بجلی بحران بدامنی سرکاری رکاوٹوں پر شدید تحفظات غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد ایک فیصد کم ہوگیا سرو
پیداواری شعبے کا اعتماد بہتر، خدمات اور ریٹیل سیکٹر کے بھروسے کو منفی 3 اور 15 فیصد کے ساتھ شدید دھچکا
پاکستان میں کام کرنے والی غیرملکی کمپنیوں نے امن و امان کے مسائل، توانائی کے بحران، بلند کاروباری لاگت اور پالیسیوں کے عدم نفاذ کو سرمایہ کاری میں کمی کی اہم وجوہ قرار دیا ہے جبکہ بجلی کے بحران، کاروبار کرنے کی بڑھتی ہوئی لاگت اور سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے کاروباری طبقے کے اعتماد میں ایک فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
اوورسیز انویسٹرزچیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری (اوآئی سی سی آئی) کے تحت ہونے والے کاروبار اعتماد اشاریے (بی سی آئی) سروے میں اگست 2013 کے مثبت 2 فیصد کے مقابلے میں مارچ 2014 میں نتائج1فیصد کم رہنے سے مثبت1فیصد رہ گئے۔ اس حوالے سے صدر اوآئی سی سی آئی اسد ایس جعفر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اگست 2013 اور مارچ 2014 کے سروے مثبت اشاریوں کی نشاندہی کررہے ہیں جس میں کاروباری ادارے اپنے کاروبار کو وسعت دینے، نئی سرمایہ کاری اور ملازمت کے نئے مواقع کے لیے پر امید ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کے کچھ خدشات اور مسائل بھی ہیں جن کے حل کے لیے حکومت کو سنجیدگی سے کوششیں کرناہوں گی۔ انہوں نے بتایاکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر نے اگست 2013 کے 4فیصد اعتماد کے مقابلے میں مارچ 2014 میں 12فیصد مثبت اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اس کی وجہ جولائی سے دسمبر 2013 کے دوران مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 6.4فیصد گروتھ بھی ہے۔
اسد ایس جعفر نے بتایاکہ سروس سیکٹر کا کاروباری اعتماد اگست 2013 کے 5فیصد کے مقابلے میں منفی 3فیصد ہوگیا جبکہ ریٹیل سیکٹر اگست 2013 کے منفی 6فیصد کے مقابلے میں منفی 15فیصد ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجموعی کاروباری اعتماد میں معمولی کمی کے سلسلے میں کاروبار کرنے کی بڑھتی ہوئی لاگت، لا اینڈ آرڈر اور توانائی بحران بنیادی وجوہ ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ سروے کے جوابات دینے والے کاروباری طبقے میں سے 49 فیصد نے بجلی اور گیس کے بحران کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے جبکہ اگست 2013 میں 47 فیصد افراد نے بجلی اور گیس بحران کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا تھا، اگست 2013 کے 42فیصد کے مقابلے میںمارچ 2014 میں 47 فیصد کاروباری طبقے نے بڑھتے ہوئے جرائم، بھتے، اسٹریٹ کرائم اور اغوا کے واقعات کو بڑا مسئلہ قرار دیا، اگست 2013 کے 26فیصد کے مقابلے میں 39 فیصد نے کاروبار کرنے میں سرکاری سطح کی رکاوٹوں کو بڑا مسئلہ قرار دیا۔
انہوں نے کہاکہ نئی حکومت آنے کے بعد کاروباری طبقے کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں مگر حالیہ سروے میں کاروبار کرنے میں حائل رکاوٹوں کو بڑا مسئلہ قرار دینا حکومتوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔اس موقع پراوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سیکریٹری جنرل عبد العلیم نے کہاکہ حالیہ سروے کے مجموعی نتائج مثبت مگر اس ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حکومت کو معاملات کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔انہوں نے کہاکہ بڑھتے ہوئے جرائم، گیس کا بہتر معاشی استعمال نہ ہونا، گیس اور بجلی کے نرخ کو بہتر نہ بنانا، سرکاری اداروں کی جانب سے بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسز میں کمی نہ لانا وہ مسائل ہیں جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ پریشانی کا شکار ہے اور ہماری حکومت کو تجاویز میں ان تمام مسائل کا حل تلاش کرنے پر زور دیا گیا ہے۔انہوں نے بتایاکہ اوورسیز انویسٹرزچیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری نے حکومت کو ٹیکس اصلاحات کیلیے بھی جامع پروپوزل جمع کرائے ہیں جن میں تمام سیلز ٹیکس ریفنڈ کی بروقت ادائیگی، ٹرن اوور ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس میں کمی، ٹیکس بیس کو بڑھانے کیلیے معیشت کو دستاویزی شکل دینا وغیرہ شامل ہیں۔
