گلابی اکتوبرکا اختتام ہوا…

دنیا بھر میں ماہ اکتوبر کو چھاتی کے کینسر سے آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے… کیا یہ کافی ہے؟

Shireenhaider65@hotmail.com

جس وقت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے، اس وقت سرما کی دہلیز پر کھڑا ماہ اکتوبر، اپنے اختتام کے قریب ہے۔ اسے گلابی اکتوبر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اسے بریسٹ کینسر کی آگاہی کا مہینہ کہا جاتا ہے۔

گلابی ربن، بریسٹ کینسر کی علامتی نشانی ہے اور اکتوبر کا مہینہ اسی مناسبت سے گلابی اکتوبر کہلاتا ہے ۔ اس سے پہلے بھی میں نے اپنے ایک کالم میں بتایا تھا کہ اپنے براعظم میں، پاکستان عورتوں میں چھاتی کے کینسر کے اعداد و شمار کے لحاظ سے سب سے پہلے نمبر پر ہے، یہاں ہر نو میں سے ایک عورت چھاتی کے کینسر کا شکا رہے جب کہ ایک اور سروے کے مطابق ہمارے ہاں ہر آٹھ میں سے ایک عورت چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہوتی ہے۔

ممکن ہے کہ یہ تعداد اور بھی زیادہ ہو، اس کی وجہ ہمارے ہاں کے عمومی رواج ہیں کہ عورتوں کے لیے کسی تکلیف کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا یا تشخیص کروانا اہم نہیں ہوتا۔ اس لیے بہت سی تعداد ایسی عورتوں کی بھی ہے جو بغیر تشخیص اور علاج کے ہی اپنی زندگی کے آخری وقت میں تکلیف میں مبتلا رہ کر چل دیتی ہیں۔

امسال پہلی بار ایسا ہوا کہ کئی عمارتوں پر ماہ اکتوبر شروع ہوتے ہی، گلابی رنگ کی روشنیاں آویزاں کی گئیں، مالز اور دکانوں کے باہر گلابی ربن کے ساتھ بیچ فروخت ہوتے نظر آئے اور نہ صرف اسپتالوں بلکہ دیگر کئی عمارتوں میں بھی پوسٹر اور اشتہاری بینر آویزاں کیے گئے۔ ٹیلی وژن پر اشتہارات کے ذریعے اور ریڈیو پر معلوماتی پروگرام پورا مہینہ سنائے گئے اور ٹیلی فون کی کال پر، گھنٹی بجنے کے وقفے میں بھی معلوماتی پیغامات دہرائے گئے ۔ لیکن کیا یہ سب ایک ماہ کے لیے کر لینا کافی ہے؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ٹیلی وژن چینلز پر یا یو ٹیوب پر animated پروگراموں کے ذریعے، نوجوان بچیوں اور خواتین کو، اپنی چھاتی کا ماہانہ تفصیلی چیک اپ کرنے کا طریقہ سکھایا جائے۔ بیماری جو بھی آتی ہے، وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے اور ہمارا امتحان ہوتی ہے۔ بیماری آنے سے قبل اس کی نشاندہی ہو جائے، وقت پر اسے پکڑ لیا جائے اور ڈاکٹر کو دکھا دیا جائے تو کافی اثرات اور نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔

ہمارے ہاں بد قسمتی سے بالخصوص عورتوں کے امراض کو اس وقت تک خفیہ رکھا جاتا ہے جب تک کہ وہ موت کے دہانے پر نہ کھڑی ہوجائیں ۔ پہلے خود ان کے اپنے اندر جھجک ہوتی ہے کہ وہ کس سے بات کریں، انھیں جو بھی بیماری ہو، وہ اس کا ذکر کسی سے بھی کرتے ہوئے یوں گھبراتی ہیں جیسے اس میں ان کا اپنا ہی قصور ہو۔ سینے میں کینسر ہو جائے تو اسے اپنے سینے میں ہی رکھ کر گھٹ گھٹ کر تکلیف برداشت کرتی رہتی ہیں ، اس وقت تک کہ جب تک تکلیف اتنی بڑھ جائے کہ ان سے برداشت نہ ہو اور ان کا '' بھید'' کھل جائے۔


بالفرض وہ اپنی ماؤں سے یا بڑی بہنوں سے کہہ ہی دیں تو وہ بھی اپنے تک محدود رکھتی ہیں کہ اس طرح کے معاملات بھلامردوں کو بتانے والے ہوتے ہیں۔ اپنے طور پر ، اپنی سطح پر اور اپنے فہم اور ذہنی اپچ کے مطابق، خفیہ طور پرابتدائی علاج معالجہ کروانے میں وہ اتنا زیادہ وقت گزار دیتی ہیں کہ جس میں کینسر کو اس کی ابتدائی مدت میں پکڑا اور جڑ سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس کا خمیازہ بعد ازاں سب کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کینسر ایک ایسی بیماری ہے کہ اگر اس میں گھر کا ایک فرد مبتلا ہو تو اس کی تکلیف کو سارا خاندان بھگتتا ہے۔

چھاتی کے کینسر کو عموماً عورتوں کی بیماری سمجھا جاتا ہے اور ایسا ہی ہے لیکن مجھے بھی ایک سال پہلے تک علم نہ تھا کہ مردوں میں بھی چھاتی کا کینسر ہوتا ہے، اس کا تناسب اگر چہ صرف ایک فیصد ہے۔ جب ایک عورت چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہوتی ہے تو وہ ایک اکیلی نہیں ہوتی، اس سے بندھی رشتوں کی ڈور ہوتی ہے اور اس ڈور کا ہر سرا ایک ایسے شخص کے ساتھ منسلک ہوتا ہے جس کی زندگی میں وہ عورت بہت اہم ہے۔

وہ ایک ماں ہوتی ہے، بہن ہوتی ہے، بیٹی ہوتی ہے، بیوی، نانی ، دادی، ساس، بہو، عم زاد، بھانجی، بھتیجی، پوتی یا نواسی ہوتی ہے... استاد ہوتی ہے ، باس یا ماتحت۔ ایک خدمتگار، ایک خاموش کارکن جو تن تنہا ایک گھر اور اس گھر میں رہنے والوں کا نظام چلاتی ہے۔ رشتے نبھاتی ہے، سب کی ضروریات بے کہے سمجھتی اور انھیں پورا کرتی ہے۔ ا س کا کام ایسے خاموش مجاہد جیسا ہوتا ہے کہ جسے دنیا میں کسی سے صلے کی توقع ہوتی ہے اور نہ امید۔ اس کا کیا ہوا کام کسی کو نظر نہیں آتا ، ہاں اس کا کام اس دن نظر آتا ہے جس دن نہ کیا گیا ہو۔

صرف چھاتی کا کینسر ہی نہیں بلکہ کئی اور طرح کے کینسر بھی ہمارے ہاں انتہائی تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں اور ان کی تشخیص اور علاج بر وقت نہ ہونے، ملک میں کینسر کے علاج کے لیے کافی اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے لوگ عام ڈاکٹروں اور حکیموں ، بلکہ پیروں فقیروں کے چکروں میں پڑ جاتے ہیں۔

دنیا بھر میں اس وقت چھاتی کے کینسر کے اعداد وشمار سب سے زیادہ ہیں۔ کینسر کے ہر طرح کے مریضوں میںسے 12.5فیصد تعداد چھاتی کے کینسر کی ہے اور 12.2 فیصد پھیپھڑوں کے کینسر کی۔ ہر روز اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ایک خطرناک علامت ہے۔ ہمارے دیہات میں جہاں ناخواندگی کے ساتھ ساتھ لاعلمی اور علاج سے ناواقفیت بھی موجود ہے، یقینا وہاں سے اعداد و شمار بھی شامل کیے جائیں تو تناسب اور بھی بڑھ سکتا ہے۔

اگر آپ انٹرنیٹ پر چیک کریں تو کینسر کے اسباب میں سے سب سے اہم اسباب سگریٹ نوشی یا کسی سگریٹ نوش سے قربت، شراب کا استعمال، سورج کی تیز اور براہ راست شعاعوں کے سامنے زیادہ وقت گزارنا ، موٹاپا اور کسی انفکشن کی وجہ سے کینسر کا ہو جانا۔ ہمارے ہاں جس رفتار سے کینسر بڑھ رہا ہے اس میں سے زیادہ تر ایسے لوگ مبتلا ہیں، جن میں مندرجہ بالا اسباب میںسے کوئی بھی سبب موجود نہیں ہو گا ۔

دنیا بھر میں ماہ اکتوبر کو چھاتی کے کینسر سے آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے... کیا یہ کافی ہے؟ شاید آپ کو سن کر لگے کہ ایک ماہ ہی کافی ہے، شاید ایسا ہی ہو، مگر ان کے لیے جنھیں صرف اس کے بارے میں جاننا ہے۔ وہ جو اس میں مبتلا ہیں، ان کی تو ساری زندگی، سال کے تین سو پنسٹھ دن ہی کینسر سے آگاہی کے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی سب کو اس موذی مرض سے بچائے اور اس کے اثرات سے سب کو محفوظ رکھے۔ آمین۔
Load Next Story