دو تاریخ ساز ہدایت کار محبوب خان اور کے۔آصف
محبوب خان نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز ایک ایکسٹرا اداکار سے کیا تھا
غیر منقسم ہندوستان کی فلم انڈسٹری کو مسلمان فنکاروں، فلم سازوں اور ہدایتکاروں نے قدم قدم پر ترقی سے دوچار بھی کیا ہے اور مالا مال بھی کیا ہے، بیرونی دنیا میں ان کی وجہ سے ہندوستان فلم انڈسٹری کو پہچان ملی۔
خاموش فلموں کے بعد جب بولتی فلموں کا آغاز ہوا تو مسلمان فنکاروں نے کلکتہ کی فلم انڈسٹری سے لے کر بمبئی کی فلم انڈسٹری تک آسمان فلم پر ایک جگمگاتی کہکشاں کا کردار ادا کیا ہے ، ان باصلاحیت اور ذہین شخصیات میں ایک ہدایت کار محبوب خان اور دوسرے ہدایت کار کے آصف ہیں یہ دونوں ہدایت کار انڈین فلم انڈسٹری کی آن بان اور شان رہے ہیں۔ میں اپنے کالم میں پہلے ہدایت کار محبوب خان کا تذکرہ کروں گا۔
محبوب خان نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز ایک ایکسٹرا اداکار سے کیا تھا اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ محبوب خان کو انڈین فلم انڈسٹری میں ہدایت کار اعظم کے خطاب سے نوازا گیا۔ 9 ستمبر 1907 میں رمضان خان کے گھر میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محبوب خان رکھا گیا۔ گھر کے حالات بہت خراب تھے ، محبوب خان کو اچھی تعلیم نہ مل سکی، بچپن ہی سے محبوب خان کو فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور وہ خود کو بھی ایک اداکار کی حیثیت سے شیشے میں دیکھتا رہتا تھا۔ پڑھائی سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
گجرات کے علاقے صورت میں محبوب خان نے محسوس کیا کہ یہاں اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اسی دوران محبوب خان کی ملاقات ایک شخص نور محمد علی محمد سپیرا سے ہوگئی اسے بھی فلمی دنیا کا شوق تھا، وہ بمبئی جا رہا تھا محبوب خان بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔ بمبئی ایک نیا شہر تھا، نہ روزی نہ روزگار اس دوران نور محمد سپیرا کو کسی کی معرفت فلم اسٹوڈیو میں گھوڑے سپلائی کرنے کا کام مل گیا ، محبوب خان گھر سے بھاگ کر بمبئی آیا تھا باپ کے ڈر کی وجہ سے واپس اپنے گھر بھی نہیں جا سکتا تھا۔
نور محمد سپیرا نے اس کو بھی اپنے ساتھ رکھ لیا اور جو گھوڑے وہ فلموں کی شوٹنگ کے لیے سپلائی کرتا تھا محبوب خان ان گھوڑوں کے نال ٹھیک کیا کرتا تھا۔ اس طرح اس کی روٹی روزی کا بھی بندوبست ہو گیا تھا۔ بمبئی کے فلم اسٹوڈیوز میں آنا جانا بھی شروع ہو گیا تھا۔ ایک دن اپنے ایک دوست کیساتھ یہ نرگس فلم پروڈکشن میں چلا گیا جس کی مالک اداکارہ نرگس کی والدہ جدن بائی تھیں جو خود ایک اچھی آرٹسٹ تھیں اور وہ اپنی پروڈکشن کی ڈائریکشن بھی دیتی تھیں محبوب خان نے نرگس پروڈکشن میں بطور ایکسٹرا آرٹسٹ کام کرنا شروع کردیا، پھر چھوٹے چھوٹے کردار بھی ملنے لگے۔
نرگس پروڈکشن میں اس کی محنت کو بڑا پسند کیا گیا، پھر یہ جدن بائی کی گڈبک میں آگیا اس کو ڈائریکشن سے کافی دلچسپی تھی پھر اس نے بڑی محنت کیساتھ اپنے آپ کو ایک فلم ڈائریکٹر بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ یہ 1935 کا زمانہ تھا۔
