عمران خان کا لانگ مارچ
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے حامی زیادہ دیر تک اسلام آباد میں خیمہ زن نہیں رہ سکتے۔ ان کا یہ مزاج نہیں ہے
جیسے جیسے نومبر قریب آرہا ہے، سیاسی حلقوں کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی ہیں، یہ اُس وقت تک بڑھتی جائیں گی جب تک ایک اہم تقرری کا اعلان نہیں ہو جاتا۔ اسی اثنا میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے تئیں ''پریشر'' برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
تحریک انصاف ( عمران خان) لانگ مارچ شروع کرچکے ہیں، ن لیگ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مبینہ وطن واپسی کا انتظار کر رہی ہے جب کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مہنگائی کے حوالے سے پریشان ہیں، لیکن وہ اس حوالے سے چپ سادھے ہوئے ہیں۔
اس صورتحال میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار ایک طرف نظر آرہے ہیں، جو ڈالر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، شاید انھی کی کوششوں کی وجہ سے ڈالر 245سے نیچے بل کھاتا ہوا 217پر ٹریڈ ہو رہا ہے بلکہ وہ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے کیسے نمٹنا ہے یہ مجھ پر چھوڑ دیں۔
مطلب! حالات یہ ہیں کہ اب اسحاق ڈار سے بھی کوئی سوال نہ پوچھا جائے کیونکہ وہ بھی معیشت کی دنیا کے ہینڈ سم ہیں، اب وہ آ گئے ہیں اب معیشت کے ہر توڑ کا پکا جوڑ انھی کے پاس ہے ، سارے داغ بھی اب وہی دھو دیں گے ؟
خیر چھوڑیں ! بے کار کی باتوں کو... اصل مدعے کی بات اگر کریں تو وہ ہے عمران خان کا وفاقی حکومت کے خلاف ''لانگ مارچ ''۔ تو صاحبو! مجھے اس بار مئی کے مہینے کے برخلاف لانگ مارچ کا انجام مثبت دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔ جن میں سے پہلی تو یہ کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایوانِ اقتدار سے باہر آنے کے بعد خان صاحب خاصے مقبول ہو گئے ہیں۔
لوگ ان کے جلسوں میں آ رہے ہیں اور جس طرح انھوں نے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اب تک مقبول ہیں، وہ (ن) لیگ جس نے خان کے دور میں 12 ضمنی انتخابات ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ جیتے تھے' اب منقار زیر پر ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔و ہ لاکھ کہتے رہیں کہ یہ سب کچھ سابق حکومت کی غلط پالیسیوں کا شاخسانہ ہے، کوئی ماننے کو تیار نہیں، عوامی نفسیات لمحہ موجود پر یقین رکھتی ہے، ماضی کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتی۔
بین الاقوامی کساد بازاری، کروڈ اور خوردنی تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گندم آٹھ ہزار روپے من پڑ رہی ہے۔رہی سہی کسر حالیہ سیلاب نے نکال دی۔قوم ایک شدید قسم کے اضطراب سے گزر رہی ہے۔ مفلسی تنگدستی نے بھنگڑا ڈال رکھا ہے۔ بیماریاں موت کے پروانے لے کر آرہی ہیں۔
''نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں ''
دوسری طرف رانا ثناء اللہ ہیں اور ان کی بڑھکیں ہیں۔ جواب میں عمران خان کی بڑھکیں ہیں اور کان عوام کے ہیں جو یہ سب سننے پر مجبور ہیں۔ وفاق کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں سے کسی قسم کا تعاون نہیں مل رہا۔ پہلے تو پنجاب سے بھاری نفری حمزہ شہباز کے کہنے پر آگئی تھی مگر اب پنجاب میں پرویز الٰہی بیٹھے ہیں،۔ لہٰذاایسی صورتحال میں وفاقی حکومت کی پریشانی سمجھ میں آنے والی بات ہے؟ ۔ مارچ ،بالفرض اسلام آباد پہنچ گیا تو کیا یہ پرامن رہ سکتا۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے حامی زیادہ دیر تک اسلام آباد میں خیمہ زن نہیں رہ سکتے۔ ان کا یہ مزاج نہیں ہے۔ ان کے کسی ایک مخصوص جگہ بیٹھنے سے حکومت کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ مولانا فضل الرحمن اور خود خان نے پہلے ایسا کر کے دیکھ لیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جو دیکھنے والی ہے ۔
کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا
سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے!
بہرکیف فرانس کے معروف ادیب سارتر نے'' نو ایگزٹ'' کے نام سے ایک ڈرامہ تحریر کیا تھا۔ جس میں تین افراد ایک پراسرار کمرے میں مقفل ہو جاتے ہیں اور تینوں ایک دوسرے کے حوالے سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے گناہ گار ہیں۔ ہمیں بھی بعداز مارچ کچھ ایسی ہی کیفیت لگ رہی ہے۔ لیکن خدارا سیاستدان تیسری قوت کو آواز دینے سے بہتر ہے کہ آپس میں ''گرینڈ ڈائیلاگ'' کریں۔
اس ملک کے عوام کی خاطر ایسا لائحہ عمل بنائیں جس سے لانگ ٹرم پالیسیاں جنم لیں۔ کیوں کہ اگر سیاسی ادارہ مضبوط ہوگا تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کسی کو اقتدار کی ہوس بھی تنگ نہیں کرے گی۔ کیوں کہ یہاں اقتدار کی ہوس اور اس کا نشہ ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ورنہ ہم نے کئی برطانوی وزرائے اعظم کو معزولی کے بعد 10 ڈائوننگ اسٹریٹ سے نکلتے دیکھا ہے۔
ایک ہاتھ میں سوٹ کیس، دوسرے سے بچوں کی اُنگلی تھامے وہ بڑے وقار سے دو سو گز دور کھڑی کھٹارہ سی گاڑی میں بیٹھ کر گوشہ گمنامی میں چلے جاتے ہیں۔ کوئی شور و غوغہ، حال، دہائی نہیں ہوتی۔ کسی اضطراری کیفیت کا اظہار نہیں کیا جاتا ''مجھے کیوں نکالا'' ؟ میرے خلاف سازش ہوئی ہے!'' کا نوحہ بھی نہیں پڑھا جاتا۔بلکہ صاف یہی کہا جاتا ہے کہ یہ سیٹ میرے لائق نہیں تھی اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر تاریخ بھی آپ کو اچھے لفظوں میں یاد کر تی ہے۔ ورنہ ہمارے سیکڑوں سیاستدان وحکمران ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں لکھنا تو دور کی بات اُن کا تو نام بھی کوئی نہیں لیتا!
تحریک انصاف ( عمران خان) لانگ مارچ شروع کرچکے ہیں، ن لیگ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مبینہ وطن واپسی کا انتظار کر رہی ہے جب کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مہنگائی کے حوالے سے پریشان ہیں، لیکن وہ اس حوالے سے چپ سادھے ہوئے ہیں۔
اس صورتحال میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار ایک طرف نظر آرہے ہیں، جو ڈالر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، شاید انھی کی کوششوں کی وجہ سے ڈالر 245سے نیچے بل کھاتا ہوا 217پر ٹریڈ ہو رہا ہے بلکہ وہ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے کیسے نمٹنا ہے یہ مجھ پر چھوڑ دیں۔
مطلب! حالات یہ ہیں کہ اب اسحاق ڈار سے بھی کوئی سوال نہ پوچھا جائے کیونکہ وہ بھی معیشت کی دنیا کے ہینڈ سم ہیں، اب وہ آ گئے ہیں اب معیشت کے ہر توڑ کا پکا جوڑ انھی کے پاس ہے ، سارے داغ بھی اب وہی دھو دیں گے ؟
خیر چھوڑیں ! بے کار کی باتوں کو... اصل مدعے کی بات اگر کریں تو وہ ہے عمران خان کا وفاقی حکومت کے خلاف ''لانگ مارچ ''۔ تو صاحبو! مجھے اس بار مئی کے مہینے کے برخلاف لانگ مارچ کا انجام مثبت دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔ جن میں سے پہلی تو یہ کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایوانِ اقتدار سے باہر آنے کے بعد خان صاحب خاصے مقبول ہو گئے ہیں۔
لوگ ان کے جلسوں میں آ رہے ہیں اور جس طرح انھوں نے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اب تک مقبول ہیں، وہ (ن) لیگ جس نے خان کے دور میں 12 ضمنی انتخابات ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ جیتے تھے' اب منقار زیر پر ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔و ہ لاکھ کہتے رہیں کہ یہ سب کچھ سابق حکومت کی غلط پالیسیوں کا شاخسانہ ہے، کوئی ماننے کو تیار نہیں، عوامی نفسیات لمحہ موجود پر یقین رکھتی ہے، ماضی کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتی۔
بین الاقوامی کساد بازاری، کروڈ اور خوردنی تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گندم آٹھ ہزار روپے من پڑ رہی ہے۔رہی سہی کسر حالیہ سیلاب نے نکال دی۔قوم ایک شدید قسم کے اضطراب سے گزر رہی ہے۔ مفلسی تنگدستی نے بھنگڑا ڈال رکھا ہے۔ بیماریاں موت کے پروانے لے کر آرہی ہیں۔
''نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں ''
دوسری طرف رانا ثناء اللہ ہیں اور ان کی بڑھکیں ہیں۔ جواب میں عمران خان کی بڑھکیں ہیں اور کان عوام کے ہیں جو یہ سب سننے پر مجبور ہیں۔ وفاق کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں سے کسی قسم کا تعاون نہیں مل رہا۔ پہلے تو پنجاب سے بھاری نفری حمزہ شہباز کے کہنے پر آگئی تھی مگر اب پنجاب میں پرویز الٰہی بیٹھے ہیں،۔ لہٰذاایسی صورتحال میں وفاقی حکومت کی پریشانی سمجھ میں آنے والی بات ہے؟ ۔ مارچ ،بالفرض اسلام آباد پہنچ گیا تو کیا یہ پرامن رہ سکتا۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے حامی زیادہ دیر تک اسلام آباد میں خیمہ زن نہیں رہ سکتے۔ ان کا یہ مزاج نہیں ہے۔ ان کے کسی ایک مخصوص جگہ بیٹھنے سے حکومت کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ مولانا فضل الرحمن اور خود خان نے پہلے ایسا کر کے دیکھ لیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جو دیکھنے والی ہے ۔
کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا
سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے!
بہرکیف فرانس کے معروف ادیب سارتر نے'' نو ایگزٹ'' کے نام سے ایک ڈرامہ تحریر کیا تھا۔ جس میں تین افراد ایک پراسرار کمرے میں مقفل ہو جاتے ہیں اور تینوں ایک دوسرے کے حوالے سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے گناہ گار ہیں۔ ہمیں بھی بعداز مارچ کچھ ایسی ہی کیفیت لگ رہی ہے۔ لیکن خدارا سیاستدان تیسری قوت کو آواز دینے سے بہتر ہے کہ آپس میں ''گرینڈ ڈائیلاگ'' کریں۔
اس ملک کے عوام کی خاطر ایسا لائحہ عمل بنائیں جس سے لانگ ٹرم پالیسیاں جنم لیں۔ کیوں کہ اگر سیاسی ادارہ مضبوط ہوگا تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کسی کو اقتدار کی ہوس بھی تنگ نہیں کرے گی۔ کیوں کہ یہاں اقتدار کی ہوس اور اس کا نشہ ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ورنہ ہم نے کئی برطانوی وزرائے اعظم کو معزولی کے بعد 10 ڈائوننگ اسٹریٹ سے نکلتے دیکھا ہے۔
ایک ہاتھ میں سوٹ کیس، دوسرے سے بچوں کی اُنگلی تھامے وہ بڑے وقار سے دو سو گز دور کھڑی کھٹارہ سی گاڑی میں بیٹھ کر گوشہ گمنامی میں چلے جاتے ہیں۔ کوئی شور و غوغہ، حال، دہائی نہیں ہوتی۔ کسی اضطراری کیفیت کا اظہار نہیں کیا جاتا ''مجھے کیوں نکالا'' ؟ میرے خلاف سازش ہوئی ہے!'' کا نوحہ بھی نہیں پڑھا جاتا۔بلکہ صاف یہی کہا جاتا ہے کہ یہ سیٹ میرے لائق نہیں تھی اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر تاریخ بھی آپ کو اچھے لفظوں میں یاد کر تی ہے۔ ورنہ ہمارے سیکڑوں سیاستدان وحکمران ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں لکھنا تو دور کی بات اُن کا تو نام بھی کوئی نہیں لیتا!