پاکستان سرخرو ہوگیا

انھیں اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کرکے ملک کی معیشت کو جلدازجلد پٹری پر لانے کے لیے کوشش کرنا چاہیے


عثمان دموہی October 30, 2022
[email protected]

پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے پر بھارت کا غم و غصہ غلط نہیں ہے کیونکہ اسی نے پاکستان کو اس اذیت سے دوچار کیا تھا۔

پورے چار سال پاکستانی معیشت کا جو برا حال رہا اس پر ضرور بھارت خوشیاں مناتا رہا ہے۔ اس کی ہی وجہ سے سابقہ حکومت کے دور میں آئی ایم ایف سے قرض کا معاہدہ بڑی مشکل سے طے پایا تھا مگر افسوس کہ خود سابقہ حکومت نے بھی اپنی ناتجربہ کاری اور لیت و لعل سے اس ڈیل کو مشکل بنا دیا تھا پھر اس حکومت کے خاتمے کے بعد موجودہ حکومت کو بھی آئی ایم ایف نے قرض دینے میں بقول مفتاح اسمٰعیل بہت پریشان کیا تھا۔

وہ تو ہماری فوج کے سپہ سالار کا امریکا جا کر وہاں اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتوں کا کمال تھا کہ سابقہ حکومت نے اقتدار سے اپنی بے دخلی پر امریکا کو جو آنکھیں دکھائی تھیں انھوں نے اس ناراضگی کو دور کرایا اور پاک امریکا تعلقات کو پھر سے پٹری پر لانے کی کوشش کی جس کے ہی نتیجے میں پہلے تو ایف سولہ طیاروں کے لیے ضروری پرزہ جات کی دستیابی ممکن ہوگئی اور دوسری طرف ایف اے ٹی ایف کے چنگل سے نکلنا ممکن ہو سکا۔

بھارت نے ممبئی کے دہشت گردی کے واقعے کو خوب کیش کیا گوکہ وہ اس کے اپنے ہی دہشت گردوں کا کارنامہ تھا مگر اس نے اسے پاکستان پر تھوپ کر کئی پابندیاں لگوائیں۔ دراصل اس وقت کی اوباما حکومت بھارت کی مرید بنی ہوئی تھی وہ اس کی ہر جائز و ناجائز فرمائش کو پورا کر رہی تھی اسی طرح ہر جائز اور ناجائز شکایت کو بھی درست تسلیم کرکے اس پر باقاعدہ ایکشن لے رہی تھی۔

اوباما کے بعد ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہوگئے وہ بھی بھارت کے بہت قریب تھے اور اس کے اشاروں پر چل رہے تھے۔ چنانچہ مودی کی فرمائش پر پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈلوا دیا گیا اور اسے بلیک لسٹ کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کرنے لگا مگر وہ پاکستان کے دوست ممالک کی وجہ سے پاکستان کو بلیک لسٹ نہیں کرا سکا۔

پاکستان مسلسل چار سال تک گرے لسٹ میں رہا جس سے اس کی معیشت مسلسل ہچکولے کھاتی رہی۔ ٹرمپ کے بعد جوبائیڈن امریکا کے صدر منتخب ہوگئے وہ سابقہ حکومتوں سے بہت مختلف ثابت ہوئے۔ بھارتی حکومت نے سابقہ دونوں امریکی حکومتوں کے دور میں بہت ناجائز فائدے حاصل کیے۔

خاص طور پر پاکستان کے خلاف جو بھی کرانا چاہا وہ انھوں نے کیا حتیٰ کہ ٹرمپ دور میں پاکستان امریکا سے بہت دور ہو گیا اور پاکستان کو جو تھوڑی بہت امداد مل رہی تھی وہ بھی بند کردی گئی ساتھ ہی افغانستان میں اپنی ناکامی کا ذمے دار بھی پاکستان کو قرار دے دیا گیا۔ ان ہی ادوار میں بھارت کو جوہری مواد سپلائرز گروپ کا ممبر بھی بنا دیا گیا جس کا بھارت نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور ایٹمی ایندھن کا اس نے باقاعدہ کاروبار شروع کردیا۔ اس وقت ممبئی اور دہلی کے بازاروں میں یورینیم کھلے عام فروخت ہو رہی تھی مگر بھارت کے خلاف کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔

