ڈیڑھ ارب ڈالر کی گونج
ڈیڑھ ارب ڈالر کس کو مل جائیں تو اس کی نیندیں حرام تو ہو ہی جاتی ہیں لیکن بعض اوقات ’’ہارٹ فیل‘‘ بھی ہو جاتا ہے...
آج کا گرما گرم موضوع ''ڈیڑھ ارب ڈالر'' بنا ہوا ہے۔ ہر جگہ، ہر محفل، ہر نجی نشست حتیٰ کہ میڈیا میں ''ڈیڑھ ارب ڈالر'' کی باتیں سنائی دے رہی ہیں۔ اتفاقاً مجھے بھی گزشتہ دنوں کئی نجی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی کہ ہر شریک محفل (نوجوان و عمر رسیدہ) کی زبان سے یہی ''ڈیڑھ ارب ڈالر'' کا ذکر سننے میں آ رہا تھا۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کا ذکر سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ اس لیے یہ فطری عمل ہی کہا جا سکتا ہے کہ جس بات کا ڈنکا ہر سو بج رہا ہو تو ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہو گا کہ آخر ڈیڑھ ارب ڈالر کا ذکر ہر جگہ، ہر زبان، ہر محفل، ہر نجی محفل میں کیوں ہو رہا ہے۔ میرے نزدیک اس خبر پر کہ ''ڈیڑھ ارب ڈالر تحفے میں ملے'' نہایت چونکا دینے والی خبر ہی نہیں بلکہ ایک منفرد مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے جس نے دیگر تمام عوامی مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ حالانکہ ہمارا ایک صوبہ (سندھ) ایک قدرتی آفت ''تھر پارکر میں قحط سالی'' کے مسئلے سے دو چار ہے۔ جہاں بچوں کی بھوک، پیاس اور علاج معالجے کی کمیابی کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں۔
پورے ملک میں اس قدرتی سانحے کی گونج سنائی اور دیکھی جا رہی ہے۔ لیکن اس سنگین سانحے کے وقوع پذیر ہونے کے باوجود عوامی اور حکومتی حلقوں میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اتنے بڑے سانحے کے باوجود ڈیڑھ ارب ڈالر کی گونج کچھ معنی رکھتی ہے اگر حقیقتاً ڈیڑھ ارب ڈالر تحفتاً دیے گئے ہیں تو اس تحفے کا حق دار کون ہے؟ حکومت یا کوئی محبوب شخصیت لیکن اصولاً اگر کوئی ملک، اگر کوئی امداد یا قرض دیتا ہے تو وہ اس ملک کی حکومت حقدار ہوتی ہے۔ لیکن یہ تحفتاً جو ڈیڑھ ارب ڈالر ملے ہیں۔ یہ حکومت کے نام پر ہیں تو حکومت وقت کو عوام کو یہ باور کرانا ہو گا کہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں خرچ ہوں گے۔ کس منصوبے پر خرچ ہوں گے یا ملکی معیشت کی بد حالی کو سدھارنے پر خرچ ہوں گے؟
چوں کہ غیر ممالک یا دوست ممالک سے جو بھی امداد یا قرض ملتا ہے وہ سرکاری خزانے میں دیا جاتاہے۔ جس کی ذمے داری وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ہوتی ہے۔ اس لیے وفاقی وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک کو چاہیے کہ ان ڈیڑھ ارب ڈالر کی بابت عوام کو آگاہی دیں یعنی پریس کانفرنس یا حکومتی نوٹیفکیشن کے ذریعے عوام پر واضح کریں۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں سے آئے، کس ملک نے دیے، بطور امداد دیے یا بطور قرض دیے، تحفہ دینے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ایسی خبر سننے میں آئی۔ یہ بڑی سنسنی خیز خبر آئی ہے جس نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی۔ خصوصاً پسماندہ آبادیوں کے عوام تو خوش ہورہے ہیں اور امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید یہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہماری بد حالی، مخدوش معیشت اور غربت و مہنگائی اور تعلیم، صحت اور بیروزگاری جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے آئے ہوں۔
آپ سوچیں گے کہ یہ بات میرے ذہن میں کیسے آئی تو میں یہی جواب دوں گا کہ ''اندھے کو کیا چاہیے، دو آنکھیں۔ بھوکے کو کیا چاہیے، دو روٹی۔ آسمان تلے بیٹھے کو کیا چاہیے، سر چھپانے کے لیے چھت۔ تعلیم کے حصول کے متلاشی نوجوانوں کو کیا چاہیے، روزگار۔ اس لیے ہر شخص کو اپنی ضروریات زندگی کے حصول کے لیے کوئی ذریعے آمدنی چاہیے ہوتا ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کو اپنا نظام چلانے کے لیے امداد، قرض یا ٹیکسز کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام حکومت کو ٹیکسز دیتی ہے۔ کوئی ''تحفہ'' نہیں دیتی لہٰذا کسی غیر ملک کی کسی دوست ملک کو امداد یا قرض فراہم کرتی ہے۔ تحفہ نہیں، شاید یہ نظام نافذ ہو جائے کہ ہر دوست ملک دوسرے دوست ملک کو تحفتاً اربوں ڈالر دیتے رہیں تو کیسے قائم ہو گا۔ مضبوط معاشی نظام۔ اس لیے یہ تحفتاً رقم دینے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ نہ دماغ، نہ ذہن، نہ دل کوئی بھی اسے تسلیم نہیں کرتا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ ''ہائے! یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کسی کی جادوگری معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی جادوگر کسی محفل میں سارے کاغذات کو نوٹوں میں تبدیل کرنے کا جادو دکھاتا ہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ جادو کا نہیں ہے۔ حقیقتاً ڈیڑھ ارب ڈالر آنے کا ہے۔ عام آدمی تو یہی سوچتا ہو گا کہ کاش ڈیڑھ ارب نہیں تو ڈیڑھ ہزار ڈالر ہی مجھے مل جاتے۔ کیوں کہ جس کی جتنی حیثیت ہوتی ہے، ضرورت ہوتی ہے اسی حد تک اس کی طلب بھی ہوتی ہے۔ اگر مجھ جیسا بیکار کالم نگار ڈیڑھ دو ہزار نہیں ڈیڑھ ارب روپوں کا سوچے گا تو عوام کیا پوری مخلوق مجھے پاگل یا دیوانہ ہی سمجھے گی اور شاید مجھے سنگباری کا سامنا بھی کرنا پڑ جائے۔ تو جناب! اب سوچیے، سوچتے رہیے جب تک حکومت یا وزیر خزانہ یہ وضاحت نہ کر دیں کہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں سے آئے۔ کیوں آئے، کس نے دیے۔ یا کہاں استعمال ہوں گے۔
یہ ہماری مملکت کی ملکیت ہوں گے یا کسی محبوب شخصیت کی ملکیت ہوں گے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ بات ہو سوچنے کی، سمجھنے کی تو میں تو چلا سوچنے سمجھنے آپ بھی اپنا دماغ لڑایے اور سوچتے رہیے کہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں سے آئے، کیوں آئے، کہاں استعمال ہوں گے۔ حکومت کے خزانے میں جائیں یا یا وہاں گئے بھی تو وہاں سے کہا ''منتقل ہوں گے'' کیا ہم ابھی ملک کی اعلیٰ عدالت میں اس سرکاری خزانے سے نجی منصوبے کے لیے ارب روپے نکال لینے کی روداد سن رہے ہیں۔ کیسے نکال لیے تو کہتے ہیں ''صوابدیدی اختیار'' کے ذریعے۔ واہ! کیا خوب جواز تلاش کیا ہے۔ جناب وہ ''قومی خزانہ'' ہے نہ کہ آپ کا ذاتی بینک اکائونٹ۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے سابق چیف جسٹس صاحب کا کہ انھوں نے اس ''غبن'' کا از خود نوٹس لے لیا تھا۔ ورنہ کہاں نقار خانے میں طوطی کی آواز گونجتی اور پھر قومی خزانے پر ڈاکہ زنی بھی کس انداز میں کی گئی کہ اندھا بانٹے روڑیاں اپنی اپنوں کو دے کی طرح۔ خزانے سے رقم نکال کر اپنے آبائی شہر یا گائوں میں پہنچا دے۔
بات ہو رہی تھی ڈیڑھ ارب ڈالر کی لیکن جا پہنچی پاکستانی اربوں روپے تک ظاہر ہے بات سے بات نکلتی ہے تو کئی واقعات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جیسے طوفانی ہوائیں چلتی ہیں تو پورے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے، کسی مخصوص یا پسند کے علاقوں کو ہی لپیٹ میں نہیں لیتی۔ ڈیڑھ ارب ڈالر بھی طوفانی تو نہیں خفیہ طریقے سے آئے لیکن یہ بھی کئی کارندوں کو اپنی لپیٹ میں لیں گے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کا سوال ہے کوئی ڈیڑھ دو سو ڈالر کا نہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا اتہ پتہ ڈھونڈنے والا خود بھی ''کروڑ پتی'' نہ بن جائے۔ ہاں بھئی لالچ بری بلا ہے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کی کھوج لگائے اور اس کا دل نہ للچائے یہ انہونی بات نہیں ہو گی۔ یہ تو فطری تقاضا ہے اور ایسے مواقع پر شیطان بھی تو ورغلانے کے لیے سر پر سوار رہتا ہے بلکہ چند ایک اپنے چیلوں کو بھی ساتھ رکھتا ہے۔
تا کہ کھوج لگانے والے (ڈیڑھ ارب ڈالر کا) کو بھی ورغلا کر کسی غلط راستے پر ڈال دے۔ ابھی تو ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔؟ کہیں ایسا نہ ہو جیسا کہ ہمارے محبوب اور نڈر سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو نے ایوب خان کی حکومت کے خاتمے پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''آئے بھی وہ گئی بھی وہ'' ختم فسانہ ہو گیا اسی طرح ان ڈیڑھ ارب ڈالر کا حشر بھی وہی نہ ہو کہ ''آئے بھی وہ گئے بھی وہ'' کھوجی کو چاہیے کہ وہ کھوج لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے اور ان ڈیڑھ ارب ڈالر کو سرد خانے کی نذر نہ ہونے دے، نہ ہی قومی خزانے کے بجائے کسی ''تجوری'' میں جانے دے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر اگر قومی خزانے میں جائیں گے تو قومی معیشت جوان ہو جائے گی۔ عوام بد حالی سے نجات پا کر خوشحالی کا سفر طے کریں گے۔ ارے یہ کیا؟ آپ میری ان باتوں کو دیوانے کی بڑ کہہ رہے ہیں۔ اچھا اگر ایسا ہے تو کسی سیانے سے جا کر معلوم کر لیں کہ میری باتیں حقیقت پر مبنی ہیں یا محض خیالی پلائو۔
ڈیڑھ ارب ڈالر کس کو مل جائیں تو اس کی نیندیں حرام تو ہو ہی جاتی ہیں لیکن بعض اوقات ''ہارٹ فیل'' بھی ہو جاتا ہے۔ اچھا ہوا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کسی عام آدمی کو نہیں ملے بلکہ ہمارے ملک میں تحفتاً آئے ہیں۔ معلوم نہیں کس مد میں آئے ہیں۔ حکومت نے منگوائے ہیں یا قرض لیا ہے یا کسی خفیہ شخصیت کے نام آئے ہیں۔ دال میں کچھ کالا ضرور ہے جس کی پردہ داری ہے۔ سب ہی ''تحفہ، تحفہ'' کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ جب یہ کالا دھن سفید ہو جائے گا تو ڈیڑھ ارب ڈالر کا راز بھی افشا ہو جائے گا۔ انتظار کیجیے۔ سرکار کا فرمان کیا جاری ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ جناب ڈار صاحب بھی کچھ کہتے ہیں یا ڈالر کی چمک میں گم ہو جاتے ہیں۔ ابھی تو وہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ''ڈیڑھ ارب ڈالر تحفتاً'' ملے ہیں اور ہمارے دوست ملک کی جانب سے ملے ہیں۔ آخر میں اس سوال کے ساتھ اپنا مضمون اختتام کو پہنچائوں گا کہ کوئی بھی ملک کتنا ہی مخلص دوست کیوں نہ ہو۔ تحفتاً کسی کو اتنی بڑی رقم نہیں دیتا یا تو کسی معاہدے کے تحت قرض یا امداد دیتا ہے یا کسی ترقیاتی منصوبے میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ خیرات میں ڈیڑھ ارب ڈالر کوئی نہیں دیتا۔ دیکھتے رہیے آگے آگے ہوتا ہے کیا؟ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں سے آئے اور کہاں خرچ ہوں گے یہ سوال حل طلب ہی رہے گا۔