جوہری اثاثے محفوظ ہیں

پاکستان کا جوہری تحفظ کا نظام اندرونی، بیرونی اور سائبر حملوں سے بچاؤ کے سہ جہتی دفاعی نظام پر مشتمل ہے


Editorial March 25, 2014
کا جوہری تحفظ کا نظام اندرونی، بیرونی اور سائبر حملوں سے بچائو کے سہ جہتی دفاعی نظام پر مشتمل ہے۔ فوٹو؛فائل

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے،مراکز اور جوہری مواد محفوظ ہیں،اس کا جوہری تحفظ کا نظام اندرونی، بیرونی اور سائبر حملوں سے بچائو کے سہ جہتی دفاعی نظام پر مشتمل ہے، پاکستان نے ایک سنٹرآف ایکسی لنس قائم کیا ہے جہاں ایٹمی تحفظ کے لیے انتہائی جدید نصاب پڑھایا جاتا ہے، پاکستان خطے سمیت دیگر ممالک کے ساتھ جوہری تحفظ کی اعلیٰ تربیت اور خدمات شیئرکرنے کے لیے تیار ہے ۔ وہ ہالینڈ میں عالمی جوہری تحفظ سربراہ کانفرنس کے پہلے سیشن سے خطاب کر رہے تھے ۔ اپنے افتتاحی خطاب میں وزیراعظم نے پاکستان کے جوہری نظام کا مقدمہ پوری شفافیت کے ساتھ پیش کیا۔ ملکی سلامتی اور جوہری دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے سب کو مل کر اقدامات کرنے کے حوالے سے ایک مربوط اور متحرک پیغام بھی دیا ہے۔

جوہری سلامتی کے موضوع پر دو روزہ عالمی کانفرنس ہالینڈ میں شروع ہوگئی جس میں دنیا کے 53 ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت ، اقوام متحدہ کے نمایندے اور جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے اہلکار شرکت کر رہے ہیں ، امریکی صدر بارک اوباما نے 2009 میں شروع کی جانے والی اس سربراہ کانفرنس کو نیوکلیئر سیکیورٹی سمٹ (این ایس ایس) کا نام دیا جس کا مقصد عالمی سطح پر جوہری شعبے میں دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرنا ہے ۔ اس سلسلے میں پہلی کانفرنس 2010 میں واشنگٹن میں ہوئی جب کہ دوسری دو سال بعد جنوبی کوریاکے دارالحکومت سیئول میں منعقد ہوئی تھی ۔ تاہم موجودہ کانفرنس روس کے تیور ، یوکرائن کے پیدا شدہ بحران اور کریمیا کے متنازعہ الحاق کے باعث سنگین خطرات میں ہو رہی ہے، اطلاعات ہیں کہ یوکرائن نے اپنی فوج کو کریمیا سے نکالنے کا حکم دیا ہے، ادھر روس نے یوکرائنی آخری نیوی جہاز بھی قبضہ میں لے لیا ہے، نیٹو حکام کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی بڑی تعداد یوکرائن کی سرحد پر جمع ہے ،اور کسی وقت بھی حملہ ہوسکتا ہے جب کہ امریکا نے پیوٹن کو خبردار کیا ہے کہ اسے اپنے اقدامات کی بھاری قیمت چکانا پڑیگی ۔

ان ہولناک حالات میں پاکستان سمیت تمام ممالک کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ دنیا کو کسی بھی غلط فیصلہ یا جارحیت کے نتیجے میں ایک بار پھر سرد جنگ کی طرف نہیں لوٹنا چاہیے ،اس تناظر میں کانفرنس کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے، دیکھنا یہ بھی ہے کہ صدر اوباما اور مغربی صنعتی ممالک کے گروپ 8 نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو گروپ 8 میں سے نکالنے پر اتفاق کرلیا ہے اور ان کی ڈپلومیٹک فورم میں 15 سالہ شراکت کو معطل کرتے ہوئے یوکرائن کے مسئلہ پر ان کے ملک کو مزید تنہا کردیا اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ، بند کمرے میں 2 گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں یورپ کے 4 بڑے صنعتی ممالک اور جاپان' کینیڈا سمیت 7 بڑے ممالک نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جون میں سوچی روس میں طے شدہ سربراہی اجلاس اب برسلز میں ہوگا جس میں روس شرکت نہیں کرے گا ۔ بعض سفارتی حلقوں کے مطابق یہ معطلی علامتی ہے تاہم امریکا کے سفیر برائے ماسکو مائیکل میک فال کا کہنا ہے کہ علامتی ہونا بھی کچھ معنیٰ رکھتا ہے۔