پاکستان کو اگرچہ بھارت نے اپنے دوستوں کے ذریعے گرے لسٹ میں ڈلوا دیا تھا مگر وہ اس سے بھی مطمئن نہیں تھا وہ پاکستان کو ہر صورت میں بلیک لسٹ کرانا چاہتا تھا۔ اس سلسلے میں امریکا اور فرانس اس کے ساتھ تھے۔ جوبائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ ٹرمپ سے بھارت کے لیے مختلف ثابت ہوئے۔ بھارت نے بائیڈن اور ٹرمپ کے الیکشن میں ٹرمپ کو جتانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔

امریکا میں آباد بھارتیوں نے ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالے اور اس کے حق میں پورے امریکا میں مہم بھی چلائی تھی۔ چونکہ بائیڈن بھارت کی ٹرمپ نوازی سے خوب واقف تھے چنانچہ انھوں نے چین کے معاملے میں ضرور بھارت کی مدد جاری رکھی مگر پاکستان سے تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کی۔

ادھر جنگی طیاروں کی فروخت کے معاملے میں فرانس اور بھارت کے مابین تلخیاں پیدا ہوگئیں چنانچہ فرانس نے بھی بھارت نوازی سے ہاتھ کھینچ لیے وہ پہلے بھارت کی فرمائش پر ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالتا چلا آ رہا تھا اب وہ اس دباؤ سے باہر آ گیا۔ بائیڈن پہلے ہی پاکستان مخالف پالیسی کو رد کرچکے تھے چنانچہ ایف اے ٹی ایف جو پہلے سخت سیاسی دباؤ میں تھا اب اپنے اصولوں کے مطابق پاکستان کے کیس کو چلانے لگا۔

پاکستان کو پہلے اپنے ہر اجلاس میں نئی نئی شرائط پوری کرنے کا پابند بنا دیتا تھا اور پاکستان ایک ذمے دار ملک کے طور پر ان شرائط کو پورا کر دیتا تھا، گزشتہ سال ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں اسے گرے لسٹ سے نکال دینا چاہیے تھا مگر ایک مرتبہ پھر مزید شرائط پوری کرنے کا پابند کردیا گیا اور اس طرح پاکستان کو نئی شرائط کو ملا کر کل 34 شرائط کو پورا کرنا تھا اور اس نے بڑی جانفشانی اور ذمے داری کے ساتھ تمام شرائط کو پورا کردیا تھا چنانچہ گزشتہ اجلاس میں ہی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دینا چاہیے تھا مگر اعلان کیا کہ اس کی ایک ٹیم پاکستان جائے گی جو وہاں جا کر دیکھے گی کہ کیا پاکستان نے واقعی اس کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے عملی اقدام اٹھائے ہیں کہ نہیں؟

خوش قسمتی سے پاکستان کے تمام متعلقہ اداروں نے اپنا کام انتہائی خلوص کے ساتھ انجام دیا تھا چنانچہ جب ایف اے ٹی ایف کی ٹیم پاکستان آئی تو مکمل مطمئن ہو کر یہاں سے واپس گئی۔

اس کے باوجود بھی بھارت نے اپنے بعض دوستوں کے ذریعے پاکستان کو گرے لسٹ میں مزید رکھنے کے لیے بھاگ دوڑ کی، مگر لگتا ہے امریکا یا کسی یورپی ملک نے اس کی کوئی مدد نہیں کی۔ جس کی وجہ بھارت کی روس نوازی بھی ہو سکتی ہے۔

اب گرے لسٹ سے نکلنا پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے جس سے زوال پذیر معیشت کو سنبھالنے میں بہت مدد مل سکے گی۔ اس سلسلے میں آرمی چیف نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے جی ایچ کیو میں ایک علیحدہ ونگ قائم کیا تھا جو ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرانے کے لیے تمام متعلقہ اداروں سے رابطہ بھی رکھتا تھا اور نگرانی بھی کرتا تھا۔ اس ضمن میں وزارت خارجہ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھی گزشتہ دنوں امریکا جا کر امریکی صدر وزیر خارجہ اور دیگر اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس طرح شہباز حکومت کو یہ بڑی خوشخبری مبارک ہو۔ اب نئے حالات میں انھیں اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کرکے ملک کی معیشت کو جلدازجلد پٹری پر لانے کے لیے کوشش کرنا چاہیے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں