سپریم کورٹ کا حکم ایک اور لاپتہ شخص کا مقدمہ فوج کیخلاف درج بلوچستان میں 2 میجرز کا کورٹ مارشل ہوگا حکوم

عدالت نے اخونزادہ کیس کی2ہفتے میں تحقیقات کا حکم دے دیا،خضدار سے ملنے والی لاشوں کی ڈی این اے رپورٹ آج طلب


Numaindgan Express March 26, 2014
پشاور ہائیکورٹ نے جی ایچ کیوسے انکوائری رپورٹ مانگ لی،ایئرفورس کے جونیئرملازم کی مبینہ گرفتاری کے خلاف پٹیشن پر ایئرفورس حکام سے7دن میں رپورٹ طلب کر لی۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کے حکم پر ایک اور لاپتہ شخص کا مقدمہ فوج اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف درج کرلیا گیا۔

مقدمہ ایف آر ٹانک میں لاپتہ قاری اخونزادہ کے بھائی قاری رمضان کی درخواست پر درج کیا گیا جس میں فوج اور سیکیورٹی اداروں پر جبری گمشدگی کا الزام عائدکیا گیا ہے۔ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں فل بینچ نے ایک ہفتے کے اندر ایف آئی آر کی نقل پیش کرنے اور 2ہفتے میں انکوائری مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اگر انکوائری نہ ہو تو مقدمے کا اندراج بے مقصد ہے۔ اے پی پی کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ٹانک پولیس اسٹیشن میں6مارچ کو ایف آئی آردرج کی گئی ہے۔ عدالت نے کہا عدالتی حکم پر پوری طرح عمل نہیں ہوا۔ ہم نے صرف ایف آئی آردرج کرنے کا نہیں بلکہ تحقیقات کرکے ذمے دار افراد کاتعین کرنے کا بھی کہا تھا۔ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ خالد محمود نے بتایا کہ ایف آئی آر فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کی دفعہ11کے تحت دائر ہوچکی ہے۔

انکوائری مکمل کرنے کے بعد مقدمہ فیصلے کے لیے جرگے کے سامنے رکھاجائے گا۔ ان کی استدعا پر سماعت 14اپریل تک ملتوی کردی گئی۔ قاری اخونزادہ گزشتہ سال اگست سے لاپتہ ہے۔ دریںاثنا بلوچستان بدامنی کیس میں وفاقی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ جبری گمشدگیوں میں ملوث فوجی اہلکاروںکا کورٹ مارشل کرایا جائے گا۔ ایف سی کے وکیل عرفان قادر نے بتایا کہ حکومت نے 2 فوجی افسران کا مقدمہ آرمی کورٹ منتقل کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو لکھ دیا ہے۔ بلوچستان حکومت کو اس پر اعتراض نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ملٹری انٹیلی جنس کے میجرمعین اور میجرسیف فوج میں واپس جاچکے ہیں۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے سوال اٹھایا کہ میٹنگ میں چیف سیکریٹری بلوچستان نے کیوں شرکت نہیںکی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ پہلے اجلاس میں چیف سیکریٹری موجود تھے۔ عدالت نے لاپتہ افرادکے بارے میں مزید تفصیلات مانگیں تو ایڈووکیٹ جنرل کوئی جواب نہیں دے سکے جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا لگتا ہے صوبائی حکومت کو لاپتہ افرادکے مقدمے میں دلچسپی نہیں۔ ایسا ہے تولکھ کر بتا دیا جائے۔

عدالت نے خضدار میں اجتماعی قبر سے ملنے والی لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ پیش نہ کرنے پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا اور رپورٹ آج طلب کر لی۔ دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس ملک شہزادگھیبہ نے ایئرفورس کے جونیئرملازم محمدطاہر کی مبینہ طورپر ایجنسیوں کی طرف سے گرفتاری کے خلاف پٹیشن پر ایئرفورس حکام کو نوٹس جاری کر کے7دن میں رپورٹ طلب کر لی۔ادھر پشاور ہائیکورٹ نے فورسز کی زیرحراست ہلاک ہونے والے لاپتہ شہری عبدالصمد کے لواحقین کی درخواست پر جی ایچ کیوسے انکوائری رپورٹ طلب کرلی۔ وکیل نے بتایاکہ سیکیورٹی ایجنسیوں نے پہلے ملزم کی گرفتاری سے لاعلمی ظاہرکی مگر 12اگست 2012کو دعویٰ کیا کہ اسے غربی پولیس اسٹیشن کی حدود میں فورسز پر فائرنگ اور فرارہونے کے دوران ہلاک کر دیا گیا۔ یہ ماورائے عدالت قتل ہے۔ جیگ برانچ کے ایک کرنل نے بتایا کہ آرمی ایکٹ سیکشن 157کے تحت وہ انکوائری مکمل ہوگئی ہے۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ ایک قانون کے تحت سیکیورٹی فورسز کو وسیع پیمانے پر اختیارات حاصل ہیں تو پھر کیوں لوگوں کو اٹھا کر غائب کیا جارہا ہے۔ قانونی طریقہ کارکوکسی صورت نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ ہرکیس کا الگ الگ جواب دینا پڑے گا۔ صرف کاغذکے دوٹکڑوں کے جواب سے کام نہیں چلے گا۔ جسٹس قیصررشید نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو ان کے رشتے داروں سے ملاقات کے لیے اجازت نہ دینا غیرقانونی ہے۔ اگر کوئی گناہگار ہے تو اسے قانون کے تحت ڈیل کیا جائے مگر خدارا انکے رشتہ داروں کو اتنا تو بتائیں کہ وہ کہاں پر ہیں، زندہ ہیں یا مردہ ہیں۔ 2رکنی بینچ نے 51لاپتہ افراد کے لواحقین کی درخواستوں پر وفاقی وصوبائی حکومتوں، وزارت دفاع، داخلہ،آئی جی پولیس، ہوم سیکریٹری اورآئی جی ایف سی سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں سے جواب طلب کرلیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں