پُرامن ریلیوں عوامی جلسوں کا انعقاد
یومِ پاکستان پر سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں کے اجتماعات
صوبۂ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں یومِ پاکستان پر جہاں حب الوطنی اور نظریۂ پاکستان کی حمایت و حفاظت کے عزم کے ساتھ حکومتی اراکین، مختلف اداروں کے سربراہان اور سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ریلیاں نکالیں اور جلسے کیے۔
وہیں پاکستان مخالف اور سندھ کی آزادی کا نعرہ لگانے والے بھی شاہراہوں سے گزرے اور جلسہ بھی کیا۔ اس طرح کراچی میں ایک طرف پُرمسرت آوازیں گونج رہی تھیں، اور دوسری جانب غصیل شور سنائی دیتا رہا۔ ایک اجتماع میں پاکستان زندہ باد اور دوسرے میں پاکستان نہ کھپے کے نعرے لگائے گئے، لیکن غنیمت ہے کہ کسی قسم کی بدنظمی نہیں ہوئی اور امن و امان برقرار رہا۔
23 مارچ کو سرکاری سطح پر منعقدہ تقریبات میں شرکت کے ساتھ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، منتخب اراکینِ اسمبلی اور سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں نے مزار قائد پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ یومِ پاکستان پر سینئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو، اویس مظفر، میر ہزار خان بجارانی، علی گوہر خان مہر، شرمیلا فاروقی، گیان چند اسرانی، متحدہ کے سید سردار احمد، رؤف صدیقی اور دیگر اعلیٰ حکام نے مزارِ قائد پر حاضری دی۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی رؤف اختر فاروقی نے بھی 23 مارچ کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر اور شہریوں کی جانب سے پھولوں کی چادر چڑھائی۔ بلدیہ عظمیٰ کے دیگر افسران بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان راہ نماؤں نے بانیِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا اور بحیثیت پاکستانی اپنے وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ان راہ نماؤں کا کہنا تھاکہ وطن عزیز کو حقیقی معنوں میں آزاد، خود مختار اور ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے قائد اعظم اور اکابرینِ ملت کے تصور پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لائیں گے۔ یوم پاکستان پر مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں اور انجمنوں کی جانب سے خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ان تقاریب میں 23 مارچ 1940 کی قرار داد کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی اور قیام پاکستان سے متعلق اکابرین کی جدوجہد اور قربانیوں کا ذکر کیاگیا۔
یومِ پاکستان کی تقریبات سے متعلق قومی سیاست میں سرگرم جماعتوں میں سب سے پہلے جماعتِ اسلامی کا ذکر کرتے ہیں، جس نے پچھلے ماہ عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا تھا۔ انہی دنوں رابطہ مہم کا اختتام 23 مارچ کو تحفظِ پاکستان کنونشن کے ساتھ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ اپنے اسی اعلان کے مطابق جماعتِ اسلامی نے شہر کے نشتر پارک میں جلسے کا اہتمام کیا۔ بلند اور طویل اسٹیج کو قومی پرچم اور پارٹی کے جھنڈوں سے سجایا گیا تھا۔ شہر بھر سے ریلیوں اور قافلوں کی صورت میں جماعتِ اسلامی کے کارکنان اور مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے جلسہ گاہ پہنچے، جو خوب صورت ملی نغموں اور ترانوں سے گونج رہا تھا۔
اس موقع پر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منورحسن نے خطاب میں کہاکہ نوازشریف شریعت کی طر ف بڑھیں، شریعت بھی ان کی طرف بڑھے گی۔ طالبان بھی ملک کے شہری ہیں، نظریۂ پاکستان اور قائداعظم کا مذاق اڑانے کی کوشش نہ کی جائے،آزادانہ خارجہ پالیسی بنائی جائے، امریکی مداخلت بند کی جائے، طاقت کے وحشیانہ استعمال سے گریز کیا جائے، بھارت سے دوستی کا مطلب کشمیریوں کے ساتھ دشمنی ہے، نوازشریف بھارت سے دوستی کی باتیں کر کے کشمیریوں کے زخموں پر نمک نہ چھڑکیں۔ اس موقع پر انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کراچی میں ایک لاکھ اراکین بنا کر تبدیلی کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ مہم حالات کی تبدیلی اور امن و خوش حالی کے لیے نوید ثابت ہوگی۔
