عالمی جوہری تحفظ سربراہ کانفرنس میں وزیر اعظم کا جاندار مؤقف
تحفہ تو بھیج دیا گیا اب جواباً ہم سے کیا توقع رکھی جائے گی ...
سعودی عرب کے کراؤن پرنس سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور بحرین کے شاہ حمد بن عیسیٰ الخلیفہ دوروں کے دوران دو طرفہ تعاون کے حوالے سے طے پانے والے معاہدوں اور بات چیت کو اس وقت یکسر پس پشت ڈال دیا گیا جب سعودی عرب کے شاہی خزانے سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم حکومت پاکستان کو بطور تحفہ دے دی گئی۔
بحث چل نکلی کہ وزیراعظم نواز شریف نے وزارتِ عظمیٰ تو 5 جون 2013 کو سنبھالی سعودی حکام کو پاکستان کی مالی مشکلات دیکھنے اور محسوس کرنے میں نو ماہ لگے۔ اگلا سوال یہ تھا کہ تحفہ تو بھیج دیا گیا اب جواباً ہم سے کیا توقع رکھی جائے گی، غرض بہت سی افواہیں عروج پر رہیں مگر نواز شریف اور بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد نے بروقت وضاحت کر دی کہ پاکستان اپنے فوجی کسی برادر اسلامی ملک نہیں بھیج رہا۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان موجود سرحدی علاقے میں انٹیلی جینس معاملات کے حوالے سے پاکستان کی ماہرانہ خدمات درکار ہیں۔ پاکستان لڑاکا فوج، طیارے یا ساز و سامان اگر بھیجے تو اعتراض کرنے والے اعتراض ضرور کریں مگر جس طرح ہم اپنے ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ، مزدور اور ٹیکنیشنز دنیا بھر میں افرادی قوت کی برآمد کی مد میں بھیج کر لاکھوں نہیں کروڑوں ڈالر سالانہ کا زرمبادلہ کما رہے ہیں، اس طرح برادر اسلامی ممالک کو اگر ہمارے انٹیلی جینس ماہرین کی اِن ڈور، اِن کیمرہ خدمات درکار ہیں تو کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے پر شور و غوغا کرنے والے حکومتی ذمہ داران سے یہ پوچھنے میں قطعاً دلچسپی نہیں رکھتے کہ اس ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم کا استعمال کیا ہو گا اور یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے کہ ہم بات زیادہ کرتے ہیں اور عمل بہت کم۔ مثلاً تھر کے متاثرین کا معاملہ سامنے آیا تو وزیراعظم نواز شریف نے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ مگر عملی طور پر سندھ کے وزیراعلیٰ اور ان کے معتمدِ خاص شرجیل میمن کہتے ہیں کہ اتنے روز گزر گئے ابھی تک ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے صورتحال واضح کرتے ہوئے کہا کہ 50 کروڑ جاری کر دیے ہیں اور باقی ماندہ 50 کروڑ بجٹ 2014ء کے بعد جون میں دیے جائیں گے یہی صورتحال وطن عزیز کے ہر شعبے میں ہے کہ فیصلے اور باتیں بڑی بڑی ہوتی ہیں مگر عملی طور پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ عمران خان نے خیبر پختونخوا میں موبائل کورٹ کے منصوبے کا آغاز کرتے ہوئے ایسے ہی بلند و بانگ دعوے کیے مگر آج صورتحال یہ ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کی عمارت میں موجود موبائل عدالت کی گرین بس کھڑی کھڑی زنگ آلود ہو رہی ہے۔ وطن عزیز میں عام آدمی اپنے قائدین و لیڈران کی باتیں سن سن کر تنگ آ چکا ہے وہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ بہتری کب آئے گی ۔ موسم سرما میں عام آدمی قدرتی گیس کے لیے تڑپتا رہا اب گرمیوں میں پوری قوم بجلی کی راہیں دیکھتی رہے گی۔
وزیراعظم نواز شریف نے ملکی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے معاملے کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ہوا ہے کہ ہیگ میں ہونے والی تیسری عالمی سربراہی جوہری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھی انہوں نے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کی خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان ایک مسلمہ ایٹمی قوت ہے اور اسے صحت، توانائی اور تحقیق کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی جائے اور پاکستان کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھی شامل کیا جائے۔ امریکی صدر باراک اوباما سے ان کی ملاقات رسمی سی رہی مگر امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ کی توجہ پاک بھارت معاملات اور مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت کی جانب دلائی۔ وزیراعظم نواز شریف کا اس اہم موقع پر یہ کہنا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالث مقرر کرنے پر تیار نہیں تو امریکہ کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر کردار ادا کرے۔ وزیراعظم نواز شریف نے عالمی سربراہوں کی ہیگ کانفرنس میں موجودگی کے اہم موقع پر سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول، مسئلہ کشمیر کے حل اور ڈرون حملے رکوانے کی ضرورت جیسے اہم مسائل کی جانب بروقت اور موثر نشاندہی کی۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری کی جانب سے پاکستان ایٹمی پروگرام کی سکیورٹی پر اعتماد کے اظہار سے بھی اقوام عالم میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔
خارجہ محاذ پر اگر ہمارے وزیراعظم کامیاب سفارت کاری کے جوہر دکھا رہے ہیں تو داخلی محاذ پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی خاموش قیادت کرتے ہوئے طالبان قیادت سے مذاکرات کا معاملہ اہم ترین موڑ پر لے آئے ہیں۔ آئندہ چند گھنٹوں میں حکومت اور طالبان کے نمائندے صوبہ خیبر پختونخوا کے کسی نامعلوم مقام پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے جنگ بندی، قیدیوں کی واپسی، نقصانات کے ازالے اور متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو جیسے معاملات کو نمٹانے کی کوششیں کر رہے ہوں گے۔ امن کی خواہاں پاکستانی قوم کا ہر فرد ان مذاکرات کی کامیابی چاہتا ہے ۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ابتدائی دس ماہ کے دوران پارلیمنٹ سے سب اچھے کی رپورٹ آتی رہی مگر اب شایدحکومت کے لیے اپوزیشن کے تیور کچھ اچھے معلوم نہیں ہوتے۔ گزشتہ شام قومی اسمبلی میں اس وقت قائد حزب اختلاف آگ بگولہ ہو گئے جب شیخ رشید کو کینیڈا روانگی کے وقت جہاز سے آف لوڈ کیے جانے کے معاملے پر تحریک استحقاق پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے معمول کی وضاحت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حکومت پر تنقید کے تیر برسانا شروع کر دیے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے محض یہ کہا کہ امریکیوں سے پوچھا جائے کہ وہ کیوں ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ جسے چاہتے ہیں جانے دیتے ہیں جسے چاہتے ہیں جہاز سے اتار لیتے ہیں اور وجہ بھی نہیں بتاتے، جبکہ شیخ رشید احمد ایک منتخب رکن پارلیمنٹ ہیں۔
وزیر داخلہ نے جواباً وضاحت کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہمیں امریکیوں سے بات کرنے کا درس دینے والوں کو سب جانتے ہیں کہ گزشتہ دور حکومت میں یہی امریکیوں کے سامنے لیٹ گئے تھے، انہی کے دور میں ایوی ایشن معاہدے کیے گئے۔ امریکیوں کے سامنے لیٹ جانے کے طعنے پر قائد حزب اختلاف سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام اراکین اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر اسمبلی ہال میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سپیکر قومی اسمبلی کو بارہا یہ وارننگ دینا پڑی کہ اگر ہاؤس ان آرڈر نہ ہوا تو مجھے اجلاس ہی ختم کرنا پڑے گا۔ بہرحال سید خورشید شاہ کی یہ وارننگ بڑی معنی خیز تھی کہ اگر حکومتی اراکین اور وزراء کا روّیہ درست نہ ہوا تو پھر وہی گو بابا گو والا پارلیمانی دور واپس آ سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے لیے یہ گویا تربیتی سیشن تھا ،البتہ امید رکھنی چاہیے کہ یہ تربیتی سیشن اب مزید آگے نہ بڑھایا جائے گا اور پارلیمنٹ میں ملک و قوم کی ترقی خوشحالی اور فلاح و بہبود سے متعلق ضروری قانون سازی ہی کی جائے گی۔
