہ نئی قرارداد بھی لایا، لیکن موجودہ حکومت نے بھارت کی تمام سازشیں اپنی موثر سفارتکاری سے ناکام بنائی ہیں۔
عمران خان کی حکومت اپنی تمام تر سفارتی ناکامیاں بھارت پر ڈال دیتی تھی۔ عرب مسلم ممالک نے کشمیر پر ہمارا ساتھ نہیں دیا تو بھارت ذمے دار۔ یورپ ہمارے ساتھ نہیں بھارت ذمے دار۔ امریکا ہمارے خلاف ہے بھارت ذمے دار ہے۔ یہ کیا حکمت عملی تھی کہ آپ اپنے دشمن کے سامنے ناکام ہو رہے ہیں۔ اور اپنی ناکامی کا ملبہ اپنے دشمن پر ڈال رہے ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں اب وہی بھارت ہے وہی بھارت کی سفارتکاری ہے۔ وہی دنیا کے ممالک ہیں۔ وہی عرب ممالک ہیں۔ وہی امریکا ہے ۔
لیکن ماحول بدلا نظرآرہا ہے۔ سفارتکاری ایک آرٹ ہے۔ یہ نا ممکن کو ممکن بناتا ہے۔ دشمن پر ڈالنے کے بجائے اپنی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ دوستوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔ دشمنوں کو دوست بنانا چاہیے۔
اس لیے میں فیٹف کی گرے لسٹ کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو ہی دیتا ہوں۔دنیا کے متعدد ممالک میں ہم سے زیادہ مالیاتی مسائل ہیں لیکن ان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جاتا جو پاکستان کے ساتھ فیٹف میں کیا گیا، لیکن اب شکر ہے ہم نکل گئے ہیں۔
فیٹف ایک سبق ہے کہ عالمی دنیا میں تنہائی ہمارے لیے خطرناک ہے۔ ہمیںدنیا کے ساتھ چلنا ہے۔ دنیا کے ممالک کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہی ہماری کامیابی ہے۔ یہی ہماری سفارتی جنگ ہے۔ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنا ایک سفارتی کامیابی ہے۔
ہم نے ایک ایسی سفارتی جنگ جیتی ہے جو عمران خان کی حکومت مکمل ہار رہی تھی۔ موجودہ حکومت کی یہ کامیابی ایک مثال ہے کہ کامیاب سفارتکاری کسی بھی ملک کے لیے کتنی ناگزیر ہے۔
ویسے تو یہ بحث فضول ہے کیونکہ یہ پاکستان کی کامیابی ہے، لیکن پاکستان میں اس وقت پاکستان کی کامیابی بھی اکٹھے ملکر انجوائے کرنے کا کوئی موسم نہیں ہے۔
اس لیے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ کس کی کامیابی ہے۔ یہ درست ہے کہ آرمی چیف نے پاکستان کو فیٹٖف کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے بہت محنت کی ہے۔
انھوں نے جی ایچ کیو میں ایک سیل بنایا۔ پاکستان کے اندر معاشی اصلاحات کرنے کے لیے بہت کام کیا۔ شاید اگر پاک فوج ان اصلاحات کے لیے اس قدر محنت نہ کرتی تو یہ اصلاحات کرنا ممکن بھی نہ ہوتا۔ اس لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کریڈٹ اپنی جگہ موجود ہے۔ اس سے کوئی انکار ممکن نہیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں معاشی اصلاحات کا کام 2020میں مکمل ہو گیاتھا۔ پاک فوج نے فیٹف کے اکثریتی نکات پر عمل کروادیا تھا، اور آج عمران خان کی ٹیم جو کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذاتی دلچسپی اور جی ایچ کیو میں جو سیل بنایا گیا تھا۔
