صداقت و امانت سے خیانت تک

خدا کی قدرت دیکھیں کہ آج اپنے مخالفین کو چور اور ڈاکو کے القابات دینے والا خود بھی ایسے الزامات کی زد میں آ چکا ہے

ashfaqkhan@express.com.pk

ہم سنا کرتے تھے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے یعنی دونوں میں حد سے گزر جانے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا مگرتجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ سیاست میں بھی سب کچھ جائز ہے اور یہ دامن بچا کر چلنے والے شرفا کا کام پہلے بھی نہیں تھا مگر پی ٹی آئی کی آمد نے سیاست کو ہر اعتبار سے گہنا دیا۔

سیاست کا رخ کیا اس دن سے سیاست سے وقار، وضع داری اور رواداری نے اپنا بوریا بستر لپیٹ لیاہے،پی ٹی آئی کی طرز سیاست میں اپنے مخالفین کی عزتوں پر ہاتھ ڈالنا، پگڑیاں اچھالنا، گالم گلوچ، الزام تراشی، اداروں کی تذلیل، قانون کی دھجیاں اڑانا اور آئین کو پامال کرنا سیاست کے بنیادی لوازمات ہیں۔

خدا کی قدرت دیکھیں کہ آج اپنے مخالفین کو چور اور ڈاکو کے القابات دینے والا خود بھی ایسے الزامات کی زد میں آ چکا ہے۔ توشہ خانہ کیس کی بازگشت پاکستان کے اندر ہی نہیں پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔

جب سے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آیا ہے اس وقت سے بار بار عمران کے ناقدین کی باتیں ذہن میں گھوم رہی ہیں، وہ عمران خان کا جو خاکہ پیش کرکے بار بار متنبہ کرتے رہے، وہ خاکہ آج توشہ خانہ ریفرنس کی صورت میں حقیقت بن کر کھڑا ہے۔

توشہ خانہ ریفرنس کی حقیقت کیا ہے آج اس کے پس منظر اور پیش منظر پر بات کریں گے۔ یہ اسی سال اگست میں الیکشن کمیشن میں پیش کیا گیا۔

ایم این ایز کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کی نااہلی کے لیے ایک ریفرنس بھیجا۔ جس کے مطابق سابق وزیر اعظم نے دوست ممالک سے حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف توشہ خانہ سے قواعد و ضوابط کے مطابق حاصل نہیں کیے۔ الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو سال تک ان تحائف کا ذکر نہیں کیا۔

مسلم لیگ( ن) کے رکن اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کی طرف سے درخواست اور اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس میں اثاثے چھپانے پر عمران خان کی نااہلی کی استدعا کی گئی تھی۔ سابق وزیر اعظم پر قانونی طور پر لازم تھا کہ وہ ہر مالی سال کے آخر میں اپنے، اپنی اہلیہ اور زیر کفالت افراد کے تمام تر اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کرواتے۔

ان پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کو چھپایا۔ مبینہ طور پر عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن کے فیصلے میں اسپیکر کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس پر 7سوالات ترتیب دیے گئے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نااہل قرار دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن اثاثوں کے گوشواروں میں غلط معلومات دینے یا چھپانے اور جھوٹے ڈیکلریشن پر کارروائی کا اختیار رکھتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے حکم کا حوالے دے کر عمران خان کا مؤقف مسترد کر دیا۔

الیکشن کمیشن کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے عمران خان بنام نواز شریف کیس میں قرار دیا تھا کہ آرٹیکل 62اور 63کے تحت نااہل قرار دینا صرف اور صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اختیار ہے۔

الیکشن کمیشن نے قرار دیا ہے کہ مالی سال کے دوران کتنے تحائف حاصل کیے؟ کتنے کسی اور کو منتقل کیے؟ یہ بتانا جواب گزار کی ذمے داری ہے مگر عمران خان نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن سے حقائق چھپائے، غلط بیانی کی اور جھوٹ بولا۔


الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات الیکشن کمیشن کے اثاثوں سے متعلق فارم بی سے مطابقت نہیں رکھتیں، تحائف کتنے میں بیچے، کس کو بیچے، کب بیچے، عمران خان کی دی گئی تفصیلات اسٹیٹ بینک کی جانب سے فراہم کیے گئے ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتیں، عمران خان نے اعتراف کیا کہ انھوں نے تحفے بیچے، رقم کیش میں لی، چالان بھی دیے کہ رقم بینک میں آئی، مگر جو رقم بینک میں آئی وہ اصل رقم کے نصف سے بھی کم ہے۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ 10کروڑ روپے مالیت کے تحائف 2 کروڑ 15ہزار روپے میں خریدے یعنی 20%کی ادائیگی پر اسٹیٹ بینک کی فراہم کردہ تفصیل کے مطابق عمران خان کے اس اکاؤنٹ میں 5 کروڑ روپے کے قریب رقم موجود تھی، عمران خان کے مطابق تحائف 8کروڑ 66 لاکھ روپے کا منافع حاصل ہوا، مگر یہ پوری رقم بینک میں موجود نہیں۔

