جنگ آزادی کا سپاہی بھگت سنگھ…
پھانسی کی سزا پانے کے وقت نوجوان بھگت سنگھ کی عمر صرف 24 برس 4 ماہ 25 دن تھی۔ یہ امر اس حقیقت کی علامت بھی ہے...
بھگت سنگھ نے 28 اکتوبر 1907 کو گاؤں بنگیانوالہ، تحصیل جڑانوالہ، ضلع لائلپور موجودہ نام فیصل آباد میں جنم لیا۔ بھگت سنگھ کے والد کا نام کشن سنگھ جب کہ والدہ کا نام ودیا وتی تھا۔ قوم سندھو جٹ تھی۔ بھگت سنگھ کو ترقی پسند نظریات گویا ورثے میں ملے تھے کیونکہ بھگت سنگھ کا والد کشن سنگھ اور چاچا تحریک آزادی کے سرگرم کارکن تھے۔ بھگت سنگھ کے دادا ارجن سنگھ بھی بھارت کی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیتے تھے اور ہندو آریا سماج پارٹی کے رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بھگت سنگھ نے ابتدائی تعلیم خالصہ ہائی اسکول لائلپور سے حاصل کی، جب کہ 1925میں تعلیم کے حصول کے لیے لاہور چلے گئے اور نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ بھگت سنگھ، اشفاق اللہ خان اور رام پرشاد بسمل کے خیالات سے بے حد متاثر تھا۔ اشفاق اللہ خان اور رام پرشاد بسمل ترقی پسند خیالات و انقلابی ذہنیت رکھنے والے رہنما تھے۔ اس وقت تک بھگت سنگھ کئی ترقی پسند تنظیموں و آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتوں کے رکن بن چکے تھے۔
جن میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ریپبلکن ایسوسی ایشن، کرتی کرشن پارٹی، نوجوان بھارت سبھا، برٹش سماج مخالف وغیرہ شامل ہیں۔ بھگت سنگھ ایک دانشور بھی تھا اور اس کا شمار اچھا لکھنے والوں میں ہوتا تھا۔ وہ پنجابی و اردو میں لکھتا تھا۔ بھگت سنگھ نے احتجاجی سیاست کا آغاز 12 برس کی عمر میں کیا، غالباً جلیانوالہ باغ سانحے میں شرکت بھگت سنگھ کی عملی سیاست کا آغاز تھا۔ سانحہ جلیانوالہ باغ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ گندم کی نئی فصل کاٹنے سے قبل پنجاب کے لوگ میلہ وساکھی میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ میلا وساکھی منانے کا مقصد گویا موسم بہار کا استقبال بھی ہوتا ہے۔ 1919 میں بھی میلا وساکھی منانے کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں کہ انگریز سرکار نے رولٹ ایکٹ نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس قانون کا مقصد کسی بھی شہری کو مقدمہ چلائے بغیر حراست میں لیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ اس برس یہ فیصلہ کیا گیا کہ میلا وساکھی کے موقعے پر انگریز سرکار کے نافذ کردہ رولٹ ایکٹ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا یہ احتجاج جلیانوالہ باغ میں رکھا گیا۔
جلیانوالہ باغ امرتسر میں واقع ہے اور سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل (دربار صاحب) سے صرف چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ لوگ جوق در جوق جلیانوالہ باغ میں جمع ہو رہے تھے یہاں تک کہ ان کی تعداد 20 ہزار کے لگ بھگ ہو گئی تھی۔ اچانک بریگیڈیئر جنرل رگینلڈ ڈائر، جسے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اوڈ وائز نے خصوصی اختیارات دے کر تعینات کیا تھا، نے اپنے سپاہیوں کو گولی چلانے کا حکم دے دیا۔ جلیانوالہ باغ کے واحد خارجی دروازے پر قفل لگا دیا گیا تھا۔ اب انگریز سرکار کے وفادار سپاہی احتجاج کرنے والوں پر اپنے نشانے خوب آزما رہے تھے۔ چند لوگ دیواریں پھاند کر اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ضرور ہو گئے لیکن خواتین اور بچے فرار نہ ہو سکے اور گولیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ گولیوں کے ایک ہزار چھ سو پچاس راؤنڈ خالی ہو گئے 1900 مرد و زن و معصوم بچے گولیوں کا نشانہ بنے جن میں چار سو افراد دم توڑ چکے تھے پندرہ سو مضروب تھے۔
بھگت سنگھ نے قیامت کا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جو کہ اس وقت بارہ سال کا تھا اور 140 میل کا سفر طے کر کے اس اجتماع میں شریک تھا۔ گمان غالب ہے کہ بھگت سنگھ اس اجتماع میں اپنے والد یا چاچا کے ساتھ آیا ہو گا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ بھگت سنگھ جس نے یہ دل خراش مناظر اپنے سامنے ہوتے دیکھے کیا بھگت سنگھ سے یہ امید رکھی جا سکتی تھی کہ وہ انگریز سرکار اور اس کے حواریوں کے لیے کوئی نرم گوشہ اپنے دل میں رکھتا؟ جلیانوالہ باغ امرتسر کا یہ واقعہ 13 اپریل 1919 کو پیش آیا۔ اس واقعے کے بعد جنرل ڈائر کو برطانیہ واپس بلا کر تفتیشی ٹیم کے حوالے کیا گیا۔ جس نے جنرل ڈائر کو بری کر دیا اور یہ ریمارکس دیے کہ جنرل ڈائر نے اپنی ذمے داری نبھائی ہے جب کہ 1920میں بھگت سنگھ نے مہاتما گاندھی کی عدم تعاون تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ جب کہ بھگت سنگھ کی عمر اس وقت فقط 13 برس تھی۔
عہد شباب میں قدم رکھتے ہی بھگت سنگھ کے گھر والوں نے اس کی شادی کرنے کی بارہا کوشش کی لیکن بھگت سنگھ ہر بار ایک ہی جواب دیتا کہ اس نے اپنے نظریات سے شادی کر لی ہے اور اب اس کا ایک ہی مقصد ہے بھارت کی آزادی۔ بھگت سنگھ بار بار گرفتار ہوا لیکن اپنے نظریات سے غداری نہ کی۔ یوں تو بھگت سنگھ کی مختصر زندگی جدوجہد سے عبارت ہے لیکن 1928میں ایک واقعہ ایسا ہوا کہ جس نے بھگت سنگھ کو گویا آتش فشاں بنا دیا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ لجپت رائے جوکہ بھگت سنگھ کا نظریاتی ساتھی و دانشور تھا اور اس بات کا حامی تھا کہ مسلم اکثریت والے علاقوں میں جن میں مغربی پنجاب، بنگال، موجودہ سندھ و صوبہ سرحد کو علیحدہ صوبے بنائے جائیں تا کہ مسلمان وہاں اپنی حکومتیں قائم کر سکیں۔ حکومت برطانیہ نے سائمن کمیشن تشکیل دیا۔ اس کمیشن میں کوئی انڈین شریک نہ تھا۔ جس پر لجپت رائے نے اپنے ساتھیوں سمیت اس سائمن کمیشن کی لاہور آمد کے موقع پر احتجاج کیا۔ S.P جیمس اسکاٹ کے حکم سے لجپت رائے پر بدترین تشدد کیا گیا۔
63 سالہ لجپت رائے یہ تشدد برداشت نہ کر سکا اور دم توڑ گیا۔ بھگت سنگھ نے عہد کیا کہ وہ لجپت رائے کے قتل کا بدلہ لے گا لیکن اس نے جو جوابی کارروائی کی اس میں جیمس اسکاٹ کی بجائے جان سان ڈرز A.S.P کو غلط شناخت کے باعث قتل کر دیا۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں پر مقدمہ قائم ہو گیا۔ مگر یہ شروعات تھیں۔ 1929میں لاہور میں بم سازی کی فیکٹری پکڑی گئی۔ الزام بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں پر عائد کیا گیا۔ جب کہ 1929 میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے کیپٹل اسمبلی پر مسلح حملہ کیا اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ کیپٹل اسمبلی حملہ کیس میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی دت کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ سوبھا سنگھ نے بھگت سنگھ اور دت کے خلاف عدالت میں بیان دیا اور انگریز سرکار سے ''سر'' کا خطاب انعام میں پایا۔ اس کیس کی سماعت سیشن جج مڈلٹن نے کی جب کہ جان سان ڈرز کیس میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس سزا پر عملدرآمد کرتے ہوئے 23 مارچ1931 کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی گھاٹ پر چڑھ کر بھگت سنگھ نے ثابت کر دیا کہ زندگی ایک سفر نہیں بلکہ زندگی ایک مقصد ہے۔
پھانسی کی سزا پانے کے وقت نوجوان بھگت سنگھ کی عمر صرف 24 برس 4 ماہ 25 دن تھی۔ یہ امر اس حقیقت کی علامت بھی ہے کہ ضروری نہیں قوم و ملک کے لیے کچھ کرنا ہو تو طویل زندگی درکار ہوتی ہے بلکہ مختصر زندگی میں بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے جیسے کہ بھگت سنگھ نے کیا۔ 23 مارچ 2014کو بھگت سنگھ کی 83 ویں برسی کے موقع پر ہم تہہ دل سے بھگت سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ اپنے وطن سے غربت، جہالت، وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات، ظلم، جبر کا خاتمہ کر کے دم لیں گے اور اس موقع پر ہم حکومت پنجاب سے پرزور گزارش کرتے ہیں کہ بھگت سنگھ کے آبائی شہر جڑانوالہ کو بھگت سنگھ سے منسوب کرتے ہوئے بھگت سنگھ سٹی نام دیدے ۔