تہذیبی خود کشی

اردو کے کتنے ہی الفاظ اب اجنبی ہوتے جارہے ہیں یہ تہذیبی خود کشی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

ملک کی ایک بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی کے چانسلراپنا سر پکڑے بیٹھے تھے کہ ان کی یونیورسٹی طالب علموں کو جدید ترین آلات اور نصاب تعلیم اور بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آنے والے اساتذہ بھی محنت کے ساتھ پڑھا رہے ہیں، لیکن وہ معیار حاصل نہیں ہورہا ہے جو ان مضامین کی سند کے عالمی طو ر پر تسلیم کرنے کے لیے درکار ہے اوران کا کہنا تھا کہ ان سے خود طالب علموں نے یہ شکوہ کیا ہے کہ انگریزی میں پڑھائے جانے کی وجہ سے نہ ان کی سمجھ میں نفس مضمون( کونٹینٹ) آتا ہے اور نہ ہی انھیں انگریزی زبان پر کوئی عبور حاصل ہوتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں یا انگریزی کی؟میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں یا انگریزی ادب میں مہارت کی سند لینے آئے ہیں، ان طالب علموں کا زیادہ وقت انگریزی کی گرامر سیکھنے میں لگ جاتا ہے اس کے نتیجے میں وہ اپنے اصل مضمون کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کا نظام تعلیم پاکستان کے لیے ماہرین اورہنرمند نہیں تیار کررہا ہے ہماری ساری محنت مغرب اور دیگر ممالک کے لیے ذہنی اور جسمانی غلام تیار کرنا ہے،کیونکہ اس نظام سے فارغ التحصیل طلباکی سب سے بڑی دلچسپی یہ ہوتی ہے کہ انھیں بیرون ملک ملازمت اور وہاں کی شہریت مل جائے۔

بظاہرہائر ایجوکیشن کمیشن کے نیشنل کوالی فی کیشن فریم ورک آف پاکستان 2015کی پالیسی میں بہ زبان انگریزی یہ بیان کیا گیا ہے کہ'' اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اردو اور انگریزی کی '' فنکشنل نالج ''ہونا ضروری ہے۔خیالات اور تصورات کی منتقلی کے لیے اردو اور انگریزی کی عملی معلومات ہونا ضروری ہے۔نظریات (تھیوری) تصورات کی منتقلی کے لیے اردو اور انگریزی میں مہارت ضروری ہے۔

اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اردو اور انگریزی کی پیشہ ورانہ مہارت ضروری ہے۔''غرض ہرجگہ یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ تعلیم کے حصول کے لیے اردو اور انگریزی کی مہارت مساوی طور پر ضروری ہے۔لیکن جہاں یہ پالیسی بیان کی گئی ہے وہاں یہ شرط بھی عائد کی گئی ہے کہ اگر طالب علم نے اپنے امتحانی پرچے میں جواب انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں دیا ہے تو اس کی سند/ ڈگری/سرٹیفیکٹ اورکسی بھی دستاویز پر یہ واضح کیا جائے گا کہ اس نے کس زبان میں جواب دیا۔

اگرچہ ہرجگہ ذریعہ تعلیم کے طور پر اردو کا مساویانہ ذکر ہے،لیکن انگریزی زبان کو مستند گردانا گیا ہے،لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ ایچ ای سی کی جانب سے ملک بھر کی جامعات میں حکماً انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں تدریس پر پابندی ہے، یہاں تک کہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں گریجویشن اور ماسٹرز کے لیے بھی ذریعہ تعلیم انگریزی زبان ہے،جوکہ یونیورسٹی کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی ہے یہاں تک کہ وہاں اسلامیات کی تدریس بھی انگریزی زبان میں ہورہی ہے۔

ہر یونیورسٹی میں کوالٹی کنٹرول کے نام پر ایچ ای سی کا ایک نمایندہ موجود ہوتا ہے جو یہ دیکھ کر کہ اگرتدریس کا کام اردو میں ہورہا ہے تعلیم اور تدریس کو فوری طور پر غیر معیاری قرار دے دیتا ہے۔اردو میں لیکچرز کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے،جب کہ آئین پاکستان اور خود سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان میں اردو کے سرکاری زبان کے طور پر مکمل نفاذ کا حکم دیتا ہے جس میں اردو زبان کے ذریعہ تعلیم کے طورپر نفاذ بھی شامل ہے۔


