سیلاب کے بعد تعمیر نوکا چیلنج
حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو آنے والے مہینوں اور سالوں میں موجودہ بحران سے نمٹنا ممکن ہو سکتا ہے
ایشیائی ترقیاتی بینک نے سیلاب کے بعد تعمیر نو اور متاثرین کی بحالی کے لیے ایک پچاس کروڑ ڈالر اسٹیٹ بینک کو جاری کر دیے۔
ترجمان وزارت اقتصادی امور کے مطابق آر اے سی ای پروگرام کا مقصد توانائی اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور غریبوں پر مہنگائی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومتی کوششوں کی حمایت کرنا ہے۔
پروگرام کا مقصد سماجی تحفظ ، غذائی ضروریات پوری کرنے اور کاروبار کے لیے تعاون کے لیے انسداد گردشی و ترقیاتی اخراجات کی حمایت کرنا ہے۔ حکام کے مطابق اس قرض سے زرمبادلہ کے ذخائر اور توازن ادائیگی میں بہتری ہوگی۔
بلاشبہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی بہت زیادہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا مطلب ہے کہ مستقبل میں مزید ایسے واقعات رونما ہوں گے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستانی معیشت اب دہائیاں پیچھے چلی گئی ہے۔ ملکی معیشت کو جو مجموعی نقصان ہوا ہے وہ اپنی جگہ بہت بڑا نقصان ہے لیکن سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ خاندانوں کا جو نقصان ہوا ہے، اس کا فوری ازالہ نہ کیا گیا تو اس کے مزید خطرناک نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
اس وقت وفاقی وصوبائی حکومتیں، فوج، فلاحی و خیراتی ادارے اور این جی اوز وغیرہ متاثرین کو خیمے، خوراک، دوائیں اور دیگر ضروری اشیاء پہنچانے کی حتی الوسع کوششیں کر رہی ہیں۔ ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک بڑی تعداد میں افراد دوسروں کی مدد کرنے کے لیے تیار تو ہیں لیکن اپنے خاندان کو روٹی مہیا کرنے میں ہی ان کا تمام وقت صرف ہوجاتا ہے۔
آبادی کا 40 فی صد طبقہ اگر کسی دن محنت مزدوری نہ کر پائے تو گھر میں فاقہ ہوجاتا ہے۔اس کے باوجود اگر امدادی رقم کو مجموعی آمدن کے تناسب سے دیکھا جائے تو پاکستانی عوام کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا ایک فی صد سے زیادہ صدقہ، خیرات میں دیتا ہے، جو اسے برطانیہ (1.3 فی صد) اور کینیڈا (1.2 فی صد) جیسے بہت زیادہ امیر ممالک کی صف میں لاتا ہے۔
اس وقت متاثرین کو اپنے گھر تعمیر کرنا ہیں۔ ان کے مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور ان کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، جن پر ان کی معیشت کا انحصار اور گزر بسر تھی۔ متاثرین کی مکمل بحالی نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ ہی اب اس کی کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ 25 یا 50 ہزار روپے فی خاندان دے کر حکومتیں بری الذمہ ہو جائیں گی اور پھر متاثرین کو حسبِ سابق ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔
ظاہر ہے اس معمولی امداد سے متاثرین نہ تو اپنے گھر دوبارہ تعمیر کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی روزی روٹی بحال کر سکتے ہیں، لہٰذا وہ مجبورا کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں گے وہ یا تو شہروں کی طرف ہجرت کرینگے، جیسا کہ ماضی کی قدرتی آفات میں ہوتا رہا ہے یا پھر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خدانخواستہ وہ کچھ کر گزریں گے جو وہ نہیں کرنا چاہتے۔
سیلابی پانی سے وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں، حاملہ خواتین اور بچے زیادہ متاثر۔ متعدد بچے جان کی بازی ہار گئے۔ ملک کے متعدد اضلاع سے تاحال سیلابی پانی نہیں نکالا جاسکا۔ حالیہ سیلاب سے انفرا اسٹرکچر کو شدید نقصان، وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔ اس تمام تر صورتِ حال میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی سماجی ہیجان میں مزید شدت کا باعث بن رہی ہے۔
سیلاب سے کل کاشت شدہ اراضی کے 22 ملین ہیکٹر میں سے 7 ملین ہیکٹر زیر آب آچکے ہیں جو تقریباً 33 فی صد ہے۔ موسمیاتی تبدیلی 21ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ یہ موسم کے پیٹرن میں تبدیلیوں اور موسمی درجہ حرارت میں تبدیلیوں سے مراد ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا زراعت پر گہرا اثر پڑتا ہے اور خوراک کو خطرے سے دوچار کرتا ہے۔
پاکستان درجہ حرارت اور موسم کی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کا اثر وسیع ہے جیسے کہ زراعت کی پیداوار میں کمی، مسلسل خشک سالی، ساحلی کٹاؤ اور اوسط سے زیادہ بارش۔ آج ملک میں سیلاب کی صورتحال موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ ہے جس نے ہزاروں ایکڑ اراضی کو تباہ اور لاکھوں افراد کو جانوں کے ضیاع کے ساتھ بے گھر کر دیا ہے۔
صوبوں کی جانب سے وزارت فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کو شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ابتدائی تشخیص میں زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے میں 298 ارب روپے کے نقصانات کا انکشاف ہوا ہے۔ زراعت کا شعبہ جی ڈی پی میں 23 فی صد اور مجموعی پیداوار میں 19 فی صد حصہ ڈالتا ہے۔ زرعی شعبے کے پیداواری ضرب کا تخمینہ 1.43 کے لگ بھگ ہے۔
دوسری جانب کپاس کی فصل کو ہونے والا نقصان ناقابل تلافی رہا ہے، کیونکہ یہ جی ڈی پی کا ایک فی صد حصہ ڈالتی ہے۔ سبزیاں، کھجور، گنے اور چاول کی فصلوں کو بھی بری طرح نقصان پہنچا جس سے پچاس فی صد پیداواری نقصان ہو سکتا ہے۔ تقریباً سات سے آٹھ لاکھ مویشی ضائع ہو چکے ہیں، کیونکہ یہ قومی جی ڈی پی میںگیارہ فی صد کا حصہ ڈالتا ہے۔
یہ اندازہ لگانا محفوظ ہے کہ زرعی شعبے کی پیداوار کا نقصان تقریباً 25-30 فی صد ہو سکتا ہے جس میں مویشیوں کے نقصانات اور فصلوں کے نقصانات بھی شامل ہیں۔پچیس فی صد کا سکڑاؤ دور رس اثر ڈال سکتا ہے۔ دوسرے شعبے جن کا سب سے زیادہ نقصان ہو سکتا ہے وہ ہیں خوراک ، مشروبات ، تمباکو ، خوردہ/تھوک ، تجارت اور کیمیکل، ربڑ اور پلاسٹک۔ خوراک، مشروبات اور تمباکو مجموعی پیداوار کا چار فی صد اور مجموعی مالیت کا ایک فی صد کھو سکتے ہیں۔
خوردہ اور تجارت کو مجموعی پیداوار کے 9.5فی صد اور مجموعی مالیت کاگیارہ فی صد کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اور کیمیکل، ربڑ اور پلاسٹک مجموعی پیداوار کا چار فی صد اور اضافی ویلیو کا دو فی صد کھو سکتے ہیں۔ اس نوعیت کے معاشی اثرات کا خلاصہ جی ڈی پی کی نمو میں 3.84 فی صد کمی کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ اگلے سال کی جی ڈی پی کی شرح نمو 1-2 فی صد کے اندر رہے گی جس کے ساتھ افراط زر میں اضافہ اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرے تاکہ صوبائی سرپلس کی متفقہ شرط پر ریلیف فراہم کیا جا سکے اور غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کیا جائے، انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو پر زیادہ خرچ کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سوشل سیفٹی نیٹس کے بجٹ میں فوری طور پر اضافہ کریں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیلاب سے شعبہ تعلیم کو پہنچنے والے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 12.5ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں مجموعی طور پر 50 ہزار اسکولز متاثر ہیں۔ تاحال سیلاب سے متاثرہ کئی علاقے ناقابل رسائی ہیں جن میں خیبرپختونخوا کے اضلاع سوات ، چترال اور کوہستان کے کچھ حصوں سے زمینی اور مواصلاتی رابطہ منقطع ہے۔ سندھ میں پانی مکمل طور پر کم نہیں ہوا، اس لیے نقصان کا پورا پیمانہ اور تعمیر نو کی لاگت کا تخمینہ بڑھنے کی توقع ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر پہلے ہی تعلیم کا نظام خلل کا شکار ہے اور بار بار امتحانات ملتوی کرنے پڑے ہیں لیکن اِس مرتبہ چونکہ تعلیمی اداروں کی عمارتیں ہی قابل استعمال نہیں رہیں تو اندیشہ ہے کہ کئی تعلیمی سال بحالی کے عمل کی نذر ہو جائیں۔
جن علاقوں میں اسکول متاثر نہیں ہوئے وہاں اسکولوں تک پہنچنے کے لیے درکار سڑکیں اور پل بہہ گئے ہیں ، جو گھرانوں سیلاب سے متاثر ہیں اُن کے لیے روزی روٹی جیسی بنیادی ضرورت اہم ترجیح ہے اور یہی وجہ ہے کہ رواں سال سرکاری اسکولوں سے نکالے جانے والے طلبہ کی شرح زیادہ رہنے کے اندیشے کا اظہار کیا جا رہا ہے جو اپنی جگہ بڑا نقصان ہے کیونکہ پاکستان میں پہلے ہی 2 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے استفادہ نہیں کر رہے اور سرکاری و غیر سرکاری الگ الگ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد قریب تیس لاکھ ہے۔
سیلاب سے متاثر ہونے والی دیگر تعلیمی سہولیات میں کالجز، تکنیکی پیشہ ورانہ تربیت کے ادارے اور جامعات (یونیورسٹیاں) شامل ہیں۔ زرعی یونیورسٹیاں جو فصلوں' لائیو سٹاک اور وٹرنری سائنس کے شعبوں میں تحقیق اور تجربات کرتی ہیں، وہ بھی بند پڑی ہیں۔ جب تک سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی نہیں ہو جاتی اُس وقت تک اسکولوں' کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قیام پذیر سیلاب متاثرین کو نکالا نہیں جا سکتا۔
بدقسمتی سے پاکستان ''موسمیاتی تبدیلیوں'' کا شکار ہونے والا خطے کا پہلا ملک ہے اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ مستقبل میں مزید ایسے موسمیاتی سانحات رونما ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ماضی سے مختلف ایک بالکل الگ لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور ایسے بلند علاقوں کی تلاش کرنی ہے یا بند باندھ کر اور آبی ذخائر کی تعمیر کر کے ایسے علاقے تخلیق کرنے ہیں جو مستقبل کے ممکنہ سیلابوں سے محفوظ رہ سکیں۔
حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو آنے والے مہینوں اور سالوں میں موجودہ بحران سے نمٹنا ممکن ہو سکتا ہے لیکن اگر نقصانات کے بارے میں روایتی تصور کو تبدیل کیا جائے جو صرف مالی نقصانات تک محدود رہتا ہے۔
ترجمان وزارت اقتصادی امور کے مطابق آر اے سی ای پروگرام کا مقصد توانائی اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور غریبوں پر مہنگائی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومتی کوششوں کی حمایت کرنا ہے۔
پروگرام کا مقصد سماجی تحفظ ، غذائی ضروریات پوری کرنے اور کاروبار کے لیے تعاون کے لیے انسداد گردشی و ترقیاتی اخراجات کی حمایت کرنا ہے۔ حکام کے مطابق اس قرض سے زرمبادلہ کے ذخائر اور توازن ادائیگی میں بہتری ہوگی۔
بلاشبہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی بہت زیادہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا مطلب ہے کہ مستقبل میں مزید ایسے واقعات رونما ہوں گے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستانی معیشت اب دہائیاں پیچھے چلی گئی ہے۔ ملکی معیشت کو جو مجموعی نقصان ہوا ہے وہ اپنی جگہ بہت بڑا نقصان ہے لیکن سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ خاندانوں کا جو نقصان ہوا ہے، اس کا فوری ازالہ نہ کیا گیا تو اس کے مزید خطرناک نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
اس وقت وفاقی وصوبائی حکومتیں، فوج، فلاحی و خیراتی ادارے اور این جی اوز وغیرہ متاثرین کو خیمے، خوراک، دوائیں اور دیگر ضروری اشیاء پہنچانے کی حتی الوسع کوششیں کر رہی ہیں۔ ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک بڑی تعداد میں افراد دوسروں کی مدد کرنے کے لیے تیار تو ہیں لیکن اپنے خاندان کو روٹی مہیا کرنے میں ہی ان کا تمام وقت صرف ہوجاتا ہے۔
آبادی کا 40 فی صد طبقہ اگر کسی دن محنت مزدوری نہ کر پائے تو گھر میں فاقہ ہوجاتا ہے۔اس کے باوجود اگر امدادی رقم کو مجموعی آمدن کے تناسب سے دیکھا جائے تو پاکستانی عوام کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا ایک فی صد سے زیادہ صدقہ، خیرات میں دیتا ہے، جو اسے برطانیہ (1.3 فی صد) اور کینیڈا (1.2 فی صد) جیسے بہت زیادہ امیر ممالک کی صف میں لاتا ہے۔
اس وقت متاثرین کو اپنے گھر تعمیر کرنا ہیں۔ ان کے مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور ان کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، جن پر ان کی معیشت کا انحصار اور گزر بسر تھی۔ متاثرین کی مکمل بحالی نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ ہی اب اس کی کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ 25 یا 50 ہزار روپے فی خاندان دے کر حکومتیں بری الذمہ ہو جائیں گی اور پھر متاثرین کو حسبِ سابق ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔
ظاہر ہے اس معمولی امداد سے متاثرین نہ تو اپنے گھر دوبارہ تعمیر کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی روزی روٹی بحال کر سکتے ہیں، لہٰذا وہ مجبورا کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں گے وہ یا تو شہروں کی طرف ہجرت کرینگے، جیسا کہ ماضی کی قدرتی آفات میں ہوتا رہا ہے یا پھر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خدانخواستہ وہ کچھ کر گزریں گے جو وہ نہیں کرنا چاہتے۔
سیلابی پانی سے وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں، حاملہ خواتین اور بچے زیادہ متاثر۔ متعدد بچے جان کی بازی ہار گئے۔ ملک کے متعدد اضلاع سے تاحال سیلابی پانی نہیں نکالا جاسکا۔ حالیہ سیلاب سے انفرا اسٹرکچر کو شدید نقصان، وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔ اس تمام تر صورتِ حال میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی سماجی ہیجان میں مزید شدت کا باعث بن رہی ہے۔
سیلاب سے کل کاشت شدہ اراضی کے 22 ملین ہیکٹر میں سے 7 ملین ہیکٹر زیر آب آچکے ہیں جو تقریباً 33 فی صد ہے۔ موسمیاتی تبدیلی 21ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ یہ موسم کے پیٹرن میں تبدیلیوں اور موسمی درجہ حرارت میں تبدیلیوں سے مراد ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا زراعت پر گہرا اثر پڑتا ہے اور خوراک کو خطرے سے دوچار کرتا ہے۔
پاکستان درجہ حرارت اور موسم کی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کا اثر وسیع ہے جیسے کہ زراعت کی پیداوار میں کمی، مسلسل خشک سالی، ساحلی کٹاؤ اور اوسط سے زیادہ بارش۔ آج ملک میں سیلاب کی صورتحال موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ ہے جس نے ہزاروں ایکڑ اراضی کو تباہ اور لاکھوں افراد کو جانوں کے ضیاع کے ساتھ بے گھر کر دیا ہے۔
صوبوں کی جانب سے وزارت فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کو شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ابتدائی تشخیص میں زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے میں 298 ارب روپے کے نقصانات کا انکشاف ہوا ہے۔ زراعت کا شعبہ جی ڈی پی میں 23 فی صد اور مجموعی پیداوار میں 19 فی صد حصہ ڈالتا ہے۔ زرعی شعبے کے پیداواری ضرب کا تخمینہ 1.43 کے لگ بھگ ہے۔
دوسری جانب کپاس کی فصل کو ہونے والا نقصان ناقابل تلافی رہا ہے، کیونکہ یہ جی ڈی پی کا ایک فی صد حصہ ڈالتی ہے۔ سبزیاں، کھجور، گنے اور چاول کی فصلوں کو بھی بری طرح نقصان پہنچا جس سے پچاس فی صد پیداواری نقصان ہو سکتا ہے۔ تقریباً سات سے آٹھ لاکھ مویشی ضائع ہو چکے ہیں، کیونکہ یہ قومی جی ڈی پی میںگیارہ فی صد کا حصہ ڈالتا ہے۔
یہ اندازہ لگانا محفوظ ہے کہ زرعی شعبے کی پیداوار کا نقصان تقریباً 25-30 فی صد ہو سکتا ہے جس میں مویشیوں کے نقصانات اور فصلوں کے نقصانات بھی شامل ہیں۔پچیس فی صد کا سکڑاؤ دور رس اثر ڈال سکتا ہے۔ دوسرے شعبے جن کا سب سے زیادہ نقصان ہو سکتا ہے وہ ہیں خوراک ، مشروبات ، تمباکو ، خوردہ/تھوک ، تجارت اور کیمیکل، ربڑ اور پلاسٹک۔ خوراک، مشروبات اور تمباکو مجموعی پیداوار کا چار فی صد اور مجموعی مالیت کا ایک فی صد کھو سکتے ہیں۔