بحث چل نکلی کہ وزیراعظم نواز شریف نے وزارتِ عظمیٰ تو 5 جون 2013 کو سنبھالی سعودی حکام کو پاکستان کی مالی مشکلات دیکھنے اور محسوس کرنے میں نو ماہ لگے۔ اگلا سوال یہ تھا کہ تحفہ تو بھیج دیا گیا اب جواباً ہم سے کیا توقع رکھی جائے گی، غرض بہت سی افواہیں عروج پر رہیں مگر نواز شریف اور بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد نے بروقت وضاحت کر دی کہ پاکستان اپنے فوجی کسی برادر اسلامی ملک نہیں بھیج رہا۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان موجود سرحدی علاقے میں انٹیلی جینس معاملات کے حوالے سے پاکستان کی ماہرانہ خدمات درکار ہیں۔ پاکستان لڑاکا فوج، طیارے یا ساز و سامان اگر بھیجے تو اعتراض کرنے والے اعتراض ضرور کریں مگر جس طرح ہم اپنے ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ، مزدور اور ٹیکنیشنز دنیا بھر میں افرادی قوت کی برآمد کی مد میں بھیج کر لاکھوں نہیں کروڑوں ڈالر سالانہ کا زرمبادلہ کما رہے ہیں، اس طرح برادر اسلامی ممالک کو اگر ہمارے انٹیلی جینس ماہرین کی اِن ڈور، اِن کیمرہ خدمات درکار ہیں تو کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے پر شور و غوغا کرنے والے حکومتی ذمہ داران سے یہ پوچھنے میں قطعاً دلچسپی نہیں رکھتے کہ اس ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم کا استعمال کیا ہو گا اور یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے کہ ہم بات زیادہ کرتے ہیں اور عمل بہت کم۔ مثلاً تھر کے متاثرین کا معاملہ سامنے آیا تو وزیراعظم نواز شریف نے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ مگر عملی طور پر سندھ کے وزیراعلیٰ اور ان کے معتمدِ خاص شرجیل میمن کہتے ہیں کہ اتنے روز گزر گئے ابھی تک ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے صورتحال واضح کرتے ہوئے کہا کہ 50 کروڑ جاری کر دیے ہیں اور باقی ماندہ 50 کروڑ بجٹ 2014ء کے بعد جون میں دیے جائیں گے یہی صورتحال وطن عزیز کے ہر شعبے میں ہے کہ فیصلے اور باتیں بڑی بڑی ہوتی ہیں مگر عملی طور پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ عمران خان نے خیبر پختونخوا میں موبائل کورٹ کے منصوبے کا آغاز کرتے ہوئے ایسے ہی بلند و بانگ دعوے کیے مگر آج صورتحال یہ ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کی عمارت میں موجود موبائل عدالت کی گرین بس کھڑی کھڑی زنگ آلود ہو رہی ہے۔ وطن عزیز میں عام آدمی اپنے قائدین و لیڈران کی باتیں سن سن کر تنگ آ چکا ہے وہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ بہتری کب آئے گی ۔ موسم سرما میں عام آدمی قدرتی گیس کے لیے تڑپتا رہا اب گرمیوں میں پوری قوم بجلی کی راہیں دیکھتی رہے گی۔
وزیراعظم نواز شریف نے ملکی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے معاملے کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ہوا ہے کہ ہیگ میں ہونے والی تیسری عالمی سربراہی جوہری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھی انہوں نے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کی خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان ایک مسلمہ ایٹمی قوت ہے اور اسے صحت، توانائی اور تحقیق کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی جائے اور پاکستان کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھی شامل کیا جائے۔ امریکی صدر باراک اوباما سے ان کی ملاقات رسمی سی رہی مگر امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ کی توجہ پاک بھارت معاملات اور مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت کی جانب دلائی۔ وزیراعظم نواز شریف کا اس اہم موقع پر یہ کہنا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالث مقرر کرنے پر تیار نہیں تو امریکہ کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر کردار ادا کرے۔ وزیراعظم نواز شریف نے عالمی سربراہوں کی ہیگ کانفرنس میں موجودگی کے اہم موقع پر سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول، مسئلہ کشمیر کے حل اور ڈرون حملے رکوانے کی ضرورت جیسے اہم مسائل کی جانب بروقت اور موثر نشاندہی کی۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری کی جانب سے پاکستان ایٹمی پروگرام کی سکیورٹی پر اعتماد کے اظہار سے بھی اقوام عالم میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔
خارجہ محاذ پر اگر ہمارے وزیراعظم کامیاب سفارت کاری کے جوہر دکھا رہے ہیں تو داخلی محاذ پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی خاموش قیادت کرتے ہوئے طالبان قیادت سے مذاکرات کا معاملہ اہم ترین موڑ پر لے آئے ہیں۔ آئندہ چند گھنٹوں میں حکومت اور طالبان کے نمائندے صوبہ خیبر پختونخوا کے کسی نامعلوم مقام پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے جنگ بندی، قیدیوں کی واپسی، نقصانات کے ازالے اور متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو جیسے معاملات کو نمٹانے کی کوششیں کر رہے ہوں گے۔ امن کی خواہاں پاکستانی قوم کا ہر فرد ان مذاکرات کی کامیابی چاہتا ہے ۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ابتدائی دس ماہ کے دوران پارلیمنٹ سے سب اچھے کی رپورٹ آتی رہی مگر اب شایدحکومت کے لیے اپوزیشن کے تیور کچھ اچھے معلوم نہیں ہوتے۔ گزشتہ شام قومی اسمبلی میں اس وقت قائد حزب اختلاف آگ بگولہ ہو گئے جب شیخ رشید کو کینیڈا روانگی کے وقت جہاز سے آف لوڈ کیے جانے کے معاملے پر تحریک استحقاق پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے معمول کی وضاحت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حکومت پر تنقید کے تیر برسانا شروع کر دیے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے محض یہ کہا کہ امریکیوں سے پوچھا جائے کہ وہ کیوں ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ جسے چاہتے ہیں جانے دیتے ہیں جسے چاہتے ہیں جہاز سے اتار لیتے ہیں اور وجہ بھی نہیں بتاتے، جبکہ شیخ رشید احمد ایک منتخب رکن پارلیمنٹ ہیں۔
وزیر داخلہ نے جواباً وضاحت کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہمیں امریکیوں سے بات کرنے کا درس دینے والوں کو سب جانتے ہیں کہ گزشتہ دور حکومت میں یہی امریکیوں کے سامنے لیٹ گئے تھے، انہی کے دور میں ایوی ایشن معاہدے کیے گئے۔ امریکیوں کے سامنے لیٹ جانے کے طعنے پر قائد حزب اختلاف سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام اراکین اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر اسمبلی ہال میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سپیکر قومی اسمبلی کو بارہا یہ وارننگ دینا پڑی کہ اگر ہاؤس ان آرڈر نہ ہوا تو مجھے اجلاس ہی ختم کرنا پڑے گا۔ بہرحال سید خورشید شاہ کی یہ وارننگ بڑی معنی خیز تھی کہ اگر حکومتی اراکین اور وزراء کا روّیہ درست نہ ہوا تو پھر وہی گو بابا گو والا پارلیمانی دور واپس آ سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے لیے یہ گویا تربیتی سیشن تھا ،البتہ امید رکھنی چاہیے کہ یہ تربیتی سیشن اب مزید آگے نہ بڑھایا جائے گا اور پارلیمنٹ میں ملک و قوم کی ترقی خوشحالی اور فلاح و بہبود سے متعلق ضروری قانون سازی ہی کی جائے گی۔