فائل بند ہی رکھیں تو بھلائی ہے

پاکستان سے کاٹ کر’’آزاد بلوچستان‘‘ بنا دیا جائے تو وہ امریکیوں کے قبضے میں آ جائے گا

nusrat.javeed@gmail.com

ہماری قومی سالمیت، حاکمیت اور عزت ایک بار پھر خطرے میں پڑگئی ہے۔

اقوام متحدہ کے پانچ نمایندے ایک وفد کی صورت ہماری بھولی بھالی وزارت خارجہ سے ''دعوت'' لے کر پاکستان آ گئے ہیں۔ مختلف لوگوں اور اہم سرکاری شخصیات سے ملاقاتیں کرکے جان رہے ہیں کہ ''لاپتہ افراد'' کے بارے میں اتنا واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے۔

میرے اور آپ کے ووٹوں سے بنی''نااہل، بے حس اور بدعنوان حکومت'' کو تو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ''لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے'' کے نام پر کی جانے والی اس کھلم کھلا ''مداخلت'' کو روک پاتی۔ مگر چیف جسٹس صاحب نے لاج رکھ لی۔ اقوام متحدہ کے وفد کو ملنے سے انکار کر دیا اور ایک بہت ہی معقول جواز یہ فراہم کیا کہ وہ ''لاپتہ افراد'' کے بارے میں خود تفتیش کر رہے ہیں۔

ہمارے فوجی حکام تو ویسے بھی بیرونی ''مداخلت کا روں'' کے منہ لگنا پسند نہیں کرتے۔ انھوں نے بھی ملنے سے انکار کر دیا۔ اب اقوام متحدہ کی جانب سے آئے ''مہمان'' اپنے کمروں میں بیٹھے مقامی اخبارات پڑھتے رہیں گے۔ کچھ ''لاپتہ افراد'' کے خاندان والوں کی جھوٹی سچی کہانیاں سنیں گے اور پھر جو ان کے دل میں آئے گا وہ رپورٹ تیار کر دیں گے۔

اس رپورٹ سے ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔مگر ان کے یہاں در آنے سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ ''شیطان ِعصر'' جسے ریاست ہائے متحدہ امریکا بھی کہا جاتا ہے، ہماری ''نظریاتی مملکت'' کے خلاف جو اﷲ کے کرم اور ڈاکٹر عبدالقدیر کی ذہانت و محنت کے باعث اب عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت بھی ہے، مسلسل سازشوں میں مصروف ہے۔

سارے موسموں میں رواں دواں ''گرم سمندر'' کے ساتھ ساتھ 700 کلومیٹر کی ساحلی پٹی رکھنے والے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں۔ شاید ارادہ یہ ہے کہ ''آزاد بلوچستان'' میں فوجی اڈے بنا کر ''اسلامی جمہوریہ ایران'' کو ایٹمی قوت بننے سے روکا جائے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کو اسلحہ اور رسد پہنچانے کے لیے بھی مشکلات پیش آتی رہتی ہیں، پاکستان سے کاٹ کر ''آزاد بلوچستان'' بنا دیا جائے تو وہ ''جسے چمن قندھار کوریڈور'' کہا جاتا ہے امریکیوں کے قبضے میں آ جائے گا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران مختلف اپوزیشن رہنمائوں کی غصیلی تقریریں سننے اور اپنے چند محب وطن کالم نگاروں کے سیاپے پڑھنے کے بعد کم از کم میں تو جان گیا ہوں کہ ''لاپتہ افراد کے بارے میں تحقیق'' کے نام پر آنے والے اقوام متحدہ کے وفد کے اصل ارادے کیا ہیں۔ مگر حناربانی کھر صاحبہ کو کیا ہوا ہے؟ وہ ریاستی امور سے پہلی مرتبہ روشناس تو نہیں ہوئیں۔

2002ء سے 2008ء تک وہ اقتصادی امور کے محکمے کی کرتا دھرتا رہی ہیں۔ اس محکمہ کا کام ہی غیر ملکوں سے قرض اور امداد لانا اور انھیں خرچ کرنا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی ادارے ''بنیوں کے بیٹے'' ہوا کرتے ہیں۔ ''قرض اور امداد'' خیرات نہیں کیا کرتے۔ ''کچھ'' دیکھ کر مائل ہوتے ہیں۔ حنا صاحبہ کو تو میرے اور آپ سے کہیں زیادہ علم ہونا چاہیے کہ عالمی اداروں کے ہمارے بارے میں اصل ارادے کیا ہیں۔


بجائے ہمارے دُکھ کا مداوا کرنے کے محترمہ بدھ کو قومی اسمبلی میں کھڑی ہوئیں اور بین الاقوامی امور کے کسی ماہر استاد کی طرح ہمیں سمجھانا شروع کر دیا کہ اقوام متحدہ کا وفد کوئی ''تفتیشی کمیشن'' نہیں ہے۔ وہ ''لاپتہ افراد'' کے بارے میں لکھی کسی فرد جرم کو مضبوط بنانے کے لیے ''ضمنیاں'' لکھنے نہیں آیا۔

اسے تو حکومت پاکستان نے خود بلایا ہے تا کہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ اپنے با اعتماد معتمدوں کے ذریعے جان لے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں ایک منتخب جمہوری حکومت ہے۔ یہاں کا میڈیا بے باک اور عدلیہ آزاد ہے۔ ایسے جاندار معاشروں میں کوئی سرکاری اہلکار یا ایجنسی جرأت ہی نہیں کر سکتے کہ کچھ لوگوں کو محض شک کی بناء پر اپنے پیاروں سے جدا کرنے کے بعد خفیہ اذیت کدوں میں بند کر دیا جائے۔

اپنی وزیر خارجہ پر مجھے اس وقت بہت ترس آیا جب انھوں نے درد بھری آواز میں قومی اسمبلی کے اراکین کو یاد دلایا کہ اسی سال مارچ میں جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال جنیوا تشریف لے گئے تھے۔ وہ اس کمیشن کے سربراہ ہیں جو سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کا پتہ چلانے کے لیے قائم کیا تھا۔ انھوں نے اب تک جو بھی معلوم کیا وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے کو بھی سمجھا اور بتا دیا ہے۔

حناربانی کھر صاحبہ نے قومی اسمبلی کے اراکین کو یہ بھی یاد دلایا کہ یہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق والے ادارے کی سربراہ ہی تھیں جنہوں نے پاکستان کے ایک دورے کے بعد واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ ڈرون حملے انسانی حقوق کی بدترین پامالی کرتے ہیں۔ ہمیں تو ایسے ادارے کے لوگوں کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ وہ ہمارے دوست ہیں دشمن نہیں۔ ان کی نیت پرشک نہ کیا جائے۔

حنا ربانی کھر صاحبہ کے دلائل کو سمجھنے میں میرے جیسے جاہل اور کند ذہن کو کافی دیر لگی۔ اگرچہ انھوں نے بڑی کوشش کی مگر میں اب تک نہیں سمجھ سکا کہ ''کمیشن'' اور ''مشن'' میں کیا فرق ہوتا ہے۔ بس اتنا جان پایا کہ اقوام متحدہ نے کوئی ''تفتیشی کمیشن'' نہیں بنایا ہے جو ''لاپتہ افراد'' کے معاملے میں ''مجرموں کی نشاندہی'' کرنے کے بعد انھیں سزائیں دینے کا بندوبست کرے۔

اقوام متحدہ والے تو یہ دیکھنے آئے ہیں کہ پاکستان کی ریاست اور اس کے ادارے ''لاپتہ افراد'' سے متعلق دائر کی جانے والی شکایتوں کا ازالہ کس "Mechanism" کے ذریعے کیا کرتے ہیں۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور پیاروں کی شنوائی اور داد رسی کے لیے قائم پاکستانی اداروں کے طریقہ کار کو اچھی طرح جان کر ''رپورٹ'' کر دیا جائے گا۔ اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے؟

گھبرانے کی یقیناً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری حکومت ''نااہل، بدعنوان اور بے حس'' ہو چکی ہے تو ہوتی رہے۔ ہمارا اس سے کیا لینا دینا۔ ہماری عدلیہ چاک و چوبند اور متحرک ہے۔ اور میڈیا تو بالکل ہی آزاد۔ یہ آزاد نہ ہوتا تو روزانہ کسی نہ کسی چینل پر ایک گھنٹے تک اکیلے بیٹھ کر قوم کی غیرت کو لال حویلی والے کیسے جھنجھوڑ سکتے تھے۔

یہ الگ بات ہے کہ قوم کو جھنجھوڑنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہونے کے بعد لال حویلی والے حاذق حکماء نے اب ''ستو پینے والوں'' کو جگانا شروع کر دیا ہے۔ ''ستو پینے والے'' سب جانتے ہیں۔ ان کے پاس ہر شخص کی ''فائل'' موجود ہے۔ ایسی ہی ایک ''فائل'' مخدوم شہاب الدین کے بارے میں بھی تیار کی گئی تھی۔ مہینوں کسی سرد خانے میں پڑی رہی۔ آصف علی زرداری کو پتہ نہیں مخدوم شہاب الدین سے کیا دشمنی تھی۔

یوسف رضا گیلانی فارغ کر دیے گئے تو انھوں نے مخدوم شہاب ا لدین کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کر دیا۔ ''فائل'' کھل گئی۔ وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار ''اشتہاری'' ہو گیا مگر اس ''فائل'' کا کیا فائدہ جو ہماری انتہائی آزاد عدلیہ کے ذریعے مخدوم شہاب الدین کی ضمانت بھی نہ رکوا سکی۔ ایسی فائلیں بند ہی رہیں تو سب کا بھلا ہے۔ ورنہ شرمندگی ہی شرمندگی ہے اور بالآخر NRO۔
Load Next Story