اس کی مدد کے بغیر فیٹف کے نکا ت پر عمل ممکن نہیں تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت کہ دو سال سے ہم فیٹف کے نکا ت پر عمل کر کے بیٹھے تھے لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی وجہ بنا کر ہمیں فیٹف کی گرے لسٹ میں برقرار رکھا جاتا تھا۔
کیا یہ درست نہیں کہ عمران خان کے دور میں فیٹف کے کم از کم تین اجلاسوں سے پہلے ہمیں یہ بتایا گیا کہ ہم نے فیٹف کی شرائط پوری کر دی ہیں۔ بڑی بڑی پریس کانفرنسیں کی جاتی تھیں کہ ہمارا کام پورا ہے۔ بس ہم نکل جائیں گے۔ اور پھر جب ہمیں فیٹف کی گرے لسٹ میں برقرار رکھا جاتا تو کہہ دیا جاتا کہ بھارت کی لابی بہت مضبوط ہے۔بھارت کی مضبوط لابی ہمیں گرے لسٹ سے نہیں نکلنے دے رہی۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی کمزور سفارتکاری کی وجہ سے کم از کم ڈیڑھ سال سے فیٹف میں پھنسے ہوئے تھے۔ فیٹف کے رکن ممالک ہمارے حق میں ووٹ نہیں ڈال رہے تھے۔
رکن ممالک کے ووٹ سے ہی آپ فیٹف کی گرے اور بلیک لسٹ سے نکل سکتے ہیں۔ ہمیں گرے لسٹ میں برقرار رکھنا اس بات کا ثبوت تھا کہ ہمیں بلیک لسٹ میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ گرے لسٹ میں برقرار رکھنا فیٹف کی طرف سے اعلان تھا کہ وہ ہم سے مطمئن ہے، لیکن پھر یہ عالمی سفارتکاری کا معاملہ ہے۔ گرے لسٹ میں برقراری ہماری عالمی سفارتی تنہائی کا ثبوت تھا۔
یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ہمارے دشمن سفارتکاری میں ہم سے آگے ہیں اور ہمیں شکست دے رہے ہیں۔ صرف یہ کہناکہ بھارت ہمیں نکلنے نہیں دے رہا دراصل اپنی شکست کا اعتراف تھا۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے کئی بیان ریکارڈ پر موجود ہیں کہ بھارت کی وجہ سے ہمیں فیٹف کی گرے لسٹ میں برقرا رکھا گیا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی فرانس کے صدر میکرون سے ملاقات نے کھیل بدلا ہے۔ فیٹف میں فرانس ہمارے خلاف تھا۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ بھارت نے فرانس سے جنگی جہاز خریدے ہیں اس لیے فرانس ہمارے خلاف ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ثابت ہوا۔
حالیہ سیلاب میں شہباز شریف کی فرانس کے صدر سے ملاقات بہت مثبت رہی ۔ میکرون نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر فنڈ ریزنگ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ کہاں بتایا جاتا تھا کہ فرانس بھارت کی وجہ سے ہمارے خلاف ہے اور کہاں اب فرانس ہمارے ساتھ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کامیاب سفارتکاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔
کیسے ہم دشمن کو دوست اور دوست کو دشمن بنا سکتے ہیں۔ فرانس سے تعلقات کی بحالی نے پاکستان کو فیٹف سے نکالنے میں گیم چینجر کا کردار ادا کیا۔
موجودہ حکومت نے فیٹف سے نکلنے کے لیے بہترین سفارتکاری کی ہے۔ جو لوگ بلاول اور حنا ربانی کھر کے یورپ کے دوروں پر سوال اٹھا رہے تھے انھیں آج جواب مل گیا ہوگا جب یورپ کے ممالک پاکستان کے حق میں آئے تو ہی ہم فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
