2014 یہ سال کیسا گزرے گا
پاکستان ٹوٹنے کا فوری امکان نہیں ہے کیونکہ اس سے پھوٹنے والا خلفشار پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا...
QUETTA:
حالیہ قیادتوں میں شاید ہی کوئی ایسا رہنما ہو جس کی سیاست پیسے کے بغیر چلتی ہو۔ یہ صورتحال اگر جاری رہی تو سیاسی تناظر اسی طرح خلفشار، سیاسی شعبدہ بازی، اور جرائم پر ہی بڑھتا اور بگڑتا رہے گا۔ کالے دھن کی سیاست میں اس دیوہیکل سرائیت کی وجہ سے سیاست جرائم کی مزید آماجگاہ بن جائے گی۔ مجرمانہ عناصر کی دھونس دھمکی اور جبر و تشدد سیاست پر حاوی رہے گی۔ لسانی بنیادوں پر ہونے والی سیاسی مافیا، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دوسرے جرائم کو اپنے مالی مفادات اور اس کالے اور سفید دھن کا مجتمع کرنے کے لیے استعمال کرتا رہے گا۔ قومی بنیادوں پر سیاست ان ہی متضاد خطوط پر چلے گی۔ سرمایہ دارانہ قوم پرستی کا دم بھرنے والے ایک جانب قومی تعصبات اور تنگ نظر قوم پرستی کو فروغ دیکر ریاست سے اپنی بارگیننگ کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور ساتھ ہی اقتدار اور دولت میں اپنی حصے داری میں اضافے کے لیے قومی مسئلے کو موجودہ کیفیت سے بھی زیادہ پیچیدہ۔ گمبھیر اور خونریز کرتے چلے جائینگے۔
پاکستان ٹوٹنے کا فوری امکان نہیں ہے کیونکہ اس سے پھوٹنے والا خلفشار پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ سامراجی اپنے مفادات کے لیے فی الحال اس پالیسی سے گریز کرینگے۔ اسی طرح ریاست اپنے سامراجی عزائم کے لیے اپنا قومی جبر و استحصال اور آپریشن جاری رکھے گی۔ اس کے اندر کے تضادات اور فیکشن مختلف وقتوں میں مختلف دھڑوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرینگے۔ یہاں بھی وفاداریاں اور اتحاد بدلیں گے۔ مذہبی بنیادوں پر شاؤنسٹ دہشتگردی ابھرتی اور گرتی رہے گی۔ ماضی کی طرح اس میں معاہدے ہونگے، پھر وہ ٹوٹیں گے۔ ''امن'' کے مختصر وقفوں کے بعد دوبارہ خودکش دھماکے اور دہشتگردی کی کارروائیاں تیز ہوں گی اور نہ صرف ان کی لوٹ مار کی باہمی لڑائیاں تیز ہونگی بلکہ اس دہشتگردی کے کاروبار میں زیادہ حصول کے لیے مزید تیز ہو گی۔ یہ سلسلہ سماج کو مزید جرائم اور بربادیوں سے تباہ کرتا رہے گا۔ معاشرہ مسلسل تاراج ہوتا رہے گا۔ اس میں وقفوں کے دورانیے کم ہونے کے بھی امکانات موجود ہیں۔ ریاست کی مداخلت اور ان سے تعلقات بھی متضاد نوعیت کے ہونگے۔
دوست دشمن بن جائینگے اور دشمنی مفادات کی جُڑت کے ساتھ الحاق میں تبدیل ہو جائے گی۔ ایک اسلامی آمریت اور فسطائیت کا امکان بہت کم ہے۔ اس کا ڈراوا خصوصاً لبرل اور سیکولر سرمایہ دار نواز پارٹیاں اور سیاسی رجحان بڑھائینگے۔ یہی ان کی اپنی دکانداری اور حالیہ عارضی وقت میں سامراج سے مفادات کے حصول کا ذریعہ بھی ہے۔ جمہوریت کا یہ کھلواڑ جس حد تک کھینچا جا سکا کھنچے گا۔ اس میں حکمرانوں کے تمام دھڑوں (حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں) کا فائدہ ہو گا۔ جب ان کی لوٹ مار کی باہمی لڑائیاں شدت اختیار کر کے اس سارے ڈھانچے کو ہی ہچکولے دینے لگتی ہیں تو یہ ''صلح'' پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کو وہ کہتے ہیں کہ ''یہی تو جمہوریت کا حسن اور نظریہ مصالحت'' کی اساس ہے، جس کو تمام سیاسی جماعتیں پورے جوش و خروش کے ساتھ لاگو کرنے کی کوشش کریں گی لیکن یہ صلح بھی زیادہ عرصے نہیں چل سکے گی اور پھر وہی سیاسی خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ جہاں بنیاد پرستوں کی کوئی وسیع سماجی حمایت اور جڑیں نہیں ہیں وہاں لبرل اور ڈیموکریٹک سیاست کی بھی عوامی بنیاد سکڑی ہوئی ہے۔