اس مسئلہ پر بھی سوچ بچار جاری ہے کہ پیوٹن کی معطلی کے نتیجہ میں روسی جارحیت میں شدت عود کر نہ آئے، یاد رہے اس سے قبل جرمنی نے ماسکو کو صنعتی جمہوریتوں کے گروپ 8 سے نکالنے کی مخالفت کی تھی۔ روس 1998 سے اس کلب کا رکن ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے پیوٹن کو 3 امریکی صدور کلنٹن، بش اور اوباما کے لیے 15 برس سے ایک چیستاں قرار دیا ہے،اخبار کے مطابق ان تینوں صدور نے پیوٹن کے بارے میں غلط اندازے لگائے،تینوں نے جو تصور باندھا پیوٹن اس کے بالکل الٹ نکلے ، چنانچہ جوہری کانفرنس کے عالمی مدبرین کو یوکرائن کے مستقبل اور حالیہ بحران کو ضرور مد نظر رکھنا چاہیے اور ساتھ ہی نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کی ثالثی کے لیے امریکا کو کردار ادا کرنے کی جو پیشکش کی ہے اس کا بھی عالمی رہنمائوں کو مثبت جواب دینا چاہیے ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ یوکرائن کے بحران کو جوہری پھیلائو کا بہانہ نہیں بنانا چاہیے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہم جب بھی مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتے ہیں، بھارت اس پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتا ہے لہٰذا امریکا اس مسئلے پر ثالثی کا کردار ادا کرے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل حل ہونے چاہئیں، امریکاکی ڈرون حملے بند کرنے کی پالیسی قابل ستائش ہے اسے جاری رہنا چاہیے ۔

انھوں نے کہا کہ توانائی کا بحران پاکستان کا سب سے سنگین مسئلہ ہے، ملکی معیشت کی بحالی کا عمل شروع کرتے ہوئے ہم جوہری توانائی کی پیداوار کے لیے آئی اے ای اے کی زیرنگرانی بین الاقوامی تعاون اورمعاونت چاہتے ہیں، پاکستان کی بین الاقوامی ایکسپورٹ کنٹرول کے نظام باالخصوص جوہری سپلائرز گروپ میں شمولیت کا مطالبہ کرتے ہوئے نواز شریف نے کہاکہ پاکستان جوہری تحفظ کوانتہائی اہمیت دیتا ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق ہماری قومی سلامتی سے ہے، پاکستان ایٹمی ہتھیاروںکا حامل ایک ذمے دارملک ہے، ہم جوہری برداشت اورکم سے کم ایٹمی مزاحمت کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں، پاکستان ایٹمی مواد کے طبعی تحفظ کے کنونشن(سی پی پی این ایم) کی توثیق کرنے پر غور کررہا ہے، عالمی برادری کو ایٹمی تحفظ یقینی بنانے میں پیشرفت کرنا ہوگی۔ سربراہ کانفرنس کی سائڈ لائن پر نواز شریف نے امریکی صدر بارک اوباما، چینی صدر ژی جن پنگ اور ترکی کے صدر عبداللہ گل سے ملاقاتیں کیں جن میں دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات میںاسٹرٹیجک مذاکرات جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔جان کیری نے کہا کہ امریکا کو پاکستان کی جوہری سلامتی پر بھرپور اعتماد ہے، یہ پالیسی آئیڈیل ہے۔ ہم توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان سے تعاون کر رہے ہیں ۔ نواز شریف نے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے مکمل بند ہونے کی بات کی اور کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں اور اس حوالے سے حکومت اور فوج ایک ہی سوچ رکھتے ہیں۔وزیراعظم نے بلاشبہ مسئلہ کشمیر کو ایک موثر فورم پر پیش کیا اور کہا کہ اب امریکا کو اس مسئلے پر ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔یوں انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل حل ہونے کی ضرورت پر زور دیاجب کہ افغانستان سے بہتر تعلقات ، یک طرفہ الزام تراشیوں اور رنجشوں کے خاتمے اور افغان سرحد پر ایف سی کی چیک پوسٹوں پر حملے پر عالمی رہنمائوں کو اپنی جائز تشویش سے آگاہ کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں