ہمارا سماج انسانوں کو چیزیں بناتا جا رہا ہے
ہم صرف تمہاری ہی وجہ سے چیزیں بن کے رہ گئے ہیں
ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ گزشتہ دو صدیوں کے اندر اخلاقی ترقی ہوئی ہے لیکن حکومتیں بری طرح سے غیر اخلاقی ثابت ہوئی ہیں، چنانچہ اس کے نزدیک دنیا کے مظلوم عوام کے مسائل کا واحد حل یہ ہی ہے کہ ان کے اندر وہ اخلاقی جرأ ت پیدا ہوجائے جس سے وہ ظالموں کے استحصال کا عدم تشدد کے ذریعے مقابلہ کرسکیں۔
وہ کہتا ہے '' یہ دنیا نہ ہنسی مذاق کی جگہ ہے اور نہ دارو رسن کی وادی ہے اور نہ ہی کسی ابدی دنیا کا پیش خیمہ ہے ،ہماری دنیا خود ایک ابدی حقیقت ہے ،یہ دنیا خوبصورت اور دلکش ہے ہمیں اسے زیادہ حسین و دلفریب بنانا چاہیے ان لوگوں کے لیے جو ہمارے ساتھ زندہ ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو ہمارے بعد زندہ رہیں گے۔''
ستمبر 1860 میں انگلستان کے عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز (یا ڈکنس) نے یکایک فیصلہ کیا کہ اسے اپنے ماضی سے تمام رشتے منقطع کر لینا چاہیے اور پھر اس نے اپنے بچوں کی موجودگی میں سارے خطوط اور دوسرے کاغذات نذر آتش کر دییے۔
ڈکنز کو ''زمانہ '' کی اہمیت کا غیر معمولی احساس تھا۔ زندگی کی جدوجہد میں انسانی فطرت کے جو نمونے ڈکنس نے پیش کیے ہیں وہ شکسپیئر کے علاوہ کسی دوسرے انگریزادیب کے یہاں مفقود ہیں۔اس نے انسانی زندگی کے تمام اہم پہلوئوں پر غور وفکر کیا۔ اس کاناول Great Expectation ایسے افراد کی داستان ہے، جنھوں نے خود کو سماج اور روز مرہ زندگی سے قطع تعلق کرکے اپنی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔
Miss Havishamاپنی نامرادیوں اور محرومیوں کا بدلہ سماج سے لینا چاہتی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود تنہا رہ جاتی ہے اور ایذا رسانی اس کی فطرت بن جاتی ہے۔ ڈکنس کے زمانے میں قدیم روایتی قدریں تیزی سے ختم ہورہی تھیں اور لوگ نہ صرف قدیم بستیوں سے اجڑنے لگے تھے بلکہ صنعتی انقلاب اور مشینی تہذیب کے طفیل مرد، عورت اور بچے ''غیر انسان '' ہوتے جارہے تھے، اس ماحول میں انسان محض ''چیز '' بنتا جارہا تھا۔
اس ناول میں کرداروں کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس عجیب و غریب دنیا میں جینے پر مجبور ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے بلکہ خود کلامی کے سہارے زندہ رہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سماجی حالات نے ان کی آواز چھین لی ہے پریشان حال اور پر ا گندہ خیال انسان اپنی چھوٹی سی دنیا الگ بسائے ہوئے ہیں مکانات اپنے اپنے طور بنتے اور گرتے رہتے ہیں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔
ڈکنس اپنے سماج کے گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ '' انسان کے درمیان جنگ زرگری ہی ساری تباہی کی جڑ ہے زرپرستی اور زر کی ہوس نے اگر سماج کے بالا ئی طبقے کو دولت او ر فراغت بخشی ہے تو دوسری جانب غربا کے لیے گھٹن ، تنہائی اور پریشانی کا سامان فراہم کیا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ دولت جمع کرنے کی جدوجہد میں اہل زر بھی محفوظ نہیں رہتے اور خود ان کی زندگی بھی عذاب ہوکر رہ جاتی ہے ۔ شیکسپیئر اپنے ڈرامے King Learمیں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اور اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا۔