کابینہ ڈویژن کے مطابق عمران خان نے گھڑی، نیکلس، بریسلٹ، انگوٹھی، بالیاں ، کارپٹ اور دوسرے تحائف بھی اپنے پاس رکھے مگر ان کی تفصیل الیکشن کمیشن کو نہیں دی، عمران خان اس پر آئین کے آرٹیکل63ون پی کے تحت نا اہل قرار پائے ہیں، وہ اب رکن قومی اسمبلی نہیں رہے۔

ان کی نشست خالی قرار دی جاتی ہے، عمران خان کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017کی خلاف ورزی اور بد دیانتی پر قانونی کارروائی کے آغاز کا حکم دیا جاتا ہے اور اس طرح صداقت و امانت سے خیانت تک کا سفر تمام ہوا۔

تحریک انصاف کی حکومت کو ریاست مدینہ کے بارے میں تھوڑا بہت بھی علم ہوتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے، ایک بار رسول اللہﷺ نے کسی کو مختلف قبائل سے زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا واپسی پر اس نے جمع شدہ زکوٰۃکا حساب دیا اور آخر میں الگ سے ایک چھوٹے سے ریوڑ اور کچھ مال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ'' یہ میرے تحفے ہیں جو مجھے ان قبائل نے اکرام کے طور پر دیے ہیں۔'' رسول اللہﷺ نے اسے فوری معزول فرمایا، وہ ریوڑ اور مال بیت المال میں جمع کرانے کا حکم دیا۔

اس کے بعد نبی رحمت ﷺ نے تفصیلی گفتگو کی جسے کسی دوسرے موقع پر مکمل پیش کروںگا مگر اس کا لب لباب سرکاری ذمے داران کو ملنے والے تحائف شخصی نہیں ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں۔ اس دن کے بعد کسی بھی عہدیدار یا قاضی کو تحفہ دینے اور لینے پر پابندی عائد کر دی گئی اور تحائف بیت المال یعنی توشہ خانے میں جمع کرانے کا حکم دیا۔

کاش عمران خان ریاست مدینہ کے طرز حکمرانی کو اختیار کرتے اور آیندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے قابل تقلید مثال قائم کرتے تو ان کا نام تاریخ میں امر ہوجاتا اور آج انھیں یہ ذلت و رسوائی بھی نہ اٹھانا پڑتی۔

وزیراعظم پاکستان کو دوست ممالک کی طرف سے حسب روایت نایاب تحائف ملے، ان تحائف کو قانون کے مطابق توشہ خانہ میں جمع کرایا جاتا ہے۔

تحائف کا مقصد دوست ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو مستحکم بنانا ہوتا ہے نہ کہ انھیں بازار میں فروخت کرنا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کئی تحائف توشہ خانہ میں جمع ہی نہیں ہوئے بلکہ تحائف بیچنے کے بعدمطلوبہ رقم قومی خزانے میں جمع کی گئی، تحائف کو رکھنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر تحائف کو بازار میں بیچنے کا کوئی اخلاقی جواز ہے نہ قانونی۔ اس لیے فیصلہ آنے سے پہلے ہی پورے ملک میں کارکنوں کو نااہلی کا فیصلہ آنے پر سڑکوں کو بلاک کرنے اور پر تشدد احتجاج کی باقاعدہ تنظیمی طور پر ہدایات جاری کی گئیں۔

جیسے الیکشن کمیشن نے انھیں نااہل قرار دیا تو خان کے ورکرزنے پورے ملک کی سڑکیں جام کر دیں، ٹائر جلاتے، آگ لگاتے۔ دنیا کا کوئی قانون اور اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔ مگر ''دو نہیں ایک پاکستان'' کے دعویدار عمران خان نے عملی طور پر ثابت کر دیا کہ وہ''اب ایک نہیں دو پاکستان'' کے علمبردار ہیں اور اپنے خلاف کسی فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ وہ فرما رہے ہیں کہ ''مجھے لوگوں نے ووٹ دے کر ہر الزام سے بری کر دیا۔''

اب کپتان ایک بار پھر ریلیف لینے کے لیے عدالت پہنچ چکے ہیں، ممکن ہے کہ انھیں وہاں سے ریلیف بھی مل جائے مگر سیاسی لیڈر کی ساکھ ،گر جائے تو دوبارہ واپس نہیں آتی۔
Load Next Story