محبوب خان کو ایک انگلش فلم The Sign Of Eross بہت پسند آئی تھی وہ فلم اس نے کئی بار دیکھی اور پھر اس فلم کا ہدایت کار سیل بی ڈیملز کو اس نے اپنا آئیڈیل بنا لیا اسی دوران اس کو ایک سرمایہ دار مل گیا جس کیساتھ اس نے فلم ساز ادارہ ساگر مووی ٹون بنایا اور بحیثیت ہدایت کار فلم الہلال کا آغاز کیا فلم الہلال کی کہانی رومن اور عرب کی لڑائی سے متعلق تھی فلم کے رائٹر وجاہت مرزا تھے، کیمرہ مین فریدوں ایرانی تھے اور موسیقار پرن سکھ ناٹک تھے جبکہ اہم کرداروں میں کمار، ستارہ دیوی، اندرا، قائم علی اور یعقوب تھے یہ فلم 1935 میں ریلیز ہوئی تھی اور اس فلم کو بڑی نمایاں کامیابی حاصل ہوئی اور یہ ابتدائی کامیاب ترین فلم تھی جس نے بحیثیت ہدایت کار محبوب خان کو سارے ہندوستان میں مشہور کردیا تھا۔
شہرت ملنے کے بعد کئی سرمایہ دار محبوب خان کی طرف آنے لگے اور پھر محبوب خان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا اور بحیثیت فلم ساز و ہدایت کار فلم کے کاروبار میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے اور پھر اس معمولی پڑھے لکھے شخص نے ہندوستان کی فلم انڈسٹری کو بے شمار کامیاب فلمیں دی تھیں۔ پھر 1938 میں ہدایت کار محبوب خان کی دوسری اردو فلم وطن جو ساگر مووی ٹون ہی کے بینر تلے بنائی گئی تھی فلم کے رائٹر وجاہت مرزا تھے۔
فلم کی کاسٹ میں کمار، ستارہ دیوی، ببو، قائم علی، مایا بینرجی اور یعقوب شامل تھے، اس فلم کے موسیقار انیل لبواس اور کیمرہ مین بھی فریدوں ایرانی تھے۔ پھر محبوب خان نے بڑی تیز رفتاری سے فلمیں بنانی شروع کردی تھیں۔ 1940 میں ''عورت'' کے نام سے ایک فلم بنائی جو سپر ہٹ ہوئی اس کے بعد یکے بعد دیگرے فلمیں بنتی رہیں اور کامیابی کے مراحل طے کرتی رہیں۔ 1940 سے 1957 تک کا دور محبوب خان کا سنہری دور تھا۔ ہر فلم ہٹ فلم ہوتی تھی۔
انمول گھڑی، انوکھی ادا، نجمہ، ہمایوں، بہن، علی بابا، اعلان۔ اور پھر 1957 میں ہدایت کار محبوب خان کی فلم مدر انڈیا نے ایک تہلکہ مچا دیا تھا۔ اس فلم کی کامیابی نے ہندوستان کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں بڑی دھوم مچائی تھی، فلم مدر انڈیا کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی، یہ ہندوستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی ایک بلاک بسٹر فلم قرار دی گئی تھی۔ اس فلم کو کئی فلم فیئر ایوارڈز کے علاوہ غیر ملکی فلم کی حیثیت سے پہلی بار اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔
فلم مدر انڈیا میں اداکارہ نرگس نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور نرگس کے کردار کو اس فلم میں بہت سراہا گیا تھا بے شمار ملکی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ ہدایت کار و فلم ساز محبوب خان کا اب نام بکتا تھا۔ اس زمانے میں زیادہ تر ہدایت کار محبوب خان ہی کی فلمیں ہٹ ہوتی تھیں۔ محبوب خان اب خود ایک بہت بڑا سرمایہ دار ہو گیا تھا۔
1954 میں بمبئی کے باندرہ کے علاقے میں محبوب خان نے اپنا ذاتی فلم اسٹوڈیو بنایا اور محبوب فلم اسٹوڈیو نام رکھا گیا، اور سیکڑوں افراد محبوب اسٹوڈیو سے اپنی روزی کماتے تھے۔ آن دلیپ کمار کی وہ پہلی فلم تھی جس میں دلیپ کمار نے اپنے انداز سے ہٹ کر ایک ایکشن فلم میں کام کیا تھا جبکہ آن سے پہلے دلیپ کمار کی ہر فلم میں اس کا کردار ٹریجڈی ہوتا تھا اور دلیپ کمار ٹریجڈی کردار ادا کرتے کرتے خود بھی ایک بجھا بجھا سا انسان ہوتا جا رہا تھا۔