سارتر کہتا ہے زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے جب کہ کیرک گرد کہتا تھا '' میں کبھی بھی بچہ نہیں تھا میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا میں کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا۔ زندگی کس قدر کھوکھلی اور لغوہے کوئی کسی کو دفن کرتاہے کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے آخر ستر برس کی عمر کب تک ساتھ دے گی کیوں نہ اس زندگی کا فوری طورپر خاتمہ کردیاجائے کیوں نہ آدمی قبرستان میں ڈیرے ڈال دے کیوں نہ قبر میں گھس جائے۔ ''
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد انسانوں کے یہ ہی احساسات و جذبات ہیں کہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95فیصد انسانوں کی یہ ہی سو چ ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ آج ہم Great Expectationکے کردار نہیں بن کے رہ گئے ہیں کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آج 95 فیصد پاکستانی سارتر کی بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے آج چند سو کو چھوڑ کر کوئی ایک پاکستانی دکھا دو جو دل سے ہنستا ہو جسے کوئی غم نہ ہو کوئی فکر یا پریشانی نہ ہو ۔ جو چین سے سو تا ہے جو پیٹ بھر کے روٹی کھا تا ہو۔
خدا کے واسطے کسی ایک شخص کا پتہ بتادو جوروز اپنی قبر نہ کھودتا ہو جس کے اندر ننگی چیخیں نہ چیختی ہوں جو روز نہ مرتا ہو اور روز نہ جیتا ہو ۔ اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل چاہتا ہے ماتم کرنے کا جی کرتا ہے ۔ جب امیرو کبیر ، محلوں اور اونچے اونچے تختوں پر بیٹھے موٹے موٹے پیٹ والے یہ بکوا س کرتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے، ملک سے غربت کا خاتمہ ہورہا ہے، خو شحالی آرہی ہے ، مہنگائی کم ہورہی ہے لوگوں کا سکون لوٹ رہا ہے ارے کوئی ان اندھوں ، بہروں اور کانوں کو ملک کی گندی اورغلاظت سے بھری بستیاں دکھا دے۔
خون تھوکتے انسان دکھا دے اپنے آپ کو پیٹتی بہنوں ، اور بیٹیوں کو دکھا دے بھوکے سوتے بچوں کو دکھا دے۔ تڑپتی بلکتی سسکتی مائوں کو دکھا دے۔ خدارا کوئی تو اٹھے جوان اندھوں، بہروں اور کانوں کو ملک کی بستیوں میں لے جائے ۔ جہاں انسان تڑپ اور بلک رہے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیروں ، بااختیاروں ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور حکمرانوں تم ہم 95 فیصد انسانوں سے بالکل الگ ہوتم اور ہم کیسے ایک ہوسکتے ہیں جب کہ تم ہمارے غموں ، دکھوں اور تکلیفوں کو محسوس ہی نہیں کرسکتے تم تمہارے جیسے کیسے ہوسکتے ہو۔ تم ہمارے اپنے کیسے ہوسکتے ہو ۔ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت ، افلاس کس بلاکا نام ہیں فاقوں کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔
بیروزگاری کا غم جسم کو کیسے کاٹتا ہے ۔ اپنے جسم سے نکلنے والا خون دیکھ کر کیسے دل تڑپتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور امیدوں کے قتل عام پر کیسے دل روتا ہے ۔ نہیں بالکل نہیں تم اور ہم الگ الگ ہیں اس لیے یہ ڈھکوسلے بازی بند کرو، یہ ڈرامہ بازی اب نہیں چلے گی ،یہ منافقت اب ناقابل برداشت ہوچکی ہے کیونکہ تمہارا پاکستان الگ ہے اور ہمارا پاکستان الگ ہے۔
تمہارے خون کارنگ الگ ہے اورہمارے خون کا رنگ الگ ہے تمہارے جسم الگ ہیں اور ہمارے جسم الگ ہیں ہمارے سارے المیوں ، ساری ذلالتوں ، سارے غموں اور دکھوں کے تم ہی ذمے دار ہو۔ ہم صرف تمہاری ہی وجہ سے چیزیں بن کے رہ گئے ہیں۔
وہ کہتا ہے '' یہ دنیا نہ ہنسی مذاق کی جگہ ہے اور نہ دارو رسن کی وادی ہے اور نہ ہی کسی ابدی دنیا کا پیش خیمہ ہے ،ہماری دنیا خود ایک ابدی حقیقت ہے ،یہ دنیا خوبصورت اور دلکش ہے ہمیں اسے زیادہ حسین و دلفریب بنانا چاہیے ان لوگوں کے لیے جو ہمارے ساتھ زندہ ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو ہمارے بعد زندہ رہیں گے۔''
ستمبر 1860 میں انگلستان کے عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز (یا ڈکنس) نے یکایک فیصلہ کیا کہ اسے اپنے ماضی سے تمام رشتے منقطع کر لینا چاہیے اور پھر اس نے اپنے بچوں کی موجودگی میں سارے خطوط اور دوسرے کاغذات نذر آتش کر دییے۔
ڈکنز کو ''زمانہ '' کی اہمیت کا غیر معمولی احساس تھا۔ زندگی کی جدوجہد میں انسانی فطرت کے جو نمونے ڈکنس نے پیش کیے ہیں وہ شکسپیئر کے علاوہ کسی دوسرے انگریزادیب کے یہاں مفقود ہیں۔اس نے انسانی زندگی کے تمام اہم پہلوئوں پر غور وفکر کیا۔ اس کاناول Great Expectation ایسے افراد کی داستان ہے، جنھوں نے خود کو سماج اور روز مرہ زندگی سے قطع تعلق کرکے اپنی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔
Miss Havishamاپنی نامرادیوں اور محرومیوں کا بدلہ سماج سے لینا چاہتی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود تنہا رہ جاتی ہے اور ایذا رسانی اس کی فطرت بن جاتی ہے۔ ڈکنس کے زمانے میں قدیم روایتی قدریں تیزی سے ختم ہورہی تھیں اور لوگ نہ صرف قدیم بستیوں سے اجڑنے لگے تھے بلکہ صنعتی انقلاب اور مشینی تہذیب کے طفیل مرد، عورت اور بچے ''غیر انسان '' ہوتے جارہے تھے، اس ماحول میں انسان محض ''چیز '' بنتا جارہا تھا۔
اس ناول میں کرداروں کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس عجیب و غریب دنیا میں جینے پر مجبور ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے بلکہ خود کلامی کے سہارے زندہ رہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سماجی حالات نے ان کی آواز چھین لی ہے پریشان حال اور پر ا گندہ خیال انسان اپنی چھوٹی سی دنیا الگ بسائے ہوئے ہیں مکانات اپنے اپنے طور بنتے اور گرتے رہتے ہیں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔
ڈکنس اپنے سماج کے گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ '' انسان کے درمیان جنگ زرگری ہی ساری تباہی کی جڑ ہے زرپرستی اور زر کی ہوس نے اگر سماج کے بالا ئی طبقے کو دولت او ر فراغت بخشی ہے تو دوسری جانب غربا کے لیے گھٹن ، تنہائی اور پریشانی کا سامان فراہم کیا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ دولت جمع کرنے کی جدوجہد میں اہل زر بھی محفوظ نہیں رہتے اور خود ان کی زندگی بھی عذاب ہوکر رہ جاتی ہے ۔ شیکسپیئر اپنے ڈرامے King Learمیں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اور اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا۔
سارتر کہتا ہے زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے جب کہ کیرک گرد کہتا تھا '' میں کبھی بھی بچہ نہیں تھا میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا میں کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا۔ زندگی کس قدر کھوکھلی اور لغوہے کوئی کسی کو دفن کرتاہے کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے آخر ستر برس کی عمر کب تک ساتھ دے گی کیوں نہ اس زندگی کا فوری طورپر خاتمہ کردیاجائے کیوں نہ آدمی قبرستان میں ڈیرے ڈال دے کیوں نہ قبر میں گھس جائے۔ ''
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد انسانوں کے یہ ہی احساسات و جذبات ہیں کہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95فیصد انسانوں کی یہ ہی سو چ ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ آج ہم Great Expectationکے کردار نہیں بن کے رہ گئے ہیں کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آج 95 فیصد پاکستانی سارتر کی بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے آج چند سو کو چھوڑ کر کوئی ایک پاکستانی دکھا دو جو دل سے ہنستا ہو جسے کوئی غم نہ ہو کوئی فکر یا پریشانی نہ ہو ۔ جو چین سے سو تا ہے جو پیٹ بھر کے روٹی کھا تا ہو۔
خدا کے واسطے کسی ایک شخص کا پتہ بتادو جوروز اپنی قبر نہ کھودتا ہو جس کے اندر ننگی چیخیں نہ چیختی ہوں جو روز نہ مرتا ہو اور روز نہ جیتا ہو ۔ اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل چاہتا ہے ماتم کرنے کا جی کرتا ہے ۔ جب امیرو کبیر ، محلوں اور اونچے اونچے تختوں پر بیٹھے موٹے موٹے پیٹ والے یہ بکوا س کرتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے، ملک سے غربت کا خاتمہ ہورہا ہے، خو شحالی آرہی ہے ، مہنگائی کم ہورہی ہے لوگوں کا سکون لوٹ رہا ہے ارے کوئی ان اندھوں ، بہروں اور کانوں کو ملک کی گندی اورغلاظت سے بھری بستیاں دکھا دے۔
خون تھوکتے انسان دکھا دے اپنے آپ کو پیٹتی بہنوں ، اور بیٹیوں کو دکھا دے بھوکے سوتے بچوں کو دکھا دے۔ تڑپتی بلکتی سسکتی مائوں کو دکھا دے۔ خدارا کوئی تو اٹھے جوان اندھوں، بہروں اور کانوں کو ملک کی بستیوں میں لے جائے ۔ جہاں انسان تڑپ اور بلک رہے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیروں ، بااختیاروں ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور حکمرانوں تم ہم 95 فیصد انسانوں سے بالکل الگ ہوتم اور ہم کیسے ایک ہوسکتے ہیں جب کہ تم ہمارے غموں ، دکھوں اور تکلیفوں کو محسوس ہی نہیں کرسکتے تم تمہارے جیسے کیسے ہوسکتے ہو۔ تم ہمارے اپنے کیسے ہوسکتے ہو ۔ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت ، افلاس کس بلاکا نام ہیں فاقوں کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔
بیروزگاری کا غم جسم کو کیسے کاٹتا ہے ۔ اپنے جسم سے نکلنے والا خون دیکھ کر کیسے دل تڑپتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور امیدوں کے قتل عام پر کیسے دل روتا ہے ۔ نہیں بالکل نہیں تم اور ہم الگ الگ ہیں اس لیے یہ ڈھکوسلے بازی بند کرو، یہ ڈرامہ بازی اب نہیں چلے گی ،یہ منافقت اب ناقابل برداشت ہوچکی ہے کیونکہ تمہارا پاکستان الگ ہے اور ہمارا پاکستان الگ ہے۔
تمہارے خون کارنگ الگ ہے اورہمارے خون کا رنگ الگ ہے تمہارے جسم الگ ہیں اور ہمارے جسم الگ ہیں ہمارے سارے المیوں ، ساری ذلالتوں ، سارے غموں اور دکھوں کے تم ہی ذمے دار ہو۔ ہم صرف تمہاری ہی وجہ سے چیزیں بن کے رہ گئے ہیں۔