1973کے آئین کا تقاضا تھا کہ 1988 میں سرکاری زبان کے طور پر اردو کا نفاذ کردیا جاتا کیونکہ یاد رہے دستور پاکستان کے آرٹیکل 251 کے مطابق1۔پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔2۔ شق 1 کے تابع، انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جاسکے گی، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہوجائیں۔3۔ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کرسکے گی۔''آئین کا یہ آرٹیکل عوام کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی قومی زبان میں تعلیم حاصل کریں۔

بیوروکریسی تو یہ نہیں چاہے گی کہ انگریزی زبان سے نجات ملے،کیونکہ اردو میں دفتری کارروائی سے ان کی ساری بدعنوانیاں عیاں ہوجائیں گی۔محض انگریزی زبان کی وجہ سے سرکاری ملازمین میں ایک احساس تفاخر پیداہو جاتا ہے۔ہمارے ایک دوست جنھوں نے ارضیات میں ایم ایس سی کیا تھالیکن سی ایس ایس کرکے اقتصادیات کی سند رکھے بغیر ڈپٹی آڈیٹر جنرل کی پوسٹ پر پہنچ گئے حالانکہ وہ آڈٹ کی الف بے سے بالکل ہی ناواقف تھے اور وہاں پہنچ کر انھوں نے اپنے دفتری حریفوں سے انتقام لینا شروع کردیا،ہر ایک کے خلاف الٹی سیدھی رپورٹیں جاری کردیں۔

محض انگریزی کے زور پر وہ اس عہدے تک پہنچے۔ انگریزی کا اتنا زعم تھا کہ جب ریٹائرڈ ہوئے تو اسی دعوے پرایک نجی یونیورسٹی میں صحافت کی تعلیم دینے لگے جب کہ صحافت میں ان کا یہ حال تھا کہ ان کے قلم سے کوئی مضمون غلطی سے بھی سرزد نہیں ہوا تھا۔مجھے تو اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے ذوق انتخاب پر افسوس ہوا۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں صرف یہ خوبی تھی کہ وہ دفتری انگریزی کے ماہر تھے جس کی بنا پر ان کو یہ زعم ہے کہ آڈٹ ہو یا اقتصادیات کا علم ہو یا ابلاغیات کی تدریس یہ سب ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔

جاپان کی یونیورسٹیزکے بیشتر تعلیمی پروگراموں کی تدریس جاپانی زبان میں ہوتی ہے۔ یہی صورت حال چین کی بھی ہے جہاں نیچے سے یونیورسٹی سطح تک ذریعہ تعلیم وہاں کی قومی زبان ہے۔ یورپ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ فرانس اور جرمنی میں اپنی زبانوں کے تحفظ کا رجحان شدت سے موجود ہے۔

فرانس تو اس حد تک جاپہنچا ہے کہ ''ذریعہ تدریس صرف فرانسیسی'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جب کہ جرمنی میں اسکولوں میں تعلیم کی زبان بنیادی طور پر صرف جرمن ہے اور ماسٹر پروگرام بھی 50فیصد جرمن زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔ کینیڈا میں لسانی تنوع کی بہت عمدہ تصویر سامنے آتی ہے، اگرچہ زیادہ تر صوبوں میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے،مگر کیوبک میں فرانسیسی بولنے والوں کا غلبہ ہے اور یہاں کے بیشتر اسکولوں میں بلکہ متعدد یونیورسٹیوں میں بھی ذریعہ تعلیم فرانسیسی ہے۔

اس عالمی تناظر کی روشنی میں اگر ہم اپنے ملک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو بہت ہی افسوسناک صورت حال کا سامنا ہے۔ ہمارے یہاں نہ صرف زیادہ تر پیشہ ورانہ کورسز انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں اور انجینئرنگ، طب اور قانون میں تو صورت حال مزید ناگفتہ بہ ہے، بلکہ ابتدا سے ہی بچوں کو مادری زبان کے بجائے انگریزی میں تعلیم دیتے ہیں اور انھیں اپنی زبان سے ناواقف رکھنے کی گویا شعوری کوشش کرتے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انھیں نہ انگریزی آتی ہے اور نہ ہی اردو سے وہ مانوس ہو پاتے ہیں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں نے کئی نوجوانوں سے تشفی کا مطلب پوچھا تو انھیں اس کا مطلب نہیں معلوم تھا ایسے ہی اردو کے کتنے ہی الفاظ اب اجنبی ہوتے جارہے ہیں یہ تہذیبی خود کشی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
Load Next Story