خوردہ اور تجارت کو مجموعی پیداوار کے 9.5فی صد اور مجموعی مالیت کاگیارہ فی صد کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اور کیمیکل، ربڑ اور پلاسٹک مجموعی پیداوار کا چار فی صد اور اضافی ویلیو کا دو فی صد کھو سکتے ہیں۔ اس نوعیت کے معاشی اثرات کا خلاصہ جی ڈی پی کی نمو میں 3.84 فی صد کمی کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ اگلے سال کی جی ڈی پی کی شرح نمو 1-2 فی صد کے اندر رہے گی جس کے ساتھ افراط زر میں اضافہ اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرے تاکہ صوبائی سرپلس کی متفقہ شرط پر ریلیف فراہم کیا جا سکے اور غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کیا جائے، انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو پر زیادہ خرچ کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سوشل سیفٹی نیٹس کے بجٹ میں فوری طور پر اضافہ کریں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیلاب سے شعبہ تعلیم کو پہنچنے والے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 12.5ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں مجموعی طور پر 50 ہزار اسکولز متاثر ہیں۔ تاحال سیلاب سے متاثرہ کئی علاقے ناقابل رسائی ہیں جن میں خیبرپختونخوا کے اضلاع سوات ، چترال اور کوہستان کے کچھ حصوں سے زمینی اور مواصلاتی رابطہ منقطع ہے۔ سندھ میں پانی مکمل طور پر کم نہیں ہوا، اس لیے نقصان کا پورا پیمانہ اور تعمیر نو کی لاگت کا تخمینہ بڑھنے کی توقع ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر پہلے ہی تعلیم کا نظام خلل کا شکار ہے اور بار بار امتحانات ملتوی کرنے پڑے ہیں لیکن اِس مرتبہ چونکہ تعلیمی اداروں کی عمارتیں ہی قابل استعمال نہیں رہیں تو اندیشہ ہے کہ کئی تعلیمی سال بحالی کے عمل کی نذر ہو جائیں۔
جن علاقوں میں اسکول متاثر نہیں ہوئے وہاں اسکولوں تک پہنچنے کے لیے درکار سڑکیں اور پل بہہ گئے ہیں ، جو گھرانوں سیلاب سے متاثر ہیں اُن کے لیے روزی روٹی جیسی بنیادی ضرورت اہم ترجیح ہے اور یہی وجہ ہے کہ رواں سال سرکاری اسکولوں سے نکالے جانے والے طلبہ کی شرح زیادہ رہنے کے اندیشے کا اظہار کیا جا رہا ہے جو اپنی جگہ بڑا نقصان ہے کیونکہ پاکستان میں پہلے ہی 2 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے استفادہ نہیں کر رہے اور سرکاری و غیر سرکاری الگ الگ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد قریب تیس لاکھ ہے۔
سیلاب سے متاثر ہونے والی دیگر تعلیمی سہولیات میں کالجز، تکنیکی پیشہ ورانہ تربیت کے ادارے اور جامعات (یونیورسٹیاں) شامل ہیں۔ زرعی یونیورسٹیاں جو فصلوں' لائیو سٹاک اور وٹرنری سائنس کے شعبوں میں تحقیق اور تجربات کرتی ہیں، وہ بھی بند پڑی ہیں۔ جب تک سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی نہیں ہو جاتی اُس وقت تک اسکولوں' کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قیام پذیر سیلاب متاثرین کو نکالا نہیں جا سکتا۔
بدقسمتی سے پاکستان ''موسمیاتی تبدیلیوں'' کا شکار ہونے والا خطے کا پہلا ملک ہے اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ مستقبل میں مزید ایسے موسمیاتی سانحات رونما ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ماضی سے مختلف ایک بالکل الگ لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور ایسے بلند علاقوں کی تلاش کرنی ہے یا بند باندھ کر اور آبی ذخائر کی تعمیر کر کے ایسے علاقے تخلیق کرنے ہیں جو مستقبل کے ممکنہ سیلابوں سے محفوظ رہ سکیں۔
حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو آنے والے مہینوں اور سالوں میں موجودہ بحران سے نمٹنا ممکن ہو سکتا ہے لیکن اگر نقصانات کے بارے میں روایتی تصور کو تبدیل کیا جائے جو صرف مالی نقصانات تک محدود رہتا ہے۔