مقتولینِ کراچی
یہ نظام ہی قاتل پرست تنظیم ہے جس کے کھاتے میں ملک کی گلیوں کوچوں میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی لکھی جانی چاہیے
www.facebook.com/syedtalathussain.official
یہ شہر محفوظ ہے۔ ''اور ناظرین پورا شہر ڈوب چکا ہے۔'' اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے جانیں قربان کر دیں گے مگر کسی پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
''سامعین آپ کو بتاتے چلیں کہ تقریباََ 300 افراد کراچی میں اور دو درجن سے زائد شہری لاہور میں خوفناک آتش زدگی کی نذر ہو گئے ہیں۔'' جمہوریت نے عوام کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور عوام کے نمایندے ہر جگہ پر اُن کی مدد کے لیے کوشاں ہیں۔
''خواتین و حضرات پاکستان کے شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کے معیار پر دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔'' ہم نے روزگار مہیا کیا اور لاکھوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لے گئے۔ ''ہم اس سیمینار کے توسط پاکستان کے عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ خوراک، پانی اور بنیادی سہولیات کی مد میں اُن کا ملک سن 2020ء میں بد ترین صورتحال کا شکار ہوجائے گا۔''
مندرجہ بالا جملے اور اُن کے متضاد حقائق آج کل کے حالات کی اصل نشاندہی کرتے ہیں جہاں پر نہ جھوٹ بولنے والوں کی کمی ہے اور نہ روح فرسا حقائق کی بارش کی جو ہر طرف ایک عذاب ِمسلسل کی طرح ہم پر گر رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے کے واقعات میں سے سب سے زیادہ اندوہناک کراچی کی فیکٹری میں سیکڑوں خواتین و بچوں پر مشتمل عام مزدوروں کا اجتماعی قتل تھا۔
قتل اس وجہ سے کہ ابھی تک سامنے آنے والی معلومات نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان معصوم و بے قصور محنت کشوں کو تالہ بند کرنے کے بعد جہنم میں جھونکا گیا۔ دروازوں کی بند کنڈیاں اور اُن پر لٹکے ہوئے قفل یہ ثابت کرتے ہیں کہ نہ یہ حادثہ تھا اور نہ ہی سانحہ۔ یہ سیدھا سادا دہشت گردی کا واقعہ تھا جس سے مستفید ہونے والوں کے بارے میں بھی کوئی خاص قیاس آرائی یا تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر ایک آزاد اور سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد تھانیدار کو ہی یہ گتھی سلجھانے پر مامور کر دیا جائے تو دو دن میں سب کچھ سامنے آ جائے گا۔
ان پاکستانیوں کے اصل قاتل وہ تمام افراد اور گروپ ہیں جو عرصہ درواز سے شگفتہ باتیں کر کے خود کو عوام کے ساتھ موجود ہونے کا احساس دلاتے رہے ہیں مگر اس دوران انھوں نے نہ صرف خود کو ایک استحصالی قوت میں تبدیل کر دیا ہے بلکہ وہ ہر روز ایسے ہزاروں فیصلوں کا موجب و محرک بھی بنتے ہیں جن کے توسط سے اخبار کے ہر دوسرے کالم میں خون آلودہ خبریں شایع ہوتی ہیں۔
کراچی کے مقتولین کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اس صوبے میں ایک خوفناک طاقت کے کھیل کے میدان کے اس سرے پر کھڑے تھے جہاں پر ان کی حیثیت مہروں اور قربانی کے بکروں سے زیادہ نہیں تھی۔ ان ہزاروں شہریوں کی طرح جو کراچی کی تاریک گلیوں میں سالوں سے ظلم اور لالچ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ فیکٹری کے یہ کارکن بھی اسی عفریت کی زد میں آ گئے۔
یہاں پر وضاحت ضروری ہے کہ یہ انسان خور عفریت کوئی ایک گروہ یا فرد نہیں ہے جو خود کو زندہ رکھنے کے لیے انسانی خون پیتے اور ماس کھاتے ہیں۔ یہ سب تو اس عفریت کے بچے ہیں جن کو اس نے پال پوس کر بڑا کیا ہے اور اب اُن کے کارنامے دیکھ کر خود ہی حیران ہو رہا ہے۔ اصل بلا جس نے روحیں قبض کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے، وہ تمام سیاسی نظام ہے جس میں سے انصاف مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔
جہاں پر طاقت کا نشہ قومی مشروب قرار دیا جا چکا ہے اور جس میں بیٹھے ہوئے اعلیٰ فوجی اور سیاسی اہلکار یہ قسم اُٹھائے ہوئے ہیں کہ انھوں نے وہ ٹہنی کاٹ کر چھوڑنی ہے جس پر غریب اور مفلس لوگ اُلٹے لٹکے ہوئے ہیں تا کہ ہر وقت ایک ایسا حشر برپا ہے جس کے شور و غوغے میں کوئی یہ نہ پوچھ سکے کہ اُن کو زمین بوس کرنے والوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے کیوں ہیں۔ یہ نظام ہی قاتل پرست تنظیم ہے جس کے کھاتے میں ملک کی گلیوں کوچوں میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی لکھی جانی چاہیے۔
کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ کراچی کے اجتماعی قتل کے واقعے کے ذمے داروں کی پلاننگ سے اس ریاست کے ادارے ناواقف ہوں گے؟ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ملک بھر میں ہونے والے منظم جرائم کے پیچھے اصل ہاتھ ریاست کے سرداروں سے چھپے ہوتے ہیں؟ کیا ان کو معلوم نہیں کہ موٹر سائیکل پر سوار گولی مارنے والا یا گھروں میں بیٹھ کر خود ساختہ بم بننے والا کون ہے؟
کیا وہ تمام ادارے جو ہماری اور آپ کی ہر بات ریکارڈ کر لیتے ہیں ( جن میں سے چند ایک اپنے اعلیٰ افسران کو چیدہ چیدہ حصے سنوا کر اپنی ترقی بھی کرواتے ہیں) یہ نہیں جان سکتے کہ خلفشار کا مخرج کون ہے اور کس سوراخ سے عوام کو ڈسے جانے کا اہتمام ہونے والا ہے؟
سب پتہ ہے۔ سب کو پتہ ہے۔ مگر کوئی نہیں بولے گا۔ ان سب کے دلوں، آنکھوں اور کانوں پر سونے اور چاندی کی مہریں لگا دی گئی ہیں۔ ان کو جلتے ہوئے بچوں کی چیخیں اور بھسم ہوتی ہوئی عورتوں کی آہ و بکا نہ تو سنائی دیتی ہے اور نہ یہ اس کو سننا گوارا کرتے ہیں۔ ان کی بے حسی پچھلے چار سالوں میں ہونے والے کشت و خون سے ظاہر ہو چکی ہے۔
انسان گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں اور یہ تمام افراد اپنے دفتروں میں بیٹھ کر چینل تبدیل کر کے اپنی ذمے داری نبھاتے ہیں۔ کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ کراچی کے واقعہ کے بعد کچھ تبدیل ہو گا۔ کچھ نہیں بدلے گا۔ کسی کا ایک بال بیکا نہیں ہوگا۔ ہر کوئی جلنے والوں کے جنازوں میں شریک ہو کر خود کو خدا کا پسندیدہ قرار دے گا اور پھر رات کو بہترین دسترخوان پر خود ستائشی کی ایک اور محفل جمائے گا۔
کراچی پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح جوں کا توں رہے گا۔ غارت گری کا شکار۔ بربریت کی زد میں۔ خداکی رحمت سے عاری۔ ظالموں کے شکنجے میں جو اب صرف قتل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ جلا کر بھسم کرنے کا عزم و طاقت رکھتے ہیں۔ اس نظام پر حاوی طاقتیں نہ غریب دوست ہیں اور نہ ان انسانی روایات کے تابع جو جانوروں اور مہذب قوموں میں فرق پیدا کرتی ہیں۔
ٹریفک کے حادثے ہوں یا قدرتی آفات، دہشت گردی کا جال ہو یا خون میں لتھڑی ہوئی سیاست، اسمگلر، بردہ فروش، اغواء کار، بین الاقوامی جاسوس، حرام خور اور مرد مار۔ اس نظام میں سب کے لیے برداشت اور سہولت موجود ہے۔ اگر ایک چیز قابل برداشت نہیں ہے تو وہ ہے سلائی مشین پر بیٹھی ہوئی ایک بیوہ اور اس کے تین معصوم بچے جو اس وقت تک قابل ذکر موضوع نہیں بن سکتی جب تک اس کو جلاکر کباب نہ کر دیا جائے۔