دلیپ کمار کے ذاتی ڈاکٹر نے اسے ایک بار یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ اب ٹریجڈی رول ادا کرنا بند کردے یا کم کردے ورنہ ان کرداروں کے اثرات اس کی شخصیت پر بھی بری طرح اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ فلم آن سے پہلے ہدایت کار محبوب کی فلم انداز کو بڑی شہرت اور کامیابی ملی تھی۔ انداز میں دلیپ کمار، راج کپور اور نرگس کی تثلیث کو فلم بینوں نے بڑا پسند کیا تھا۔ اور اس فلم میں پہلی بار ایک گیت پیانو پر فلمایا گیا تھا جس کے بول تھے:
جھوم جھوم کر ناچو آج
گاؤ خوشی کے گیت
فلم انداز کے بعد پیانو کے گیت پھر ہر فلم کی ضرورت بنتے چلے گئے اور آج بھی ہر فلم میں پیانو پر ایک نہ ایک گیت ضرور فلمایا جاتا ہے اب میں پھر ہدایت کار محبوب کی فلم آن کی طرف آتا ہوں۔ آن میں دلیپ کمار نے ایک طویل عرصے تک ٹریجڈی کردار ادا کرنے کے بعد ایک شوخ کردار ادا کیا تھا۔
فلم آن میں ہدایت کار محبوب خان نے دلیپ کمار اور نمی کے ساتھ ایک نئی اداکارہ نادرہ کو متعارف کرایا تھا جس میں نادرہ نے ایک مغرور لڑکی کا کردار بہت اچھے انداز سے ادا کیا تھا اور فلم آن کی کامیابی کے بعد نادرہ بھی شہرت کے راستے کی ہم سفر بن گئی تھی ہدایت کار محبوب دلیپ کمار، راج کپور کو لائم لائٹ میں لائے اور فلمی دنیا کو کئی باصلاحیت فنکار دیے جن میں نمی نادرہ، راجندر کمار، ارون کمار اور سنیل دت کے نام شامل ہیں۔
ہدایت کار محبوب خان نے پہلی شادی ایک گھریلو عورت فاطمہ سے کی اور پھر دوسری شادی اداکارہ سردار اختر سے کی تھی۔ 2007 میں بمبئی میں ایک تقریب کے دوران محبوب خان کی برسی کے موقع پر ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا گیا تھا یہ بھی بڑا اعزاز تھا ہدایت کار محبوب خان ہندوستان فلم انڈسٹری کی ایک تاریخ بھی تھے اور انڈین فلم کے رہنما بھی۔ محبوب خان 56 سال کی عمر میں 28 مئی 1964 میں بمبئی میں انتقال کرگئے تھے اور ہندوستان کی فلم انڈسٹری ایک عظیم ہدایت کار سے محروم ہوگئی تھی۔ (جاری ہے۔)
خاموش فلموں کے بعد جب بولتی فلموں کا آغاز ہوا تو مسلمان فنکاروں نے کلکتہ کی فلم انڈسٹری سے لے کر بمبئی کی فلم انڈسٹری تک آسمان فلم پر ایک جگمگاتی کہکشاں کا کردار ادا کیا ہے ، ان باصلاحیت اور ذہین شخصیات میں ایک ہدایت کار محبوب خان اور دوسرے ہدایت کار کے آصف ہیں یہ دونوں ہدایت کار انڈین فلم انڈسٹری کی آن بان اور شان رہے ہیں۔ میں اپنے کالم میں پہلے ہدایت کار محبوب خان کا تذکرہ کروں گا۔
محبوب خان نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز ایک ایکسٹرا اداکار سے کیا تھا اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ محبوب خان کو انڈین فلم انڈسٹری میں ہدایت کار اعظم کے خطاب سے نوازا گیا۔ 9 ستمبر 1907 میں رمضان خان کے گھر میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محبوب خان رکھا گیا۔ گھر کے حالات بہت خراب تھے ، محبوب خان کو اچھی تعلیم نہ مل سکی، بچپن ہی سے محبوب خان کو فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور وہ خود کو بھی ایک اداکار کی حیثیت سے شیشے میں دیکھتا رہتا تھا۔ پڑھائی سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
گجرات کے علاقے صورت میں محبوب خان نے محسوس کیا کہ یہاں اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اسی دوران محبوب خان کی ملاقات ایک شخص نور محمد علی محمد سپیرا سے ہوگئی اسے بھی فلمی دنیا کا شوق تھا، وہ بمبئی جا رہا تھا محبوب خان بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔ بمبئی ایک نیا شہر تھا، نہ روزی نہ روزگار اس دوران نور محمد سپیرا کو کسی کی معرفت فلم اسٹوڈیو میں گھوڑے سپلائی کرنے کا کام مل گیا ، محبوب خان گھر سے بھاگ کر بمبئی آیا تھا باپ کے ڈر کی وجہ سے واپس اپنے گھر بھی نہیں جا سکتا تھا۔
نور محمد سپیرا نے اس کو بھی اپنے ساتھ رکھ لیا اور جو گھوڑے وہ فلموں کی شوٹنگ کے لیے سپلائی کرتا تھا محبوب خان ان گھوڑوں کے نال ٹھیک کیا کرتا تھا۔ اس طرح اس کی روٹی روزی کا بھی بندوبست ہو گیا تھا۔ بمبئی کے فلم اسٹوڈیوز میں آنا جانا بھی شروع ہو گیا تھا۔ ایک دن اپنے ایک دوست کیساتھ یہ نرگس فلم پروڈکشن میں چلا گیا جس کی مالک اداکارہ نرگس کی والدہ جدن بائی تھیں جو خود ایک اچھی آرٹسٹ تھیں اور وہ اپنی پروڈکشن کی ڈائریکشن بھی دیتی تھیں محبوب خان نے نرگس پروڈکشن میں بطور ایکسٹرا آرٹسٹ کام کرنا شروع کردیا، پھر چھوٹے چھوٹے کردار بھی ملنے لگے۔
نرگس پروڈکشن میں اس کی محنت کو بڑا پسند کیا گیا، پھر یہ جدن بائی کی گڈبک میں آگیا اس کو ڈائریکشن سے کافی دلچسپی تھی پھر اس نے بڑی محنت کیساتھ اپنے آپ کو ایک فلم ڈائریکٹر بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ یہ 1935 کا زمانہ تھا۔
محبوب خان کو ایک انگلش فلم The Sign Of Eross بہت پسند آئی تھی وہ فلم اس نے کئی بار دیکھی اور پھر اس فلم کا ہدایت کار سیل بی ڈیملز کو اس نے اپنا آئیڈیل بنا لیا اسی دوران اس کو ایک سرمایہ دار مل گیا جس کیساتھ اس نے فلم ساز ادارہ ساگر مووی ٹون بنایا اور بحیثیت ہدایت کار فلم الہلال کا آغاز کیا فلم الہلال کی کہانی رومن اور عرب کی لڑائی سے متعلق تھی فلم کے رائٹر وجاہت مرزا تھے، کیمرہ مین فریدوں ایرانی تھے اور موسیقار پرن سکھ ناٹک تھے جبکہ اہم کرداروں میں کمار، ستارہ دیوی، اندرا، قائم علی اور یعقوب تھے یہ فلم 1935 میں ریلیز ہوئی تھی اور اس فلم کو بڑی نمایاں کامیابی حاصل ہوئی اور یہ ابتدائی کامیاب ترین فلم تھی جس نے بحیثیت ہدایت کار محبوب خان کو سارے ہندوستان میں مشہور کردیا تھا۔
شہرت ملنے کے بعد کئی سرمایہ دار محبوب خان کی طرف آنے لگے اور پھر محبوب خان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا اور بحیثیت فلم ساز و ہدایت کار فلم کے کاروبار میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے اور پھر اس معمولی پڑھے لکھے شخص نے ہندوستان کی فلم انڈسٹری کو بے شمار کامیاب فلمیں دی تھیں۔ پھر 1938 میں ہدایت کار محبوب خان کی دوسری اردو فلم وطن جو ساگر مووی ٹون ہی کے بینر تلے بنائی گئی تھی فلم کے رائٹر وجاہت مرزا تھے۔
فلم کی کاسٹ میں کمار، ستارہ دیوی، ببو، قائم علی، مایا بینرجی اور یعقوب شامل تھے، اس فلم کے موسیقار انیل لبواس اور کیمرہ مین بھی فریدوں ایرانی تھے۔ پھر محبوب خان نے بڑی تیز رفتاری سے فلمیں بنانی شروع کردی تھیں۔ 1940 میں ''عورت'' کے نام سے ایک فلم بنائی جو سپر ہٹ ہوئی اس کے بعد یکے بعد دیگرے فلمیں بنتی رہیں اور کامیابی کے مراحل طے کرتی رہیں۔ 1940 سے 1957 تک کا دور محبوب خان کا سنہری دور تھا۔ ہر فلم ہٹ فلم ہوتی تھی۔
انمول گھڑی، انوکھی ادا، نجمہ، ہمایوں، بہن، علی بابا، اعلان۔ اور پھر 1957 میں ہدایت کار محبوب خان کی فلم مدر انڈیا نے ایک تہلکہ مچا دیا تھا۔ اس فلم کی کامیابی نے ہندوستان کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں بڑی دھوم مچائی تھی، فلم مدر انڈیا کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی، یہ ہندوستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی ایک بلاک بسٹر فلم قرار دی گئی تھی۔ اس فلم کو کئی فلم فیئر ایوارڈز کے علاوہ غیر ملکی فلم کی حیثیت سے پہلی بار اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔
فلم مدر انڈیا میں اداکارہ نرگس نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور نرگس کے کردار کو اس فلم میں بہت سراہا گیا تھا بے شمار ملکی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ ہدایت کار و فلم ساز محبوب خان کا اب نام بکتا تھا۔ اس زمانے میں زیادہ تر ہدایت کار محبوب خان ہی کی فلمیں ہٹ ہوتی تھیں۔ محبوب خان اب خود ایک بہت بڑا سرمایہ دار ہو گیا تھا۔
1954 میں بمبئی کے باندرہ کے علاقے میں محبوب خان نے اپنا ذاتی فلم اسٹوڈیو بنایا اور محبوب فلم اسٹوڈیو نام رکھا گیا، اور سیکڑوں افراد محبوب اسٹوڈیو سے اپنی روزی کماتے تھے۔ آن دلیپ کمار کی وہ پہلی فلم تھی جس میں دلیپ کمار نے اپنے انداز سے ہٹ کر ایک ایکشن فلم میں کام کیا تھا جبکہ آن سے پہلے دلیپ کمار کی ہر فلم میں اس کا کردار ٹریجڈی ہوتا تھا اور دلیپ کمار ٹریجڈی کردار ادا کرتے کرتے خود بھی ایک بجھا بجھا سا انسان ہوتا جا رہا تھا۔
دلیپ کمار کے ذاتی ڈاکٹر نے اسے ایک بار یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ اب ٹریجڈی رول ادا کرنا بند کردے یا کم کردے ورنہ ان کرداروں کے اثرات اس کی شخصیت پر بھی بری طرح اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ فلم آن سے پہلے ہدایت کار محبوب کی فلم انداز کو بڑی شہرت اور کامیابی ملی تھی۔ انداز میں دلیپ کمار، راج کپور اور نرگس کی تثلیث کو فلم بینوں نے بڑا پسند کیا تھا۔ اور اس فلم میں پہلی بار ایک گیت پیانو پر فلمایا گیا تھا جس کے بول تھے:
جھوم جھوم کر ناچو آج
گاؤ خوشی کے گیت
فلم انداز کے بعد پیانو کے گیت پھر ہر فلم کی ضرورت بنتے چلے گئے اور آج بھی ہر فلم میں پیانو پر ایک نہ ایک گیت ضرور فلمایا جاتا ہے اب میں پھر ہدایت کار محبوب کی فلم آن کی طرف آتا ہوں۔ آن میں دلیپ کمار نے ایک طویل عرصے تک ٹریجڈی کردار ادا کرنے کے بعد ایک شوخ کردار ادا کیا تھا۔
فلم آن میں ہدایت کار محبوب خان نے دلیپ کمار اور نمی کے ساتھ ایک نئی اداکارہ نادرہ کو متعارف کرایا تھا جس میں نادرہ نے ایک مغرور لڑکی کا کردار بہت اچھے انداز سے ادا کیا تھا اور فلم آن کی کامیابی کے بعد نادرہ بھی شہرت کے راستے کی ہم سفر بن گئی تھی ہدایت کار محبوب دلیپ کمار، راج کپور کو لائم لائٹ میں لائے اور فلمی دنیا کو کئی باصلاحیت فنکار دیے جن میں نمی نادرہ، راجندر کمار، ارون کمار اور سنیل دت کے نام شامل ہیں۔
ہدایت کار محبوب خان نے پہلی شادی ایک گھریلو عورت فاطمہ سے کی اور پھر دوسری شادی اداکارہ سردار اختر سے کی تھی۔ 2007 میں بمبئی میں ایک تقریب کے دوران محبوب خان کی برسی کے موقع پر ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا گیا تھا یہ بھی بڑا اعزاز تھا ہدایت کار محبوب خان ہندوستان فلم انڈسٹری کی ایک تاریخ بھی تھے اور انڈین فلم کے رہنما بھی۔ محبوب خان 56 سال کی عمر میں 28 مئی 1964 میں بمبئی میں انتقال کرگئے تھے اور ہندوستان کی فلم انڈسٹری ایک عظیم ہدایت کار سے محروم ہوگئی تھی۔ (جاری ہے۔)