سارے رنگ ’پناہ گزین‘ نہیں’مہاجر‘۔۔۔

بس کسی حد تک یہ ذکر ہو جاتا ہے کہ پاکستان کا قیام مکمل جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہوا۔۔۔!


October 30, 2022
بس کسی حد تک یہ ذکر ہو جاتا ہے کہ پاکستان کا قیام مکمل جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہوا۔۔۔!

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

گذشتہ دنوں اردو کے ایک موقر اخباری کالم میں 1947ء کے بٹوارے کے ہنگام میں سرحد کے اُس پار سے یہاں پاکستان کی جانب آنے والے افراد کو 'پناہ گزین' لکھا گیا، تو خیال آیا کہ لفظ 'پناہ گزین' کے حوالے سے اظہارخیال کرلیا جائے۔

'پناہ گزین' کا لفظ عام طور پر کسی زمینی وآسمانی آفت، جیسے سیلاب وقحط وغیرہ یاجنگ وجدل کے باعث ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والوں کے لیے برتا جاتا ہے، ایک لحاظ سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 1947ء میں بھی تو فسادات اور بلوے اس 'نقل مکانی' کا ایک بہت بڑا سبب بنے تھے، لیکن یہ بات تاریخی اعتبار سے نامکمل رہے گی۔

کیوں کہ یہ محض فسادات نہیں تھے، بلکہ آزادی کی ایک منظم تحریک اور الگ وطن کے حصول کا ایک افسوس ناک نتیجہ تھے، جو ہندوستان کے درمیان کھینچی جانے والی نئی سرحد کے دونوں جانب برپا ہوئے۔

اور یہ وہ تحریک تھی جس میں صرف موجودہ پاکستان یا 1971ء سے قبل کے 'متحد پاکستان' ہی کے مسلمانوں نے حصہ نہیں ڈالا تھا، بلکہ اس میں ہندوستان کے اُن مسلمان اقلیتی صوبوں اور علاقوں کا بھی ایک بہت بڑا حصہ ہے، جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے پورے مطالعہ پاکستان میں اس بنیادی ترین سوال کا جواب نہیں ملتا کہ دراصل پاکستان کا قیام منطقی طور پر کس طرح عمل میں آیا۔ 'قراردادِ پاکستان' کا تو تذکرہ ہوتا ہے۔

جس نے بلاشبہ الگ وطن کی ایک راہ متعین کی، لیکن قیام پاکستان پر اصل قانونی مہر ثبت کرنے والے 1945ء کے آخری انتخابات کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، جس کے نتائج نے دراصل پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا، بس کسی حد تک یہ ذکر ہو جاتا ہے کہ پاکستان کا قیام مکمل جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہوا۔۔۔! ارے یہ بھی تو بتائیے کہ جمہوری جدوجہد تھی تو کیوں کر۔۔۔؟ وہ کون سے انتخابات تھے۔۔۔؟ اور ان کے نتائج کیا آئے تھے۔۔۔؟ اور ماجرا یہ ہے 'متحد ہندوستان' کے ان آخری انتخابات میں پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی مسلمانوں کی 30 مخصوص نشستوں پر قائداعظم کی زیرِقیادت 'آل انڈیا مسلم لیگ' نے کلین سوئپ کیا تھا، اور یہی وہ 30 اراکین تھے۔

جنھوں نے اپنے 100 فی صد ووٹ پاکستان کے قیام کے لیے دیے اور یوں یہ آزاد اور خودمختار مملکت دنیا کے نقشے پر ابھری۔ ان 30 نشستوں میں سے 17 نشستیں (56 فی صد) ان مسلم اقلیتی علاقوں کی تھیں، جو کبھی پاکستان کا حصہ نہ بن سکے۔

جن میں 'یوپی' کی چھے، بہار، مدراس اور بمبئی کی تین، تین، جب کہ آسام اور 'سی پی' کی ایک ایک نشست شامل تھی، اِدھر کی 13 نشستوں میں بنگال اور پنجاب کی چھے، چھے اور سندھ کی ایک نشست شامل تھی۔

اس طرح تاریخی طور پر 1947ء میں یہاں نقل مکانی کرنے والے ہندوستانی مسلمان عام 'پناہ گزین' یا 'تارکین وطن' ہرگز نہیں ہوئے، بلکہ انھوں نے بھی اس نئے مملکت کے لیے باقاعدہ اور ایک بھرپور عملی جدوجہد کی تھی اور اب وہ اس جانب عازم سفر ہوئے تھے۔

بہت سے ہجرت کرنے والے تو بانی پاکستان محمد علی جناح کی پکار پر اس جانب آئے تھے، کیوں کہ نئی مملکت میں امورِ ریاست چلانے کے واسطے ماہرین اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی شدید کمی تھی۔

ان تاریخی حقائق کے ساتھ ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ بعد میں ان افراد کو یہاں 'شناخت' کے مسائل کا سامنا ہوا، جو عین منطقی امر تھا، کیوں کہ جذباتی طور پر ایک عرصے تک یہ ہندوستان سے آنے والے مسلمان خود کو فقط 'پاکستانی' کہتے رہے، جو ظاہر ہے ایک شہریت تو ہو سکتی ہے، لیکن نسلی اور لسانی شناخت کے خانے کو کسی طور پر بھی پُر نہیں کر سکتی۔

اب کوئی بھی لسانی گروہ کسی نہ کسی نام سے تو پکارا جانا ہی تھا، تو انھیں مختلف ناموں سے پکارا جانے لگا، جن میں مکڑ، تلیر، مٹروا، بھیّا کے علاوہ 'پناہ گیر' اور 'پناہ گزین' جیسے الفاظ بھی شامل تھے، جن مین بہت سی جگہوں پر تضحیک کا پہلو نہ بھی ہو تو یہ ان 'ہندوستانی مسلمانوں' کو کسی طور بھلے نہیں لگتے تھے۔

اب انھی 'القابات' میں ایک لفظ 'مہاجر' بھی تھا۔ 'نیپ' (نیشنل عوامی پارٹی) کے راہ نما محمود الحق عثمانی کی سیاسی تحریک اور ممتاز فلسفی و دانش وَر رئیس امروہوی کی تحریروں سے اس قومیت کے خدوخال واضح ہوئے اور ان افراد نے اپنی شناخت کے لیے چُن لیا اور خود کو بہ صد شوق 'مہاجر' کہلوانے لگے، اب ان کی دوسری، تیسری اور چوتھی پشت دنیا میں آچکی ہے، چوں کہ اِن کے لسانی خانے میں اب بھی ایک 'خلا' موجود ہے۔

اس لیے وہ خود کو 'مہاجر' یا 'اردو اسپیکنگ' ہی کہتے ہیں۔ اس واسطے بُہتیری بحث ہوتی ہے کہ ہجرت تو بڑوں نے کی تھی اور پنجاب میں بھی مشرقی پنجاب سے بہت ہجرت ہوئی، وہ بھی تو پھر مہاجر ہوئے؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ پنجاب میں سے بیش تر افراد کو سرحد پار بھی اپنی ہی قوم کا علاقہ ملا، اور وہ پھر اسی 'پنجابی قوم' کا حصہ بن گئے، جب کہ یہاں یہ صورت حال نہ تھی۔

دوسری بات یہ کہ ہر لفظ اپنے استعمال سے معنی بدلتا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی عام سا لفظ 'اسم' بن جاتا ہے اور پھر اس کے وہ معنی بھی تسلیم کرلیے جاتے ہیں۔

ایسا ہی لفظ 'مہاجر' بھی ہے، جو عام طور پر ہندوستان کے اقلیتی علاقے سے پاکستان آنے والے مسلمانوں اور ان کی نسلوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور وہ اسے بہ صد خوشی اب بھی اپنی شناخت بتاتے ہیں، انھیں 'پناہ گزین' یا دیگر اور کسی نام سے پکارا جائے، تو وہ اب برا محسوس کرتے ہیں۔

ممتاز دانش ور محفوظ النبی صاحب بھی اس موقف کے حامی ہیں کہ 'انھیں مہاجر کہا جائے، کیوں کہ نواب زادہ لیاقت علی خان اور جواہر لعل نہرو کے سمجھوتے کے نتیجے میں 1947ء میں سرحد کی دونوں جانب ہونے والی ہجرت باقاعدہ 'تبادلہ آبادی' تسلیم کی گئی ہے۔'

اس لیے کم ازکم ان کا یہ بنیادی انسانی حق ہی سمجھتے ہوئے ہی ہمیں اتنی گنجائش تو دے دینی چاہیے کہ وہ دیگر اقوام کی طرح اپنی الگ لسانی شناخت ہی سے پکارے جائیں اور تاریخی طور پر بھی جب ہجرت کرنے والوں کا تذکرہ ہو تو تب بھی انھیں 'مہاجر' ہی کہا جائے کہ وہ تو براہِ راست خود ہجرت کرنے والے بھی تھے۔

۔۔۔

کم سوچیے، زیادہ ہنسیے اور مہربان رہیے!

خوشنود زہرا

آج کل کا دور ہے نااُمیدی کا، مایوسی کے احساس کی ایسی لہر ہے، جس میں جکڑے جانے کتنے لوگ اپنی الگ ہی دنیا میں گم نظر آتے ہیں۔

سڑک، بازار، دفاتر، کریانے کی دکانیں اور جنرل اسٹور پر الغرض کتنے ہی ایسے چہرے آپ کو نظر آئیں گے، جو فکر میں ڈوبے اور سوچتی آنکھوں سے معمول کا حصہ بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ بظاہر سب کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی دنیا سے کٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، غیرمحسوس انداز میں اُن کی الجھن آمیز آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے کہ ان کی زندگی ایسی سہل اورسادہ تو ہرگز نہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا صرف اُن چند افراد کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ دانستہ یا غیردانستہ سبھی اس کا شکار ہیں، شاید یہ انسانی فطرت ہے کہ جب حالات اُس کی منشا کے مطابق نہ ہوں تو گھبرا اُٹھتا ہے اور نااُمیدی اور مایوسی میں گِھرتا چلا جاتا ہے۔

تو جناب چھوڑیے اِس نااُمیدی اور بے یقینی کی کیفیت کو، بس چند حقیقتوں کا ادراک حاصل کرلیجیے تاکہ زندگی سہل ہو جائے۔

سمجھوتا اور حقیقت شناسی زندگی کا حسن ہے، ہم آپ کو کام یاب زندگی کے چند ایسے نکات سے روشناس کراتے ہیں، جس کو جاننے کے بعد شاید آپ اپنی اُلجھنوں کو کسی حد تک بھلا کر پُرسکون ہوسکیں، جن کی یاد دہانی آپ کی زندگی کو آسان بنانے میں ماددگار رہے گی۔

٭ ماضی تبدیل نہیں ہوسکتا، ہم میں سے کتنے ہی ایسے افراد ہیں جو ماضی کی غلطیوں، دشواریوں یا محرومیوں کو حال پر بھی سوار رکھتے ہیں۔ یہ منفی رویہ ترک کیجیے اور ماضی کو بھول کر حال کی زندگی کی رعنائیوں کا لطف اٹھائیے، ماضی گزر چکا، اب جو ہے سو حال ہے جو مستقبل کی بنیاد ہے۔

٭ ہر ایک کا سفر مختلف اور تجربات جداگانہ ہیں۔ زندگی گزارنے کا ہر ایک کا اپنا طریقہ اور حالات ہیں جس کی بنا پر زندگی کا سفر ممکن ہو پاتا ہے، دوسروں پر غور کرنے کے بہ جائے اپنے راستے کی خرابیاں دور کرنے کو کوشش کیجیے۔

٭ تبدیلی، وقت کے ساتھ مشروط ہے۔ حالات و واقعات میں تبدیلی کا بنیادی محرک وقت ہے، اگر وقت آج بُرا ہے تو کل اچھا بھی ہوگا، بس خود پر یقین رکھتے ہوئے وقت سے ہم آہنگ ہوجائیے۔

٭ اپنے فیصلوں سے پرکھ محسوس نہ کیجیے۔ کبھی کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اُس کے ہر پہلو کو اور ممکنہ نتائج کو خوب سوچیے، کیوں کہ مشکل حالات میں کیے گئے اہم فیصلے آپ کی زندگی میں تبدیلیوں کے محرک بنتے ہیں۔ اِن فیصلوں سے آپ کے فہم اور کردار کی مضبوطی کا اندازہ ہوتا ہے۔

٭ اتنا نہ سوچیے ! سوچنا اور خوب سوچنا ایک اچھی عادت ہے لیکن کسی بھی شے کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے، اس لیے بلاوجہ اور غیر ضروری معاملات میں الجھنے سے خود کو دور رکھیے اور معمولی باتوں کو ذہن پر سوار نہیں کیجیے۔

٭ خوشی اپنے اندر تلاش کیجیے، خوشی آپ کے اندر موجود ہے بس اُسے باہر لانے کی ضرورت ہے۔ کسی کھلتے ہوئے پھول کوکو دیکھ کر شادمانی محسوس کرنا یا کسی کی مدد کرکے سکون حاصل کرنا، یہ سب ایسی خوشیاں ہیں جس کیلئے آپ کو زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بس تلاشنے کی ضرورت ہے، تو اپنے آس پاس دیکھیے شاید خوشی کا سبب مل جائے۔

٭ مثبت سوچ، بہتری کی بنیاد ہے۔ اس لیے منفی سوچوں سے پرہیز کیجیے۔ جیسے اگر میں نے ایسا کیا تو وہ کیا کہے گا یا میں نے فلاں لباس پہنا تو لوگ کیا کہیں گے؟ ایسی باتیں سوچنا ترک کیجئے اور وہی کیجئے جو آپ کے دل کو بھاتا ہے۔ کیونکہ سوچ مثبت ہو تو کامیابی زیادہ دور نہیں رہتی، منفی سوچوں کو خود سے دور کریں اور روشن پہلو دیکھنے کی عادت اپنائیے۔

٭ خوب ہنسیے، قہقہے لگائیے، لیکن اُن کی تعداد بھول جائیں، خوش دلی سے مسکرانے کی عادت ڈالیں۔ ایسا کرنے والوں کے چہرے پر رونق بھی ہوتی ہے اور اُن کے سماجی تعلقات پر بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

٭ مہربانی کرتے ہوئے ناپ تول نہ کیجیے، ہر ایک کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے کی عادت اپنائیے۔ کسی کا کوئی معمولی کام کرتے ہوئے بھی جھجک محسوس نہ کریں، نرم دلی سے پیش آئیے، اگر کچھ اور ممکن نہ تو پرندوں کے پینے کیلئے پانی کا انتطام کردیجیے۔

٭ خاموشی، ناکامی ہے! کم بولنا اچھی عادت ہے تاہم کبھی کبھار خاموشی بھی نقصان دہ ہوتی ہے۔ ہر معاملے پر اپنی رائے بنائیے اور ہوسکے تو اُسے اپنے دوستوں، گھر والوں، والدین، بہن بھائیوں سے بھی بانٹیے، کیوں کہ کبھی کبھار آپ کے وہ فیصلے جن پر آپ کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے، خاموشی کی نذر ہوجاتے ہیں اور نتیجہ نقصان کی صورت نکلتا ہے۔

اُمید ہے آپ کو زندگی کو سمجھنے، پرکھنے اور طریقے سے گزارنے میں کچھ تو مدد میسر آئے گی۔ اپنی زندگی اپنے مطابق بسر کیجیے، کیوں کہ جانے والا زمانہ دوبارہ لوٹ کر نہیں آتا، نہ اچھا نہ بُرا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں