مشاعرے کی روایت
مشاعرہ کا رواج ہمارے یہاں نیا نہیں ہے۔ اس کے ڈانڈے آج سے لگ بھگ تین سو برس قبل کے اس تاریخی دور کے ساتھ ملتے ہیں...
مشاعرہ اردو زبان و تہذیب کی ایک ایسی خوبصورت روایت ہے جس کی مثال دنیا کی دوسری زبانوں کے ادب اور ثقافت میں بمشکل ہی ملے گی۔
زمانہ قدیم سے لے کر آج تک شاعری قلب و ذہن پر گزرنے والی ہر واردات اور کیفیت کے اظہار اور ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ بہ قول شاعر:
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
چناں چہ خواجہ الطاف حسین حالی نے ''مقدمہ شعر و شاعری'' میں شعرا کی عظمت اور وقعت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''شاعری عطیہ خداوندی ہے''۔ حالی مزید فرماتے ہیں کہ ''شعر دل سے اٹھتا ہے اور دل میں تروتازہ ہوجاتا ہے۔ شعر کو سن کر دل جھومتا ہے اور روح وجد کرتی ہے''۔ روح کو تڑپانا اور قلب کو گرمانا شاعری کی جادوگری ہے۔
کہتے ہیں کہ عمر خیام کی ایک رباعی سن کر ایک بزرگ میراں سید بھیک مرغ بسمل کی طرح تڑپ اٹھے تھے جب کہ عہد جدید میں فرانس کے ایک مشہور و معروف شاعر یوجین پوتیے کی نظم ''انٹرنیشنل'' نے جمہوری انقلاب کو کامیابی سے سرفراز کیا۔ اقبال، جوش اور فیض کی شاعری بھی اس حوالے سے کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔
یوں تو انگریزی زبان کے ادبی حلقوں میں Poetry Symposium کے نام سے اور ہندی زبان میں ''کوی سمیلن'' کے عنوان سے شعری محفلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن ان میں کسی کو بھی وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی جو مشاعرہ کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ منفرد اعزاز اور شرف صرف اور صرف عالمگیر حیثیت کی حامل اردو زبان کو ہی حاصل ہے۔
مشاعرہ کا رواج ہمارے یہاں نیا نہیں ہے۔ اس کے ڈانڈے آج سے لگ بھگ تین سو برس قبل کے اس تاریخی دور کے ساتھ ملتے ہیں جب اردو کے ممتاز غزل گو شاعر میر و سودا کے معاصر خواجہ میر درد کے یہاں ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں بزم شاعری سجا کرتی تھی جس میں بشمول امیر و غریب سب ہی صاحبان ذوق برابر شریک ہوا کرتے تھے۔ اس سلسلے کے ایک مشاعرے میں تو سلطنت مغلیہ کے چشم و چراغ شاہ عالم ثانی آفتاب بھی شریک تھے جن کا یہ مشہور شعر ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے:
عاقبت کی خبر خدا جانے
اب تو آرام سے گزرتی ہے
اس شعر کے دوسرے مصرعے کو بعض لوگ مصرعہ اول کے طور پر بھی پڑھتے ہیں۔ بہرحال روایت یہ ہے کہ مشاعرہ جاری تھا کہ شاہ عالم آفتاب ثانی نے پاؤں میں درد محسوس کیا جس کے باعث مجبوراً انھوں نے اپنے پاؤں قدرے پھیلادیے۔ یہ بے ادبی خواجہ میردرد کو اتنی ناگوار گزری کہ انھوں نے شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے برجستہ یہ کہا کہ ''جب پانوؤں میں درد تھا تو مشاعرے میں شرکت کی کیا ضرورت تھی؟'' اس واقعے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے مشاعروں میں آداب محفل کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔
سیکڑوں شعرا ایسے ہیں جنھیں مشاعروں نے ہی شہرت کے بام عروج تک پہنچایا ہے اور ان کے اشعار مقبولیت کے لحاظ سے ضرب المثل کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں!
