ارشد شریف ہلاکت کینیا کے میڈیا نے اپنی ہی پولیس پر سوالات اُٹھا دیئے

کینیا کا مقامی میڈیا پولیس کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے بلکہ تفتیش میں جھول پر بھی کڑے سوالات پوچھ رہا ہے


ویب ڈیسک October 25, 2022
کینیا کی مقامی میڈیا نے ارشد شریف کے قتل پر سوالات اُٹھادیئے، فوٹو: فائل

کینیا کا مقامی میڈیا سینئر صحافی ارشد شریف کی پولیس کے ہاتھوں موت پر متذبذب دکھائی دے رہا ہے اور انویسٹی گیٹو صحافیوں نے ملکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھادیئے۔

کینیا میں ناکے پر کار نہ روکنے پر پولیس کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی ہلاکت سے صحافی برادری میں اضطراب پھیل گیا ہے اور تمام ہی صحافی تنظیموں نے ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

کینیا کا مقامی میڈیا بھی پولیس رپورٹ سے مطمئن نہیں اور پولیس کارکردگی پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ ایک مقامی چینل نے اپنی رپورٹ میں سوال کیا کہ ابھی تک یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ کینیا پولیس نے ارشد شریف کی گاڑی روکنے کا اشارہ کیا تھا تو کیا ڈرائیور نے یہ حکم نہیں مانا۔

یہ خبر پڑھیں : ارشد شریف شناخت میں غلطی کے باعث پولیس فائرنگ کا نشانہ بنے، کینیا

ایک اخبار نے اپنے آرٹیکل میں سوال کیا کہ اگر کار سے کوئی فائرنگ نہیں ہوئی تو پولیس نے کیوں براہ راست فائرنگ کی اور پہلے ٹائر پر گولی مار کر انھیں کیوں نہ روکا گیا۔

ایک اور تجزیہ کار نے مقامی چینل پر سوال اُٹھایا کہ اگر کار اشارے کرنے کے باوجود نہ رکی تو پولیس نے ڈرائیورکے بجائے ان کے برابر کی نشست پر بیٹھے مسافر کو کیوں نشانہ بنایا۔

اسی طرح ایک محکمہ پولیس کے ایک سابق تفتیش کار نے ٹاک شو میں کہا کہ اگر پولیس کو لگا کہ گاڑی میں مبینہ طور پر مغوی بچہ موجود ہے تو پھر پولیس نے کار پر 9 گولیاں کیوں برسائیں ؟ کیا انھیں یہ خوف نہیں ہوا کہ بچہ بھی گولی کا نشانہ بن سکتا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : ارشد شریف کا جسد خاکی پاکستان روانہ کر دیا گیا، وزیراطلاعات

انویسٹی گیٹو صحافت سے منسلک ایک تجربہ کار صحافی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ کیا پولیس کو یہ اطلاع نہیں دی گئی تھی کہ جس کار میں مغوی بچہ ہے۔ اس کا رنگ اور ماڈل کیا ہے جو انھیں غلط فہمی ہوئی کہ یہی اغواکاروں کی گاڑی ہے۔

اس واقعے کے بعد سے کینیا کا مقامی میڈیا الجزیرہ کی وہ رپورٹ بھی دوبارہ دکھا رہا ہے جس میں کینیا میں متحرک کرایہ کے قاتلوں پر ایک مفصل رپورٹ دکھائی گئی تھی۔ رپورٹ میں ہولناک انکشافات کیے گئے تھے۔

 

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں