ڈیڑھ ارب ڈالر پر دوستوں کی پریشانی
سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالرمل جانے پرپریشان ہونیوالے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہوا کرتےہیں
سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا ''تحفہ'' ملنے کے بعد ہمارے میڈیا کے زیادہ تر لوگ بجائے خوش ہونے کے فکر مند نظر آرہے ہیں۔ یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ چونکہ ریاستیں بغیر کسی غرض کے دوسرے ممالک کو خیرات نہیں دیا کرتیں اس لیے ڈیڑھ ارب ڈالر غالباً ان خدمات کا ''بیعانہ''ہے جو پاکستان شام اور خلیجی ممالک میں سعودی مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے ممکنہ طور پر مہیا کرسکتا ہے۔ اندیشہ ہائے دور دراز کے مارے مفکر نما لکھاری ایسے امکانات کے بارے میں کافی متفکر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شام اور خلیجی ممالک کے مسائل میں سعودی عرب کی خاطر اُلجھ جانا پاکستان کو ویسی ہی مشکلات سے دوچار کرسکتا ہے جو 1980 کی دہائی میں ''افغان جہاد'' کے ذریعے ہمارا مقدر بنیں اور ابھی تک ہمیں ان سے جان چھڑانے کی کوئی واضح راہ نظر نہیں آرہی۔
ذاتی طور پر عرصہ ہوا میں نے ''بین الاقوامی امور'' کے بارے میں فکر مند ہونا چھوڑ دیا ہے ۔محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے میں اپنی اصل حیثیت دریافت کرچکا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میڈیا میں برپا سیاپے ہماری ریاست کی اشرافیہ کو دفاعی امور کے حوالے سے اپنی مرضی کے فیصلے کرنے سے نہیں روک سکتے۔ ذاتی بے حسی اور لاتعلقی کے باوجود مجھ کو تقریباً یقین تھا کہ ہماری پڑھی لکھی مڈل کلاس کے لوگ بھی میڈیا کی وجہ سے پاک سعودی تعلقات کی ممکنہ جہتوں کے بارے میں کافی فکر مند ہوچکے ہوں گے۔ جمعہ،ہفتہ اور اتوار کے تینوں روز مگر مختلف سماجی تقاریب میں جانا پڑا اور کئی لوگوں سے دوپہر اور رات کے کھانوں پر لمبی ملاقاتیں بھی رہیں۔ مسلسل تین دنوں تک بہت سارے لوگوں سے ملنے کے بعد میں اس بات پر بہت حیران ہوا کہ ہمارے متوسط طبقے کے زیادہ تر لوگ جن کا سیاست سے کوئی زیادہ واسطہ بھی نہیں سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر ملنے پر ہرگز پریشان نہیں۔ وہ بلکہ اپنے تئیں کافی خوش ہیں کہ چند معاملات کی وجہ سے سعودی عرب کو پاکستان کی ''اہمیت'' یاد آگئی ہے۔
کئی ایک تو اس امکان پر بھی بڑے اطمینان کا اظہار کرتے پائے گئے کہ کریمیا کی وجہ سے شاید سعودی عرب کے بعد امریکا کو بھی پاکستان ایک بار پھر اپنے ''اتحادی'' کے طور پر ''یاد'' آجائے۔ میں نے کافی لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ سرد جنگ عرصہ ہوا ختم ہوچکی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی روس کے صدر پیوٹن سے یقینا بہت ناخوش ہیں۔ اپنے تمام تر شکوک وخدشات کے باوجود مگر دُنیا ایک بار پھر روس اور اس کے مخالفوں کے درمیان اس طرح تقسیم ہوتی نظر نہیں آرہی جو سرد جنگ کے زمانے میں کئی دہائیوں تک موجود رہی۔ افغانستان اور عراق پر جنگیں مسلط کرنے کے بعد اوباما کا امریکا خود کو نت نئی ایجادوں کے ذریعے معاشی طور پر مستحکم وتوانا بنانے میں جت گیا ہے۔ سعودی عرب کی ان دنوں پریشانی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سال کے اختتام تک امریکا کو کسی ملک سے تیل کا ایک قطرہ درآمد کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ 2015 کے اختتام تک امریکا بلکہ یورپ کی توانائی سے متعلقہ مسائل کا مناسب حل بھی فراہم کرسکتا ہے۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اپنے ''ٹھوس دلائل'' کے ذریعے میں کسی ایک شخص کو بھی اس بات پر قائل نہ کرپایا کہ امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ کا دور واپس نہیں آرہا۔ میرے تمام ملنے والے اس بات پر مصر رہے کہ ان دو ممالک کے درمیان پھڈا بڑھتا چلا جائے گا اور پاکستان ''افغان جہاد''کے ذریعے حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں روس کو ازبکستان،قزاقستان اور تاجکستان وغیرہ میں امریکا کی سہولت کے لیے کوئی کردار یقینا ادا کرسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے میرے جیسے کئی خبطی لوگ اس بات کو طنزیہ حقارت کے ساتھ جھٹلادیں مگر کئی پڑھے لکھے لوگوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ اس امکان کا اظہار بھی کیا کہ حکومت ان دنوں جن لوگوں کے ساتھ اپنے ہی ملک میں دائمی امن کے قیام کے لیے جو مذاکرات کررہی ہے ان کے کامیاب ہوجانے کی صورت ''مجاہدینِ اسلام'' کی ایک بہت بڑی تعداد سعودی عرب کی مدد کے لیے شام منتقل ہوسکتی ہے۔ جنگجوئوں کی بہت بڑی تعداد شام وغیرہ میں مصروف ہوجائے تو پاکستان میں سکون ہوجائے گا اور تارکین وطن کے ذریعے آنے والے زرمبادلہ میں اضافہ بھی۔
سچی بات مگر یہ ہے کہ اپنے پڑھے لکھے متوسط طبقے کے حضرات سعودی عرب کے تناظر میں اپنے تئیں ''خوش گوار'' امکانات کا ذکر کرتے مجھے اس شترمرغ کی طرح لگے جو خطرے کے وقت ریت میں اپنا سرچھپا لیتا ہے یا محاورے والا وہ کبوتر جو بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ شتر مرغ کا سوچتے ہوئے مجھے اس بات پر ندامت بھی ہوئی کہ اپنی مشکلات سے گھبرائے پڑھے لکھے پاکستانی اگر کچھ امور کے بارے میں خوش گمانیوں میں مبتلا نظر آرہے ہیں تو مجھے انھیں ''ٹھوس دلائل'' کے ذریعے خوابوں کی دُنیا سے نکالنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے تھی۔ ساتھ ہی ساتھ مگر یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے کئی بار یہ خیال بھی آیا کہ اتنے بہت سے پڑھے لکھے اور دُنیاوی حوالوں سے کامیاب نظر آنے والے لوگ کسی اجتماعی خودگمانی میں بغیر کسی ٹھوس وجہ کے مبتلا نہیں ہوسکتے۔ ہوسکتا ہے میں جو کہ صرف ایک فرد ہوں اپنی شک وشبہ والی عادت کی وجہ سے خوش گوار امکانات کو دیکھنے کے قابل ہی نہ رہا ہوں اور یہ سوچتے ہوئے مجھے ذوالفقار علی بھٹو یاد آگئے۔ انھیں چاہنے والے بے شمار ہیں مگر ان کی ذات اور سیاست کو ابھی تک کئی لوگ پسند نہیں کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے مداحین اور نقادوں کا مگر ایک بات پر اتفاق ہے کہ وہ بے تحاشہ ذہین آدمی تھے جنھیں عالمی تاریخ اور بین الاقوامی امور پر بے پناہ گرفت حاصل تھی۔
راولپنڈی جیل کی کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر محض اپنی یادداشت کے سہارے انھوں نے جوکچھ لکھا ''اگر مجھے قتل کردیا گیا'' نامی کتاب میں جمع کردیا گیا ہے۔ اسی کتاب میں بھٹو صاحب نے لکھا ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کو جب بھی یورپ اور خاص کر جرمنی کا کوئی رہ نما ملتا تو وہ بڑے فخر سے اسے بتایا کرتے کہ پاکستانی اپنی سرشت میں ''پروشیا'' جیسے ہیں۔ پروشیا کسی زمانے میں آج کے جرمنی کے ایک بہت بڑے حصے کا نام ہوا کرتا تھا۔ ایوب خان سے اس کا مسلسل حوالہ سنتے ہوئے بھٹو صاحب نے پروشیا کی تاریخ کا نئے سرے سے جائزہ لیا اور بالآخر دریافت کرلیا کہ ہمارے ''فیلڈ مارشل'' کو اس ملک کی روایات اپنے ملک سے اتنی ملتی جلتی کیوں محسوس ہوتی تھیں۔ میرا ناقص علم بھٹو صاحب کی توجیہہ کا مناسب انداز میں خلاصہ بیان نہیں کرسکتا۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ''پروشیا'' کا سب سے بڑا اور کئی حوالوں سے اس کا واحد ''اثاثہ'' وہاں کا عسکری ادارہ اور اشرافیہ ہوا کرتی تھی۔ ویسے بھی سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر مل جانے پر پریشان ہونے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہوا کرتے ہیں اور نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک ِکاشغر جتنے بھی معاملات ہیں انھیں حل بھی تو ہمیں نے کرنا ہے۔