صبح ہوتی ہے' شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
٭٭
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
٭٭
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
چند ایک نہیں، اس طرح کے سیکڑوں اشعار ہیں جن میں سے بیشتر ایسے مشاعروں کے ہیں جو زیادہ معروف نہیں تھے لیکن مشاعروں نے ان کی شہرت کو نہ صرف قریہ قریہ پھیلادیا ہے بلکہ انھیں لافانی اور لازوال بھی بنادیا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن نے مشاعروں کے فروغ اور مقبولیت میں ایک تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ بعض تنظیموں اور علمی و ثقافتی اداروں اور انجمنوں نے بھی اس سلسلے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جس میں انجمن سادات امروہہ بھی کراچی کے حوالے سے قابل ذکر ہے جس نے سالانہ عالمی مشاعروں کے انعقاد کی بنیاد 1983 میں ڈالی جن کا سلسلہ کئی برس تک جاری رہا۔ اس کے بعد درمیان میں مختصر سا تعطل آگیا لیکن زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ چند فعال اور باذوق بے لوث احباب نے ''ساکنان شہر قائد'' کے نام سے ایک زبردست انجمن کی بنیاد ڈال دی۔
1989میں کراچی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا کی انجمن یونی کیرئنز انٹرنیشنل کی پیش کردہ تجویز پر لبیک کہتے ہوئے کراچی کی مختلف علمی، ادبی اور ثقافتی انجمنوں، سماجی فلاحی تنظیموں اور تعلیمی اداروں نے یک جان ہوکر اس کار دشوار کا بیڑہ اٹھایا اور ہر سال عالمی اردو مشاعرے کے پابندی سے انعقاد کا ڈول ڈالا۔ جہاں چاہ وہاں راہ کے مصداق ان مخلص رفقائے کار کی کوششیں رنگ لائیں اور 1989میں یوم پاکستان کے حوالے سے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کے سبزہ زار پر ''ساکنان شہر قائد'' کے زیر اہتمام اولین کل پاک و ہند مشاعرہ پوری آب و تاب کے ساتھ انعقاد پذیر ہوکر کامیابیوں اور شہرت سے ہمکنار ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن ''ساکنان شہر قائد'' کے زیر اہتمام ان عالمی مشاعروں کے انعقاد کا سلسلہ پابندی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ یہ کامیاب اور بامقصد عالمی مشاعرے اب شہر قائد کا ادنی اثاثہ اور تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ مشاعرے جہاں اہل کراچی کی ادب شناسی، سخن فہمی، اعلیٰ شعری ذوق اور تہذیبی شعور کا مظہر اور آئینہ دار ہیں وہیں امن و آشتی اور انسانی بھائی چارے کے فروغ کا انتہائی موثر اور کارگر ذریعہ بھی ہیں۔
اپنے درخشاں ماضی کی روشن اور تابندہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس بار یہ مشاعرہ 22 مارچ کراچی کے مشہور و معروف تجارتی مرکز ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوا، جس میں حسب روایت وطن عزیز کے چاروں صوبوں کے نمایندہ شعرائے کرام کے علاوہ ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک کے منتخب شاعر اپنے زور کلام سے ہزاروں ناظرین و سامعین کو محظوظ کرتے ہوئے امن و محبت کی شمعیں فروزاں کیں۔ یوم پاکستان کے حوالے سے منعقد کیے جانے والے اس عظیم الشان مشاعرے کو یادگار بنانے کے لیے ''ساکنان شہر قائد'' کے روح رواں، کراچی آرٹس کونسل کے نائب صدر اور معروف سماجی شخصیت محمود احمد خان کی نگرانی میں اس موقعے پر ایک خوبصورت مجلہ بھی شایع کیا گیا۔ اس عالمی مشاعرے کے بعد ذیلی مشاعروں کا انعقاد کیا جائے گا جس میں 24 مارچ کو اسلام آباد 25 مارچ کو سادات امروہہ کراچی، 26 مارچ کو حیدر آباد، 27 مارچ کو دوپہر لیاقت نیشنل لائبریری ہال، بعد ازاں کراچی کلب، 28 مارچ کو کراچی جمخانہ، 29 مارچ کو گہوارہ ادب اور 30 مارچ کو سٹی اونر ویلفیئر کی جانب سے منعقد کیے جانے والے مشاعرے بھی شامل ہیں۔
''ساکنان شہر قائد'' کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اس عظیم الشان مشاعرے سے کراچی شہر میں جوکہ منی پاکستان کہلاتا ہے پیار اور محبت کی نئی شمعیں روشن اور فضائیں خوشگوار ہوں گی۔ بلاشبہ یہ مشاعرہ بہار کی تازہ ہوا کا ایک زوردار جھونکا ثابت ہوگا۔ جی ہاں موسم بہار کی وہی تازہ ہوا جس کے بارے میں عزیز حامد مدنی نے کیا خوب کہا ہے:
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقہ گردش حال لے گئی
زمانہ قدیم سے لے کر آج تک شاعری قلب و ذہن پر گزرنے والی ہر واردات اور کیفیت کے اظہار اور ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ بہ قول شاعر:
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
چناں چہ خواجہ الطاف حسین حالی نے ''مقدمہ شعر و شاعری'' میں شعرا کی عظمت اور وقعت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''شاعری عطیہ خداوندی ہے''۔ حالی مزید فرماتے ہیں کہ ''شعر دل سے اٹھتا ہے اور دل میں تروتازہ ہوجاتا ہے۔ شعر کو سن کر دل جھومتا ہے اور روح وجد کرتی ہے''۔ روح کو تڑپانا اور قلب کو گرمانا شاعری کی جادوگری ہے۔
کہتے ہیں کہ عمر خیام کی ایک رباعی سن کر ایک بزرگ میراں سید بھیک مرغ بسمل کی طرح تڑپ اٹھے تھے جب کہ عہد جدید میں فرانس کے ایک مشہور و معروف شاعر یوجین پوتیے کی نظم ''انٹرنیشنل'' نے جمہوری انقلاب کو کامیابی سے سرفراز کیا۔ اقبال، جوش اور فیض کی شاعری بھی اس حوالے سے کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔
یوں تو انگریزی زبان کے ادبی حلقوں میں Poetry Symposium کے نام سے اور ہندی زبان میں ''کوی سمیلن'' کے عنوان سے شعری محفلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن ان میں کسی کو بھی وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی جو مشاعرہ کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ منفرد اعزاز اور شرف صرف اور صرف عالمگیر حیثیت کی حامل اردو زبان کو ہی حاصل ہے۔
مشاعرہ کا رواج ہمارے یہاں نیا نہیں ہے۔ اس کے ڈانڈے آج سے لگ بھگ تین سو برس قبل کے اس تاریخی دور کے ساتھ ملتے ہیں جب اردو کے ممتاز غزل گو شاعر میر و سودا کے معاصر خواجہ میر درد کے یہاں ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں بزم شاعری سجا کرتی تھی جس میں بشمول امیر و غریب سب ہی صاحبان ذوق برابر شریک ہوا کرتے تھے۔ اس سلسلے کے ایک مشاعرے میں تو سلطنت مغلیہ کے چشم و چراغ شاہ عالم ثانی آفتاب بھی شریک تھے جن کا یہ مشہور شعر ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے:
عاقبت کی خبر خدا جانے
اب تو آرام سے گزرتی ہے
اس شعر کے دوسرے مصرعے کو بعض لوگ مصرعہ اول کے طور پر بھی پڑھتے ہیں۔ بہرحال روایت یہ ہے کہ مشاعرہ جاری تھا کہ شاہ عالم آفتاب ثانی نے پاؤں میں درد محسوس کیا جس کے باعث مجبوراً انھوں نے اپنے پاؤں قدرے پھیلادیے۔ یہ بے ادبی خواجہ میردرد کو اتنی ناگوار گزری کہ انھوں نے شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے برجستہ یہ کہا کہ ''جب پانوؤں میں درد تھا تو مشاعرے میں شرکت کی کیا ضرورت تھی؟'' اس واقعے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے مشاعروں میں آداب محفل کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔
سیکڑوں شعرا ایسے ہیں جنھیں مشاعروں نے ہی شہرت کے بام عروج تک پہنچایا ہے اور ان کے اشعار مقبولیت کے لحاظ سے ضرب المثل کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں!