کنونشن سے جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے امیر اور طالبان مذاکرات کمیٹی کے اہم رکن پروفیسر ابراہیم، امیر جماعت اسلامی (سندھ) ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی، امیر جماعت اسلامی (کراچی) حافظ نعیم الرحمن، اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلی زبیر حفیظ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اسٹیج پر فرائض جماعت اسلامی کے نائب امیر نصراللہ خان شجیع نے ادا کیے۔ اس جلسے میں ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا عزم کیا گیا۔ کنونشن میں نج کاری، امن و امان، منہگائی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور دیگر مسائل پر مختلف قراردادیں بھی پیش کی گئیں۔ سید منورحسن نے جماعت اسلامی کی کراچی کی تنظیم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آندھیوں اور اندھیروں میں امید کے چراغ روشن کیے ہیں اور کراچی کے ایک لاکھ افراد کو رکن بنا کر تبدیلی کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کراچی کی جماعت نے میدان عمل میں نکل کر دلوں کو جوڑنے اور منزل کے نشانات کو روشن کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس ملک نے آمریت اور جمہویت کا دور دیکھا ہے۔
لیکن نہ ملک کے حالات بدلے اور نہ قوم کو خوش حالی امن اور سکون نصیب ہوا۔ ملٹری آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، بلوچستان میں آپریشن جاری ہے، لیکن وہاں کے عوام محرومی سے دوچار ہیں اور دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ طالبان سے ہمارا اختلاف بندوق کی نوک پر اور طاقت کے زور سے شریعت کے نفاذ کی کوششوں پر ہے۔ مذاکرات کی میز بچھی رہنی چاہیے، لیکن شریعت بھی نافذ کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں ہم میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں، لیکن اقتدار والوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ اس موقع پر ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی نے کہا کہ نشتر پارک میں جمع ہونے والوں کا اعلان ہے کہ سبز ہلالی پرچم ہمیشہ لہراتا رہے گا۔ کراچی میں رہنے والوں سے ان کے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے، وڈیروں اور جاگیرداروں کے خلاف بولنے والے آج پھر ان کے ساتھ اتحاد کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے نوجوان جماعت اسلامی کی قیادت کا ساتھ دیں، حالات ضرور بدلیں گے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ شہر میں دہشت گردی عروج پر ہے، جماعتِ اسلامی حالات کو بدلنے اور عوام کے تعاون سے شہر کو ترقی اور خوش حالی کے راستے پر ڈالنے کی جدوجہد کرے گی۔ شہریوں نے ممبر سازی مہم کی پزیرائی کی ہے، جو ان کے اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، لیکن آج بانی پاکستان قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے اور ملک کو سیکولر بنانے کی سازش کی ہورہی ہے۔ حالات بدلنے کے لیے ایک بڑی تحریک چلانے کی ضرورت ہے، ہم بندوق کے مقابلے میں کبھی بندوق نہیں اٹھائیں گے بلکہ اپنی دعوت اور کردار سے ایک ایک گھر اور ایک ایک فرد تک پہنچیں گے۔
کراچی میں جماعۃ الدعوۃ نے بھی یوم پاکستان پر تحفظِ نظریہ پاکستان کے نام سے اجتماع کیا۔ شہر کی معروف شاہراہوں سے اس جماعت کے قافلے نہایت منظم انداز سے ذمہ داروں کی قیادت میں گزرے اور پریس کلب پہنچے۔ مولانا امیر حمزہ، مزمل اقبال ہاشمی اور دیگر نے اپنے خطاب میں ملکی سطح پر اتحاد اور اتفاق کی ضرورت پر زور دیا اور نظریۂ پاکستان کی حمایت میں تقاریر کیں۔ اسی طرح سنی تحریک، متحدہ علما محاذ پاکستان اور دیگر مذہبی جماعتوں کی طرف سے بھی یومِ پاکستان پر مختلف تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔
اُدھر قوم پرست جماعت جیے سندھ قومی محاذ(جسقم) نے سب سے مختلف راستہ اپناتے ہوئے فریڈم مارچ کیا۔ اس کی قیادت تنظیم کے چیئرمین صنعان قریشی اور وائس چیئرمین ڈاکٹر نیاز کالانی کر رہے تھے۔ یہ مارچ گلشن حدید سے شروع ہوا اور تبت سینٹر پہنچا۔ مارچ کے شرکا 'پاکستان نہ کھپے اور سندھ مانگ رہا ہے آزادی' کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس مارچ میں جیے سندھ محاذ، قومی عوامی تحریک، سندھ یونائٹیڈ پارٹی اور سندھ ترقی پسند پارٹی کے کارکنوں نے بھی شرکت کی۔ جلسے سے صنعان قریشی اور دیگر نے خطاب میں دنیا سے اپیل کی کہ سندھ کی آزادی کے لیے ان کی مدد کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ ہمیشہ آزاد ریاست رہی ہے، پاکستان میں شامل ہونے کے بعد اس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔
وہیں پاکستان مخالف اور سندھ کی آزادی کا نعرہ لگانے والے بھی شاہراہوں سے گزرے اور جلسہ بھی کیا۔ اس طرح کراچی میں ایک طرف پُرمسرت آوازیں گونج رہی تھیں، اور دوسری جانب غصیل شور سنائی دیتا رہا۔ ایک اجتماع میں پاکستان زندہ باد اور دوسرے میں پاکستان نہ کھپے کے نعرے لگائے گئے، لیکن غنیمت ہے کہ کسی قسم کی بدنظمی نہیں ہوئی اور امن و امان برقرار رہا۔
23 مارچ کو سرکاری سطح پر منعقدہ تقریبات میں شرکت کے ساتھ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، منتخب اراکینِ اسمبلی اور سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں نے مزار قائد پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ یومِ پاکستان پر سینئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو، اویس مظفر، میر ہزار خان بجارانی، علی گوہر خان مہر، شرمیلا فاروقی، گیان چند اسرانی، متحدہ کے سید سردار احمد، رؤف صدیقی اور دیگر اعلیٰ حکام نے مزارِ قائد پر حاضری دی۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی رؤف اختر فاروقی نے بھی 23 مارچ کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر اور شہریوں کی جانب سے پھولوں کی چادر چڑھائی۔ بلدیہ عظمیٰ کے دیگر افسران بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان راہ نماؤں نے بانیِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا اور بحیثیت پاکستانی اپنے وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ان راہ نماؤں کا کہنا تھاکہ وطن عزیز کو حقیقی معنوں میں آزاد، خود مختار اور ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے قائد اعظم اور اکابرینِ ملت کے تصور پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لائیں گے۔ یوم پاکستان پر مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں اور انجمنوں کی جانب سے خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ان تقاریب میں 23 مارچ 1940 کی قرار داد کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی اور قیام پاکستان سے متعلق اکابرین کی جدوجہد اور قربانیوں کا ذکر کیاگیا۔
یومِ پاکستان کی تقریبات سے متعلق قومی سیاست میں سرگرم جماعتوں میں سب سے پہلے جماعتِ اسلامی کا ذکر کرتے ہیں، جس نے پچھلے ماہ عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا تھا۔ انہی دنوں رابطہ مہم کا اختتام 23 مارچ کو تحفظِ پاکستان کنونشن کے ساتھ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ اپنے اسی اعلان کے مطابق جماعتِ اسلامی نے شہر کے نشتر پارک میں جلسے کا اہتمام کیا۔ بلند اور طویل اسٹیج کو قومی پرچم اور پارٹی کے جھنڈوں سے سجایا گیا تھا۔ شہر بھر سے ریلیوں اور قافلوں کی صورت میں جماعتِ اسلامی کے کارکنان اور مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے جلسہ گاہ پہنچے، جو خوب صورت ملی نغموں اور ترانوں سے گونج رہا تھا۔
اس موقع پر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منورحسن نے خطاب میں کہاکہ نوازشریف شریعت کی طر ف بڑھیں، شریعت بھی ان کی طرف بڑھے گی۔ طالبان بھی ملک کے شہری ہیں، نظریۂ پاکستان اور قائداعظم کا مذاق اڑانے کی کوشش نہ کی جائے،آزادانہ خارجہ پالیسی بنائی جائے، امریکی مداخلت بند کی جائے، طاقت کے وحشیانہ استعمال سے گریز کیا جائے، بھارت سے دوستی کا مطلب کشمیریوں کے ساتھ دشمنی ہے، نوازشریف بھارت سے دوستی کی باتیں کر کے کشمیریوں کے زخموں پر نمک نہ چھڑکیں۔ اس موقع پر انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کراچی میں ایک لاکھ اراکین بنا کر تبدیلی کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ مہم حالات کی تبدیلی اور امن و خوش حالی کے لیے نوید ثابت ہوگی۔
کنونشن سے جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے امیر اور طالبان مذاکرات کمیٹی کے اہم رکن پروفیسر ابراہیم، امیر جماعت اسلامی (سندھ) ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی، امیر جماعت اسلامی (کراچی) حافظ نعیم الرحمن، اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلی زبیر حفیظ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اسٹیج پر فرائض جماعت اسلامی کے نائب امیر نصراللہ خان شجیع نے ادا کیے۔ اس جلسے میں ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا عزم کیا گیا۔ کنونشن میں نج کاری، امن و امان، منہگائی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور دیگر مسائل پر مختلف قراردادیں بھی پیش کی گئیں۔ سید منورحسن نے جماعت اسلامی کی کراچی کی تنظیم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آندھیوں اور اندھیروں میں امید کے چراغ روشن کیے ہیں اور کراچی کے ایک لاکھ افراد کو رکن بنا کر تبدیلی کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کراچی کی جماعت نے میدان عمل میں نکل کر دلوں کو جوڑنے اور منزل کے نشانات کو روشن کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس ملک نے آمریت اور جمہویت کا دور دیکھا ہے۔
لیکن نہ ملک کے حالات بدلے اور نہ قوم کو خوش حالی امن اور سکون نصیب ہوا۔ ملٹری آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، بلوچستان میں آپریشن جاری ہے، لیکن وہاں کے عوام محرومی سے دوچار ہیں اور دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ طالبان سے ہمارا اختلاف بندوق کی نوک پر اور طاقت کے زور سے شریعت کے نفاذ کی کوششوں پر ہے۔ مذاکرات کی میز بچھی رہنی چاہیے، لیکن شریعت بھی نافذ کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں ہم میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں، لیکن اقتدار والوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ اس موقع پر ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی نے کہا کہ نشتر پارک میں جمع ہونے والوں کا اعلان ہے کہ سبز ہلالی پرچم ہمیشہ لہراتا رہے گا۔ کراچی میں رہنے والوں سے ان کے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے، وڈیروں اور جاگیرداروں کے خلاف بولنے والے آج پھر ان کے ساتھ اتحاد کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے نوجوان جماعت اسلامی کی قیادت کا ساتھ دیں، حالات ضرور بدلیں گے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ شہر میں دہشت گردی عروج پر ہے، جماعتِ اسلامی حالات کو بدلنے اور عوام کے تعاون سے شہر کو ترقی اور خوش حالی کے راستے پر ڈالنے کی جدوجہد کرے گی۔ شہریوں نے ممبر سازی مہم کی پزیرائی کی ہے، جو ان کے اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، لیکن آج بانی پاکستان قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے اور ملک کو سیکولر بنانے کی سازش کی ہورہی ہے۔ حالات بدلنے کے لیے ایک بڑی تحریک چلانے کی ضرورت ہے، ہم بندوق کے مقابلے میں کبھی بندوق نہیں اٹھائیں گے بلکہ اپنی دعوت اور کردار سے ایک ایک گھر اور ایک ایک فرد تک پہنچیں گے۔
کراچی میں جماعۃ الدعوۃ نے بھی یوم پاکستان پر تحفظِ نظریہ پاکستان کے نام سے اجتماع کیا۔ شہر کی معروف شاہراہوں سے اس جماعت کے قافلے نہایت منظم انداز سے ذمہ داروں کی قیادت میں گزرے اور پریس کلب پہنچے۔ مولانا امیر حمزہ، مزمل اقبال ہاشمی اور دیگر نے اپنے خطاب میں ملکی سطح پر اتحاد اور اتفاق کی ضرورت پر زور دیا اور نظریۂ پاکستان کی حمایت میں تقاریر کیں۔ اسی طرح سنی تحریک، متحدہ علما محاذ پاکستان اور دیگر مذہبی جماعتوں کی طرف سے بھی یومِ پاکستان پر مختلف تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔
اُدھر قوم پرست جماعت جیے سندھ قومی محاذ(جسقم) نے سب سے مختلف راستہ اپناتے ہوئے فریڈم مارچ کیا۔ اس کی قیادت تنظیم کے چیئرمین صنعان قریشی اور وائس چیئرمین ڈاکٹر نیاز کالانی کر رہے تھے۔ یہ مارچ گلشن حدید سے شروع ہوا اور تبت سینٹر پہنچا۔ مارچ کے شرکا 'پاکستان نہ کھپے اور سندھ مانگ رہا ہے آزادی' کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس مارچ میں جیے سندھ محاذ، قومی عوامی تحریک، سندھ یونائٹیڈ پارٹی اور سندھ ترقی پسند پارٹی کے کارکنوں نے بھی شرکت کی۔ جلسے سے صنعان قریشی اور دیگر نے خطاب میں دنیا سے اپیل کی کہ سندھ کی آزادی کے لیے ان کی مدد کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ ہمیشہ آزاد ریاست رہی ہے، پاکستان میں شامل ہونے کے بعد اس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