ریکوڈک کیس میں کینیڈین کمپنی و دیگر کو نوٹس
عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی
سپریم کورٹ نے ریکوڈک صدارتی ریفرنس میں کینیڈا کی مائننگ فرم بیرک گولڈ کمپنی کو نوٹس جاری کر دیا۔
ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
عدالت عظمیٰ نے بلوچستان حکومت، او جی ڈی سی ایل، پاکستان پیٹرولیم کمپنی اور گورنمنٹ ہولڈنگ کمپنی کو بھی نوٹس جاری کر دیے جبکہ پاکستان بار کونسل کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیا گیا۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ ریکوڈک کیس میں اب تک کے معاہدوں اور معاملات کی تفصیلات پیش کروں گا، حکومت بلوچستان نے 1993 میں چاغی ہل جوائنٹ وینچر معاہدہ کیا، سال 2000 میں ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 240 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی، سونے کی کانکنی کے معاہدے کے خلاف 2006 میں بلوچستان ہائیکورٹ میں آئینی درخواست آئی جو خارج ہوئی۔
ایڈشنل اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ نے 2013 میں چاغی ہل جوائنٹ وینچر کو غیر قانونی قرار دیا، ٹیتھیان کاپر کمپنی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عالمی عدالتوں سے رجوع کیا لیکن عالمی عدالتوں نے پاکستان پر جرمانہ عائد کیا جو 9 ارب ڈالرز سے زیادہ کا ہے، ریکوڈک کے مجوزہ معاہدے کے تحت حکومت پاکستان کو 25 فیصد اور بیرک گولڈ کمپنی کو 50 فیصد شیئر ملے گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ حکومت بلوچستان کو ریکوڈک معاہدے سے کیا شیئر ملے گا؟ بیرک گولڈ کمپنی کو 50 فیصد شیئر کیوں مل رہا ہے؟ ریکوڈک اصل میں ملکیت کس کی ہے؟
ایڈشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت بلوچستان کو 25 فیصد شیئر مل رہا ہے جبکہ ان کی ادائیگی وفاقی حکومت کر رہی ہے، ریکوڈک معاہدے سے 104 ارب ڈالرز کا منافع آئے گا جبکہ وفاق اور حکومت بلوچستان کو ریکوڈک معاہدے سے 62 فیصد منافع ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیتھیان کاپر کمپنی کو اتنی بڑی سرمایہ کاری کے لیے ٹھوس یقین دہانی چاہیے، اگر عدالت اجازت نہیں دیتی تو پاکستان کو 9 ارب ڈالرز ادا کرنا ہوں گے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ حکومت پاکستان 9 ارب ڈالرز کہاں سے ادا کرے گی؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے ہی پاکستان پی آئی اے کیس میں روزویلٹ ہوٹل بچا رہا ہے، اگر 9 ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنا پڑی تو پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو سکے گی۔
سپریم کورٹ نے ایڈشنل اٹارنی جنرل کو کیس میں عدالتی معاونین کے نام تجویز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی۔