انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی

کاش وہ اس بارے میں قانون سازی پر توجہ دیتے۔ ان قوانین پر عملدرآمد کیسے ہوگا یہ ایک اہم سوال ہے

tauceeph@gmail.com

میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں طویل عرصہ سے زیرِ التواء انسانی حقوق کے تحفظ کے قوانین کی منظوری کا سلسلہ شروع ہوا۔

گزشتہ ہفتہ قومی اسمبلی نے اراکین کی اسپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کا قانون منظورکیا ہے۔

اس طرح اب زیرِ حراست رکن اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر کے اجراء کے طریقہ کار کو آسان کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی گرفتار رکن اسمبلی کو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر یا سینیٹ کے چیئرمین کی جانب سے پروڈکشن آرڈر کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اب صرف فاضل رکن کی گرفتاری کی اطلاع پر قومی اسمبلی یا سینیٹ کا سیکریٹریٹ خود کار طریقہ سے پروڈکشن آرڈر جاری کرے گا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے The torture and custodian death prevention and punishment bill زیرِ حراست ملزمان پر تشدد اور تشدد سے اموات کے تدارک کا قانون منظور کیا۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ نے آخرکار شہری کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کا قانون بھی منظور کر لیا۔ اس قانون کے تحت کسی شہری کی جبری گمشدگی کے ذمے دار سرکاری اہلکار کو پانچ سال تک سزا دی جاسکتی ہے۔

1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد پارلیمنٹ کی تمام ریاستی اداروں پر بالادستی کا تصور واضح ہوا ، یوں پارلیمنٹ کے اختیار کو مستحکم کرنے کے لیے اراکین پارلیمنٹ کے استحقاق کے معاملہ پر بھی پیش رفت ہوئی اور یہ اصول طے پایا کہ کسی رکن پارلیمنٹ کی گرفتاری کی اطلاع اسمبلی کے اسپیکر اور اگر سینیٹر ہے تو سینیٹ کے چیئرمین کو دی جائے گی۔

جب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ہونگے تو قومی اسمبلی کے اسپیکر یا سینیٹ کے چیئرمین اس رکن کو اجلاس میں طلب کرنے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کریں گے مگر مختلف ادوار میں یہ اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کے صوابدیدی اختیارات سے منسلک رہا۔

عمران خان کے دورِ اقتدار میں اسد قیصر اسپیکر تھے۔ شمالی وزیرستان کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر ، مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اﷲ، خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی وغیرہ کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں طلبی کے معاملات التواء کا شکار رہے۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے مگر گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ کی عدالت میں کہا کہ قومی اسمبلی نے گرفتار رکن اسمبلی کی اجلاس میں شرکت کے طریقہ کار کو آسان کردیا ہے۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے تحریک انصاف کے وکیل کی اس اطلاع پر مسرت کا اظہار کیا۔

برطانوی ہند دور حکومت میں زیر حراست ملزموں پر تشدد اور تشدد سے ہلاکتوں کی روایت نئے آزاد ہونے والے ملک پاکستان میں منتقل ہوئی۔ عام ملزموں پر جن میں سے بیشتر بے گناہ ہوتے ہیں تشدد عام سی بات ہے مگر سیاسی قیدیوں پر بیہمانہ تشدد کیا جاتا تھا۔

عظیم بلوچ رہنما غوث بخش بزنجو، میر گل خان ، نصیر خان ، عبد الغفار خان ، عبدالصمد اچکزئی اور دیگر رہنماؤں نے اپنی یاد داشتوں میں اس تشدد کا ذکر کیا ہے۔

بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما محمد امین نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ وہ ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد مشرقی پاکستان آئے تاکہ مظلوم طبقات کی تحریکوں کو منظم کیا جائے مگر انھیں گرفتار کر کے راج شاہی جیل میں کئی سال تک نظربند رکھا گیا اور مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ جیل سے رہا ہو کر یہ ملک چھوڑ گئے۔

جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں سابقہ کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے مزدور رہنماؤں، طلبہ کارکنوں، صحافیوں اور دانشوروں کو لاپتہ کرنے اور تشدد کا بدترین سلسلہ شروع ہوا۔ اس تشدد کے نتیجہ میں حسن ناصر شہید ہوئے اور کئی کارکن زخمی اور جسمانی طور پر مفلوج ہوگئے تھے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر نذیر عباسی، صحافی سہیل سانگی، جام ساقی، پروفیسر جمال نقوی، شبیر شر، احمد کمال وارثی کو اغواء کیا گیا اور نذیر عباسی کو تیسرے گریڈ کے تشدد کے ذریعہ شہید کردیا گیا۔


مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد برسر اقتدار آنے والی حکومتوں کے دور میں تمام ملزموں کے علاوہ سیاسی قیدیوں پر بھی اسی طرح کا تشدد عام سی بات رہی۔

نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کے برآمد ہونے کی لہر آئی۔ ابتدائی طور پر خیبر پختون خوا ، قبائلی علاقوں اور بلوچستان سے سیاسی کارکنوں کے علاوہ اساتذہ ، طلبہ ، ادیبوں، دانشوروں، شاعروں، ڈاکٹروں اور مذہبی علماء کے لاپتہ ہونے کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنیں۔ سندھ اور پنجاب سے بھی اطلاعات آنے لگیں۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ازخود نوٹس اختیار کے تحت اس انسانی مسئلہ کا نوٹس لیا اور ان کے سخت احکامات کی بناء پر طالبان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کو کنسنٹریشن کیمپوں سے لا کر جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں پیش کی گیا۔

جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد کے لواحقین کی داد رسی کے لیے سپریم کورٹ کے سابق سینئر جج جسٹس جاوید اقبال پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا۔

اس کمیشن میں سندھ اور خیبر پختون خوا کے دو سرکاری افراد کو جن میں ایک سابق جج تھے رکن مقرر کیا گیا، جسٹس جاوید اقبال تقریباً 8 سے 9سال گزرنے کے بعد کمیشن کے سربراہی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے اس کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے لاپتہ افراد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسا شہری جس کو سرکاری ایجنسیوں نے اغواء کیا ہو لاپتہ افراد کی تعریف میں آتا ہے۔

جسٹس اطہر من اﷲ نے پارلیمنٹ میں نمایندہ جماعتوں کے اراکین پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا جس کا سربراہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو مقرر کیا گیا ، مگر ان کی معذرت کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا جس نے تجاویز مرتب کرنا شروع کردی ہیں ۔

انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے سرگرداں پرعزم وکیل ڈاکٹر مرتضی کھوڑو کا بیانیہ ہے کہ 1973 کے آئین کی شق 2-A آئین کی Preamble کا حصہ تھی مگر جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں اسے Preamble سے نکال دیا گیا۔ اسی طرح آئین کی شق 4 بہت واضح ہے۔ اس شق کے تحت ریاست پابند ہے کہ ہر فرد کے ساتھ قانون کے تحت سلوک کیا جائے۔

اس طرح اس آئین کی شق 9 کے تحت ہر شہری کی زندگی اور اس کی آزادی کی ریاست نے ضمانت دی ہے۔ اسی طرح آئین کی شق 10 اور 10A کے تحت فرد کی گرفتاری اور قانون کے مطابق سلوک کی واضح وضاحت کی گئی ہے ۔ مرتضی کھوڑو کا بیانیہ ہے کہ اتنے اہم انسانی مسائل پر بہت پہلے قانون سازی ہونی چاہیے تھی۔

یورپی یونین نے جب پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا تو یہ شرط عائد کی تھی کہ تشدد اور ریاست کے شہری کو لاپتہ کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت پاکستان قانون سازی کرے، یوں عمران خان کے دور اقتدار میں یہ قوانین قومی اسمبلی اور سینیٹ میں زیر غور رہے مگر حکومت نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔

جب سینیٹ نے شہری کو لاپتہ کرنے کے جرم کو فوجداری جرم قرار دینے کے قانون کے مسودہ کی منظوری دی تو اچانک اس وقت کی انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اعلان کیا کہ یہ مسودہ لاپتہ ہوگیا ہے۔

عمران خان اپنے ساتھیوں پر دوران حراست تشدد کی روز مذمت کرتے ہیں۔ کاش وہ اس بارے میں قانون سازی پر توجہ دیتے۔ ان قوانین پر عملدرآمد کیسے ہوگا یہ ایک اہم سوال ہے۔

موجودہ حکومت کو اس بارے میں جرات مندانہ فیصلہ کرنا چاہیے مگر موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ مبارکباد کی مستحق ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں قانون سازی پر توجہ دی ہے۔
Load Next Story