صبح ہوتی ہے' شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
٭٭
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
٭٭
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
چند ایک نہیں، اس طرح کے سیکڑوں اشعار ہیں جن میں سے بیشتر ایسے مشاعروں کے ہیں جو زیادہ معروف نہیں تھے لیکن مشاعروں نے ان کی شہرت کو نہ صرف قریہ قریہ پھیلادیا ہے بلکہ انھیں لافانی اور لازوال بھی بنادیا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن نے مشاعروں کے فروغ اور مقبولیت میں ایک تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ بعض تنظیموں اور علمی و ثقافتی اداروں اور انجمنوں نے بھی اس سلسلے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جس میں انجمن سادات امروہہ بھی کراچی کے حوالے سے قابل ذکر ہے جس نے سالانہ عالمی مشاعروں کے انعقاد کی بنیاد 1983 میں ڈالی جن کا سلسلہ کئی برس تک جاری رہا۔ اس کے بعد درمیان میں مختصر سا تعطل آگیا لیکن زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ چند فعال اور باذوق بے لوث احباب نے ''ساکنان شہر قائد'' کے نام سے ایک زبردست انجمن کی بنیاد ڈال دی۔
1989میں کراچی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا کی انجمن یونی کیرئنز انٹرنیشنل کی پیش کردہ تجویز پر لبیک کہتے ہوئے کراچی کی مختلف علمی، ادبی اور ثقافتی انجمنوں، سماجی فلاحی تنظیموں اور تعلیمی اداروں نے یک جان ہوکر اس کار دشوار کا بیڑہ اٹھایا اور ہر سال عالمی اردو مشاعرے کے پابندی سے انعقاد کا ڈول ڈالا۔ جہاں چاہ وہاں راہ کے مصداق ان مخلص رفقائے کار کی کوششیں رنگ لائیں اور 1989میں یوم پاکستان کے حوالے سے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کے سبزہ زار پر ''ساکنان شہر قائد'' کے زیر اہتمام اولین کل پاک و ہند مشاعرہ پوری آب و تاب کے ساتھ انعقاد پذیر ہوکر کامیابیوں اور شہرت سے ہمکنار ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن ''ساکنان شہر قائد'' کے زیر اہتمام ان عالمی مشاعروں کے انعقاد کا سلسلہ پابندی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ یہ کامیاب اور بامقصد عالمی مشاعرے اب شہر قائد کا ادنی اثاثہ اور تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ مشاعرے جہاں اہل کراچی کی ادب شناسی، سخن فہمی، اعلیٰ شعری ذوق اور تہذیبی شعور کا مظہر اور آئینہ دار ہیں وہیں امن و آشتی اور انسانی بھائی چارے کے فروغ کا انتہائی موثر اور کارگر ذریعہ بھی ہیں۔
اپنے درخشاں ماضی کی روشن اور تابندہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس بار یہ مشاعرہ 22 مارچ کراچی کے مشہور و معروف تجارتی مرکز ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوا، جس میں حسب روایت وطن عزیز کے چاروں صوبوں کے نمایندہ شعرائے کرام کے علاوہ ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک کے منتخب شاعر اپنے زور کلام سے ہزاروں ناظرین و سامعین کو محظوظ کرتے ہوئے امن و محبت کی شمعیں فروزاں کیں۔ یوم پاکستان کے حوالے سے منعقد کیے جانے والے اس عظیم الشان مشاعرے کو یادگار بنانے کے لیے ''ساکنان شہر قائد'' کے روح رواں، کراچی آرٹس کونسل کے نائب صدر اور معروف سماجی شخصیت محمود احمد خان کی نگرانی میں اس موقعے پر ایک خوبصورت مجلہ بھی شایع کیا گیا۔ اس عالمی مشاعرے کے بعد ذیلی مشاعروں کا انعقاد کیا جائے گا جس میں 24 مارچ کو اسلام آباد 25 مارچ کو سادات امروہہ کراچی، 26 مارچ کو حیدر آباد، 27 مارچ کو دوپہر لیاقت نیشنل لائبریری ہال، بعد ازاں کراچی کلب، 28 مارچ کو کراچی جمخانہ، 29 مارچ کو گہوارہ ادب اور 30 مارچ کو سٹی اونر ویلفیئر کی جانب سے منعقد کیے جانے والے مشاعرے بھی شامل ہیں۔
''ساکنان شہر قائد'' کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اس عظیم الشان مشاعرے سے کراچی شہر میں جوکہ منی پاکستان کہلاتا ہے پیار اور محبت کی نئی شمعیں روشن اور فضائیں خوشگوار ہوں گی۔ بلاشبہ یہ مشاعرہ بہار کی تازہ ہوا کا ایک زوردار جھونکا ثابت ہوگا۔ جی ہاں موسم بہار کی وہی تازہ ہوا جس کے بارے میں عزیز حامد مدنی نے کیا خوب کہا ہے:
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقہ گردش حال لے گئی