اس لیے آخری تجزیے میں یہ بھی ان ہی قوتوں کے مرہون منت ہیں جن کے ساتھ ملاؤں اور رجعتوں کے گہرے ناتے ہیں۔ یہ لبرل دانشور اور سیاستدان جو سرمایہ داری کے ایک اہم حصے کے مالک ہیں۔ سفید معیشت کے ساتھ ساتھ کالے دھن میں شرکت اور شرح منافع حاصل کرنا زیادہ تیز کرینگے۔ ٹیکس چوری اور دوسری طرف سرمایہ داروں کی کرپشن میں اضافہ ان کے شرح منافع کی لازمی ضرورت ہو گی اس لیے وہ ایک لبرل سیکولر نقاب پہن کر وارداتیں کرینگے جو اس سیاست کے دوسرے رجعتی اور قدامت پرست رجحانات کر رہے ہیں۔ دائیں بازو کا پاپولرزم ناکامی کے راستے پر تیزی سے گامزن ہے۔ جس فیشن ایبل درمیانے طبقے کی خواتین و حضرات مصنوعی جذبات کے لیے راغب ہوئے تھے ان کو طالبان کے ساتھ الحاق ذرا مشکل محسوس ہو گا لیکن طالبان بھی اندر سے کافی ''لبرل'' ہیں۔ جہاں تک معیشت کا سوال ہے تو اس کی ناگفتہ بہ حالت کا یہ عالم ہے کہ سوائے عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی نجی بینکوں کے افسران کے ان کو کوئی وزیر ہی نہیں ملتا، ان کو نہ تو دلچسپی ہے اور نہ ہی اپنی اس معاشی خودمختاری کی نعرہ بازی اور اقتصادی حب الوطنی کے لیے ان کے پاس ضایع کرنے کو وقت ہے لیکن جہاں پاکستان جیسے ممالک کو ترقی کی ''موجودہ شرح'' اور معیشت کی رائج بنیادوں کو کم ازکم 12 فیصد سے 15 فیصد کی شرح نمو درکار ہو وہاں اس کے آدھے ہدف تک بھی پہنچنا ان کے لیے ایک سہانا خواب بن گیا ہے۔
اس کی ایک وجہ ہے کہ معیشت کا دو تہائی حصہ تو کالے دھن پر مبنی ہے۔ یہ نہ کسی کے کنٹرول میں ہے اور نہ ہی ریاست اور سیاست کے پاس اتنی طاقت ہے کہ اس کو اپنے اختیار میں لا سکے کیونکہ یہ کالا دھن ریاست اور سیاست پر حاوی ہے۔ اس تجارتی اور بجٹ کے خساروں میں کمی نہیں آئے گی۔ روپیہ مزید گریگا جس سے مہنگائی کا طوفان مسلسل بڑھتا رہے گا۔ ایسی صورتحال بھی جنم لے سکتی ہے کہ اس معاشی تباہ کاری سے سارے نظام کے ٹوٹنے کے خطرے کے تحت حکمرانوں کو کوئی سخت گیر قدم اٹھانے پڑینگے لیکن اب تک پچھلے کئی سالوں میں جمہوری حکمرانوں نے جتنے بھی اقدامات کیے ہیں اپنی کمزوری اور ان سے خراشیں لگنے والے ان کے طبقاتی ساتھیوں کے دباؤ کی وجہ سے سارے کے سارے واپس لیے جاتے رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معیشت کہاں تک اور کس گہرائی تک گر سکتی ہے۔ کہیں تو انت ہو گا پھر اس تباہ کاری پر پراجیکٹوں اور سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت میں ایک لاغر بحالی کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ حکمرانوں کے لیے زیادہ خطرناک ہو گا کیونکہ جب بھی کوئی بدحالی پھیلاتی ہوئی حاکمیت کسی بہتری کو ابھارتی ہے تو اس سے معاشرے میں موجود تضادات مزید بھڑک اٹھتے ہیں جس سے سماجی ہلچل اور بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ معاشی بہتری نچلی پرتوں کو سانس لینے کا موقع دیتی ہے اور وہ ان حالات میں پھر لڑائی کرنے کے لیے تھوڑی سی ہمت باندھتے ہیں اور یہ کمزور اور اعتماد سے عاری حکمراں نیچے سے لگنے والے کسی معمولی جھٹکے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
ایک دباؤ ان کو شدید تر تناؤ کا شکار کر سکتا ہے۔ زراعت کا شعبہ اس بحران سے مشکل سے ہی نکلے گا۔ اس کی وجہ عالمی معاشی تنزلی اور مقامی مالیاتی کھینچاؤ زرعی آمدنی کو ایک حد تک ہی بڑھنے دے سکتا ہے۔ بہت بڑی جاگیروں کو پیسہ اناج اگانے اور کاشتکاری کرنے سے کم اور ان جاگیروں کو گروی رکھ کر اسٹاک ایکسچینج اور مختلف قسم کے دوسرے سرکاری و غیر سرکاری جوئے میں لگا کر زیادہ وصول ہوتا ہے لیکن جہاں عوام میں ریاستی جبر اور معاشی حملوں کے خلاف ایک حقارت موجود ہے وہیں یہاں ہر شعبے کے سرمایہ دار جاگیردار اور بڑے کاروباری اپنی سیاسی مداخلت (جو دولت کے سہارے خریدی جاتی ہے) سے بلیک میل اور دباؤ میں رکھ کر اس کو نچوڑتے رہیں گے اس لیے ریاست کو خود اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے یا تو قرضے لینے پڑتے ہیں جن پر سود اور اس کی ادائیگی کے لیے بے پناہ نوٹ چھاپنے پڑتے ہیں جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں یا پھر بالواسطہ ٹیکسیشن کے ذریعے غریب عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈال کر ریاست کے خسارے پورے کرنے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کی حکمرانی میں ریاست پر کوئی دبائو ڈالنے سے قاصر ہے لیکن ٹیکسوں اور کٹوتیوں کی صورت میں غریبوں کے معیار زندگی پر مسلسل وار ہوتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ اس کا واحد راستہ غیر طبقاتی سماج کی تشکیل ہے۔