مڈل کلاس مینٹیلٹی

صرف ایک موضوع پر گزشتہ کئی سالوں سے ڈرامے بن رہے ہیں

fatimaqazi7@gmail.com

'' مڈل کلاس سے ہونے کے باوجود آپ لوگ بہت بروڈ مائنڈڈ ہیں، ایک جوان لڑکا میری بیوی کو سہارا دے رہا ہے اور آپ لوگ دیکھ رہے ہیں ، حیرت ہے۔''

'' مڈل کلاس فیملیز میں امیر گھرانے کا رشتہ مشکل سے آتا ہے۔ اسی لیے اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ میرا بیٹا آپ کی چھوٹی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا ، لیکن جب وہ گھر سے بھاگ گئی تو آپ نے زبردستی بڑی بیٹی سے میرے بیٹے کو نکاح پر مجبور کیا، میں آپ جیسے مڈل کلاس لوگوں کی مجبوری اچھی طرح سمجھتی ہوں۔''

''یہ مڈل کلاس دوست تم نے کیسے بنا لی؟ تمہارا اور اس کا کوئی جوڑ نہیں۔''

''امیر گھرانے کے اکلوتے بیٹے کو ایک مڈل کلاس لڑکی نے پھنسا لیا، ان مڈل کلاس طرار لڑکیوں کو میں اچھی طرح جانتی ہوں۔''

''تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہونے کے باوجود ہم تمہیں اپنی بہو بنا لیں گے۔ تمہیں جتنا پیسہ چاہیے لے لو، ہم تمہیں بلینک چیک دے دیتے ہیں، رقم اپنی مرضی سے بھر لینا۔''

''مڈل کلاس لڑکیاں امیر زادوں کو پھنسانا خوب اچھی طرح جانتی ہیں۔ ارے میں تو کہتی ہوں کہ یہ کالج اور یونیورسٹی بھی اسی لیے جاتی ہیں کہ اچھا رشتہ تلاش کرسکیں، لڑکے کے سامنے اپنے حالات کا رونا رو کر لڑکوں کے دلوں میں جگہ بناتی ہیں۔''

''یہ محبت وحبت سب بکواس ہے۔ یہ مڈل کلاس لوگ اسی طرح تم جیسے امیر نوجوانوں کو پھنساتے ہیں۔ میں کبھی اس لڑکی کو بہو کی حیثیت میں قبول نہیں کرسکتا۔ لڑکی کو کچھ رقم دے کر فارغ کرو، ورنہ میں تمہیں عاق کردوں گا۔''

یہ اور اسی قسم کے منفی جملے یقینا آپ نے بھی مختلف چینلز کے فیملی ڈراموں میں ضرور سنے ہوں گے اور یقینا آپ میں سے بہت سے خواتین و حضرات کو شدید غصہ بھی آیا ہوگا کہ ہر ڈرامے میں '' مڈل کلاس '' کی تکرار بار بار ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے چینلز والوں نے میڈیا ہاؤسز کو ڈراموں کے بارے میں ایک فارمیٹ دے دیا ہے کہ ہر ڈرامے میں مڈل کلاس گھرانہ ، مڈل کلاس مینٹیلیٹی، مڈل کلاس لڑکی جیسے جملے ضرور لکھے جائیں۔ اس کے علاوہ اتنے تھپڑ، اتنے آنسو اور امیری غریبی کے مباحثے اور مجادلے وغیرہ وغیرہ۔

لیکن یہاں ہم بات کر رہے ہیں '' مڈل کلاس مینٹیلیٹی'' کی۔ آخر ان توہین آمیز جملوں سے ڈرامہ ہاؤسز کس کو خوش کرن چاہتے ہیں؟ اپنے اسپانسرز کو یا اس طبقے کو جو صرف دولت کے بل بوتے پر بڑے بڑے بنگلوز میں رہتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو '' نو دولتیہ'' کہتے ہیں لیکن کچھ سیانے اس طبقے کو '' برگر فیملی'' بھی کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح جھٹ پٹ برگر تیار ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح راتوں رات یہ نو دولتیے بھی امیروں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں ، کیونکہ ہم آج ایک ایسی مصنوعی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں صرف ظاہر پرستی کے علاوہ کچھ اور نہیں۔

امیر بننے کی RAT Race ہے۔ اس دوڑ میں جیتنے کے لیے ہر رکاوٹ کو دور کرنا ضروری ہے۔ چاہے کسی کو مارنا پڑے، کچلنا پڑے یا دھکا دینا پڑے سب جائز ہے۔ بس پیسہ آجائے اور پیسے کے آتے ہی پہلے فوری طور پر رہائش بدلو، پھر لڑکیوں کو جینز اور ٹی شرٹ پہناؤ، خواتین کے سروں اور کاندھوں سے دوپٹہ اتار کر پھینکو، زیادہ ماڈرن بننا ہے تو ''مشروب'' بھی پیو۔ چرس، ہیروئن، سگریٹ اور شیشہ بھی پیو۔ پھر کون کافر ہے جو آپ کو ''امیر'' نہ تسلیم کرے۔

بات شروع ہوئی تھی لفظ ''مڈل کلاس'' سے۔ تو ایسا لگتا ہے جیسے ڈرامہ نویس اور پروڈیوسرکو کوئی تلخ تجربہ ہوا ہے مڈل کلاس لوگوں سے جو ہر ڈرامے میں اس جملے کی تکرار سننے کو مل رہی ہے۔ دراصل یہ طبقہ بہت حساس، سمجھدار اور پڑھا لکھا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی اور معاشی انقلاب ہمیشہ مڈل کلاس ہی لے کر آتا ہے ، کیونکہ یہ طبقہ فکر بھی رکھتا ہے۔ اس لیے نظریات بھی اسی مڈل کلاس سے جنم لیتے ہیں۔ غریب آدمی ہمیشہ اپنی روزی روٹی کے چکر میں پڑا رہتا ہے اور امیر طبقہ اپنی عیاشیوں میں۔ انھیں نہ نظریات سے واسطہ نہ فکر سے۔

ہمارے ہاں معاملہ ذرا مختلف ہے۔ یہاں حکومت بدلنے سے درمیانی طبقے کا کوئی واسطہ نہیں، البتہ تحریکیں بہت اٹھی ہیں۔ ہمارے ملک میں حکومتیں بدلنے کی ذمہ داری ''دوسروں'' کی ہے۔ وہی جس کے سر پہ چاہیں ہما بٹھا دیں، جسے چاہے جیل میں ڈال دیں۔ متوسط طبقہ مہنگائی سے بھی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔


بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی اسی متوسط طبقے میں پائے جاتے ہیں۔ ذرا پیچھے کی طرف نظر کیجیے تو ذوق اور غالب ، میر و سودا اور انشا و مصحفی بھی اسی مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے، بھارت کی نئی پارٹی '' عام آدمی پارٹی'' کا تعلق بھی اسی کلاس سے ہے اور یہ بھی سب کو یاد ہوگا کہ اس پارٹی نے پہلی بار ہی زبردست کامیابی حاصل کی تھی ، لیکن باوجود دیانت دار ہونے کے وہ بھی طبقۂ امرا کے کرپشن کو دور کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔

یہ اس وقت کی بات تھی جب اس پارٹی کا جنم ہوا تھا۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ ''مڈل کلاس'' کو تختہ مشق بنا کر ڈرامہ بنانے والے کون سا تیر مار رہے ہیں۔ ہر ڈرامے کے کردار مسلسل مڈل کلاس پر تبرا بھیج رہے ہیں اور کوئی اس کا نوٹس بھی نہیں لے رہا۔ یہ بات تو سب نے ہی محسوس کی ہوگی کہ مڈل کلاس کے کردار خصوصاً خواتین کے کردار باحیا ہوتے ہیں۔

دوپٹہ چاہے کندھے پہ اٹکا ہو لیکن ہوتا ضرور ہے۔ یہ کردار والدین کی عزت کرتے ہیں جبکہ امیر زادیاں جینز اور ٹی شرٹ میں نظر آتی ہیں۔ گویا مڈل کلاس اپنی روایات کا پاس کرتی ہے اور امیر زادے اور امیر زادیاں اپنی مرضی کے غلام ہوتے ہیں۔ ماں باپ کو خاطر میں نہیں لاتیں۔

آخر ایسے ڈراموں کا مقصد کیا ہے؟ جن ڈراموں کی میں نے بات کی وہ لڑکیوں میں احساس محرومی پیدا کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے عالی شان بنگلوز، سرسراتے لہراتے پردے، قیمتی فرنیچر، دنیا بھر کی آسائشیں، غریب صرف نوکر، کروڑوں کی باتیں، کہیں بیٹی کو کروڑوں کا جہیز دیا جا رہا ہے، داماد کو کاروبار کے لیے ایک کروڑ دینا، ورنہ وہ بیٹی اور نواسی کو ماں باپ کی چوکھٹ پہ پھینک جائے گا۔

بہو کا دو کروڑ کا مہر لکھوانا جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ یہ سب کچھ اتنی بار دکھایا جاتا ہے کہ محروم طبقے میں شدید غصہ اور احساس کمتری پیدا ہوتا ہے اور اسی احساس محرومی اور احساس کمتری کی بنا پر جرائم پرورش پاتے ہیں۔

ہمارے گھر جو لڑکی کام کرنے آتی ہے وہ اکثر ڈرامے دیکھنے کے لیے ہمارے گھر آجاتی ہے۔ اکثر وہ اس طرح کی فرمائشیں کرتی ہے کہ ''ڈرامے کی ہیروئن جیسے کپڑے پہنتی ہے ، وہ کتنے کے بنیں گے؟'' ، ''مجھے بھی ڈرامے کی ہیروئن جیسے بال بنوانے ہیں''، ''آنٹی! اس لڑکی نے جو کانوں میں بندے پہنے ہیں وہ نقلی ہیں یا سونے کے ہیں، اگر نقلی ہیں تو مجھے بھی لا دیں، میری تنخواہ میں سے پیسے کاٹ لیجیے گا۔'' وغیرہ وغیرہ۔

میں اسے سمجھاتی ہوں تو کہتی ہے ''کیا اللہ صرف امیر لوگوں کے ہیں؟ ہم غریب کیوں ہیں اور دوسرے لوگ امیر کیوں؟ سب کو جب اللہ نے پیدا کیا تو کسی کو تو اتنا امیر بنا دیا کہ گھر میں تین تین گاڑیاں ہیں، بنگلے ہیں اور کسی کے پاس کھانے کو نہیں۔''

ایک دن آئی تو بولی ''آنٹی! آپ نے ان کوڑا چننے والوں کو دیکھا ہے؟'' میں نے اثبات میں جواب دیا تو کہنے لگی۔ ''آنٹی! انھیں بھی تو اللہ نے پیدا کیا ہے، پھر یہ کوڑا چن کر اپنی روزی روٹی کیوں کماتے ہیں۔ '' میرے پاس اس کے سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا۔

پہلے جب صرف ایک پی ٹی وی تھا تو معرکے کے ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ ڈرامہ نگار معاشرے کے ناسوروں کو موضوع بناتے تھے، بھارت میں ہمارے ڈراموں کی دھوم تھی، اب معاملہ برعکس ہے۔ اچھا لکھنے والے جینوئن لکھاری آج بھی موجود ہیں لیکن ان سے ڈرامے نہیں لکھوائے جاتے۔ سارا زور ڈائجسٹ رائٹر پر ہے جو ہو بہو انڈین ڈراموں کی سیریل کی کاپی کرتے ہیں۔

صرف ایک موضوع پر گزشتہ کئی سالوں سے ڈرامے بن رہے ہیں۔ قصہ صرف محبت کا ایک لڑکی جس کے عاشق دو لڑکے یا دو لڑکیاں جو کسی ایک ہی مرد کی محبت میں گرفتار۔ آپ کسی بھی چینل کے ڈراموں کو دیکھ لیجیے یہی خرافات آپ کو ملیں گی۔ بس لوگ وقت گزاری کے لیے دیکھ لیتے ہیں، ورنہ یہ ڈرامے اس قابل نہیں کہ ان کے وقت کا انتظار کیا جائے۔

کالم ختم ہی کیا تھا کہ یوٹیوب کی ایک خبر نے دل دہلا دیا۔ یہ خبر تھی معروف صحافی ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کی۔ حیرت ہے وہ بھاگ رہا تھا اور اس کے پیچھے موت بھاگ رہی تھی۔ خبر پڑھتے ہی یہ شعر اپنی پوری سچائیوں کے ساتھ مجھے یاد آگیا:

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
Load Next Story