گرے لسٹ میں آنا بھی سفارتی ناکامی تھی اور اس سے نکلنا ایک سفارتی کامیابی ہے۔ جب تک ہم اس میں رہے وہ بھی ہماری سفارتی ناکامی تھی۔یہ دلائل کہ بھارت نکلنے نہیں دے رہا دراصل اپنی ناکامی کا اعتراف تھا۔
فیٹف کے حالیہ اجلاس سے پہلے بھی بھارت نے پاکستا ن کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کے لیے بہت کوشش کی۔ دو دن قبل بھارت کی جانب سے ٖحافظ سعید کے بیٹے اور ایک اور پاکستانی شہری کو اقوام متحدہ سے دہشت گرد قرار دلوانے کے لیے قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے بھی حافظ سعید اور مسعود اظہر کے خلاف اسی قسم کی قراردادوں کی وجہ سے ہی فیٹف میں پھنس گئے تھے۔ اب بھی بھارت کا گیم پلان یہی تھا کہ دو اور نام ڈلوا لیے جائیں اور پھر ان پر کارروائی کے لیے گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کے لیے کہا جائے گا۔
تاہم حکومت کے بروقت اقدامات کی وجہ سے بھارت کی یہ سازش ناکام ہوئی۔ چین نے بھارت کی اس کوشش کو پاکستان کی درخواست پر ناکام کیا۔ اس لیے ایسا نہیں تھا کہ اس بار کوئی بھارت پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کے حق میں تھا۔
یا ایسا بھی نہیں تھا کہ بھارت خاموش ہو گیا تھا۔ اس لیے ہم نکل گئے۔ بلکہ حقائق بتا رہے ہیں کہ بھارت اس دفعہ زیادہ متحرک تھا ۔ وہ نئی قرارداد بھی لایا، لیکن موجودہ حکومت نے بھارت کی تمام سازشیں اپنی موثر سفارتکاری سے ناکام بنائی ہیں۔
عمران خان کی حکومت اپنی تمام تر سفارتی ناکامیاں بھارت پر ڈال دیتی تھی۔ عرب مسلم ممالک نے کشمیر پر ہمارا ساتھ نہیں دیا تو بھارت ذمے دار۔ یورپ ہمارے ساتھ نہیں بھارت ذمے دار۔ امریکا ہمارے خلاف ہے بھارت ذمے دار ہے۔ یہ کیا حکمت عملی تھی کہ آپ اپنے دشمن کے سامنے ناکام ہو رہے ہیں۔ اور اپنی ناکامی کا ملبہ اپنے دشمن پر ڈال رہے ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں اب وہی بھارت ہے وہی بھارت کی سفارتکاری ہے۔ وہی دنیا کے ممالک ہیں۔ وہی عرب ممالک ہیں۔ وہی امریکا ہے ۔
لیکن ماحول بدلا نظرآرہا ہے۔ سفارتکاری ایک آرٹ ہے۔ یہ نا ممکن کو ممکن بناتا ہے۔ دشمن پر ڈالنے کے بجائے اپنی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ دوستوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔ دشمنوں کو دوست بنانا چاہیے۔
اس لیے میں فیٹف کی گرے لسٹ کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو ہی دیتا ہوں۔دنیا کے متعدد ممالک میں ہم سے زیادہ مالیاتی مسائل ہیں لیکن ان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جاتا جو پاکستان کے ساتھ فیٹف میں کیا گیا، لیکن اب شکر ہے ہم نکل گئے ہیں۔
فیٹف ایک سبق ہے کہ عالمی دنیا میں تنہائی ہمارے لیے خطرناک ہے۔ ہمیںدنیا کے ساتھ چلنا ہے۔ دنیا کے ممالک کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہی ہماری کامیابی ہے۔ یہی ہماری سفارتی جنگ ہے۔ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنا ایک سفارتی کامیابی ہے۔
ہم نے ایک ایسی سفارتی جنگ جیتی ہے جو عمران خان کی حکومت مکمل ہار رہی تھی۔ موجودہ حکومت کی یہ کامیابی ایک مثال ہے کہ کامیاب سفارتکاری کسی بھی ملک کے لیے کتنی ناگزیر ہے۔