اوورسیز انویسٹرزچیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری (اوآئی سی سی آئی) کے تحت ہونے والے کاروبار اعتماد اشاریے (بی سی آئی) سروے میں اگست 2013 کے مثبت 2 فیصد کے مقابلے میں مارچ 2014 میں نتائج1فیصد کم رہنے سے مثبت1فیصد رہ گئے۔ اس حوالے سے صدر اوآئی سی سی آئی اسد ایس جعفر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اگست 2013 اور مارچ 2014 کے سروے مثبت اشاریوں کی نشاندہی کررہے ہیں جس میں کاروباری ادارے اپنے کاروبار کو وسعت دینے، نئی سرمایہ کاری اور ملازمت کے نئے مواقع کے لیے پر امید ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کے کچھ خدشات اور مسائل بھی ہیں جن کے حل کے لیے حکومت کو سنجیدگی سے کوششیں کرناہوں گی۔ انہوں نے بتایاکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر نے اگست 2013 کے 4فیصد اعتماد کے مقابلے میں مارچ 2014 میں 12فیصد مثبت اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اس کی وجہ جولائی سے دسمبر 2013 کے دوران مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 6.4فیصد گروتھ بھی ہے۔
اسد ایس جعفر نے بتایاکہ سروس سیکٹر کا کاروباری اعتماد اگست 2013 کے 5فیصد کے مقابلے میں منفی 3فیصد ہوگیا جبکہ ریٹیل سیکٹر اگست 2013 کے منفی 6فیصد کے مقابلے میں منفی 15فیصد ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجموعی کاروباری اعتماد میں معمولی کمی کے سلسلے میں کاروبار کرنے کی بڑھتی ہوئی لاگت، لا اینڈ آرڈر اور توانائی بحران بنیادی وجوہ ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ سروے کے جوابات دینے والے کاروباری طبقے میں سے 49 فیصد نے بجلی اور گیس کے بحران کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے جبکہ اگست 2013 میں 47 فیصد افراد نے بجلی اور گیس بحران کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا تھا، اگست 2013 کے 42فیصد کے مقابلے میںمارچ 2014 میں 47 فیصد کاروباری طبقے نے بڑھتے ہوئے جرائم، بھتے، اسٹریٹ کرائم اور اغوا کے واقعات کو بڑا مسئلہ قرار دیا، اگست 2013 کے 26فیصد کے مقابلے میں 39 فیصد نے کاروبار کرنے میں سرکاری سطح کی رکاوٹوں کو بڑا مسئلہ قرار دیا۔
انہوں نے کہاکہ نئی حکومت آنے کے بعد کاروباری طبقے کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں مگر حالیہ سروے میں کاروبار کرنے میں حائل رکاوٹوں کو بڑا مسئلہ قرار دینا حکومتوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔اس موقع پراوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سیکریٹری جنرل عبد العلیم نے کہاکہ حالیہ سروے کے مجموعی نتائج مثبت مگر اس ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حکومت کو معاملات کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔انہوں نے کہاکہ بڑھتے ہوئے جرائم، گیس کا بہتر معاشی استعمال نہ ہونا، گیس اور بجلی کے نرخ کو بہتر نہ بنانا، سرکاری اداروں کی جانب سے بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسز میں کمی نہ لانا وہ مسائل ہیں جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ پریشانی کا شکار ہے اور ہماری حکومت کو تجاویز میں ان تمام مسائل کا حل تلاش کرنے پر زور دیا گیا ہے۔انہوں نے بتایاکہ اوورسیز انویسٹرزچیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری نے حکومت کو ٹیکس اصلاحات کیلیے بھی جامع پروپوزل جمع کرائے ہیں جن میں تمام سیلز ٹیکس ریفنڈ کی بروقت ادائیگی، ٹرن اوور ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس میں کمی، ٹیکس بیس کو بڑھانے کیلیے معیشت کو دستاویزی شکل دینا وغیرہ شامل ہیں۔