فیٹف کی گرے لسٹ سے چھٹکارہ بڑی کامیابیمثبت نتائج نکلیں گے

حکومت و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین معاشیات کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال

حکومت و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین معاشیات کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال تصاویر: ظفر اسلم راجہ

ملک کو درپیش بڑے چیلنجز میں سے ایک مسئلہ فیٹف کی گرے لسٹ میں ہونا تھا جس سے پاکستان نے حال ہی میں چھٹکارہ حاصل کر لیا ہے جو یقینا ایک بڑی کامیابی اور خوشخبری ہے۔

اس اہم پیشرفت کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور ماہرین معاشیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

رانا احسان افضل

(وزیراعظم کے کوآرڈینیٹربرائے کامرس اینڈ انڈسٹری)

فیٹف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلنا بڑی کامیابی ہے۔ ہمارے خلاف بھارت کا زہر آلود من گھڑت بیانیہ عالمی سطح پر مسترد ہوچکا ہے جبکہ دنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے انسداد منی لانڈرنگ اور انسداد ٹیرر فنانسنگ کے حوالے سے قوانین اور ان پر عملدرآمد عالمی معیار مطابق ہے۔

اب ملک میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے سمیت معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور بین الاقوامی تجارت میں آسانی ہوگی جبکہ پاکستان کو بین الاقوامی فنانشل سسٹم تک رسائی میں کسی رکاوٹ کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا ۔

پاکستان کی اقتصادی صورتحال میں بہتری کی رفتار تیز ہونے کے امکانات ہیں اور براہ راست سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ پورٹ فولیو انویسٹمنٹ بھی بڑھے گی اور توقع ہے ملکی سٹاک مارکیٹ میں کاروباری سرگرمیاں تیز ہونگی ، انڈیکس بہتر ہونا شروع ہوگا۔

گرے لسٹ سے نکلنے سے جہاں پاکستان ممکنہ معاشی پابندیوں کے خطرات سے بچ گیا ہے وہیں بین الاقوامی سطح پر ساکھ بھی بہتر ہوگی۔ گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد اب پاکستان کے لئے درآمدات و برآمدات کی نئی راہیں کھلنے کے ساتھ ساتھ ترسیلات زر میں اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان عالمی مارکیٹ میں آسانی سے بانڈز جاری کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلا رکاوٹ قرض حاصل کر سکے گا۔

پاکستان نے منی لانڈرنگ اور ٹیررفنانسنگ کے خطرات پر موثر طریقے سے قابو پا کر عالمی مالیاتی فنڈ کے قرض پروگرام کی اہم شرط بھی پوری کر دی ہے۔ گرے لسٹ سے نکلنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف اور دیگر عالمی ریگولیٹرز کی سخت نگرانی سے نکل گیا ہے۔

پاکستان عالمی مالیاتی اداروں سے مالی روابط بلا خوف جاری رکھے گا۔ تمام بین الاقوامی بینک اور مالی ادارے پاکستان میں اپنا کام جاری رکھیں گے۔جہاں تک آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو ریونیو بڑھانے کیلئے مزید ٹیکس لگانے کی تجویز دینے کا تعلق ہے تو آئی ایم ایف کوئی شرط جبری طور پر لاگو نہیں کرتا ۔

چونکہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں اور آئی ایم ایف نے اقتصادی کارکردگی اور طے کردہ اقتصادی اہداف کا جائزہ لینا ہوتا ہے اس لیے آئی ایم ایف صرف یہ کہتا ہے کہ ملکی معیشت کی بحالی اور ریونیو بڑھانے کیلئے جو اقدامات طے کئے ہیں انہیں پورا کیا جائے۔

ابھی رواں مالی سال 2022-23 کی پہلی سہ ماہی ستمبر میں مکمل ہوچکی ہے اور ابھی بھی آئی ایم ایف کا جو وفد پاکستان آئے گا وہ پاکستان کی سہ ماہی کارکردگی کا جائزہ لینے آئے گا کہ بجٹ میں جو اہداف حکومت نے مقرر کئے تھے وہ حاصل ہوگئے ہیں اور بجٹ میں جو طے کیا تھا اسکے مطابق چل رہے ہیں یا نہیں۔ اب تک کی صورتحال تو تسلی بخش ہے، اقتصادی اہداف پورے ہورہے ہیں۔

رواں مالی سال میں اب تک کی ٹیکس ریونیو کولیکشن بھی ہدف کے مطابق ہے اور اب تک دو کھرب روپے سے زائد ریونیو اکٹھا ہوچکا ہے۔ اسی طرح تجارتی خسارے میں بھی کمی واقع ہورہی ہے اور کرنٹ اکاونٹ خسارے کو بھی کنٹرول میں رکھا گیا ہے اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہدف کے مطابق چل رہا ہے۔ آئی ایم ایف یہ کہتا ہے کہ اگر آپ نے اخراجات زیادہ کرنے ہیں تو اس کیلئے مالی وسائل کا انتظام کیا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں نے ملکی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور سیلاب زدگان کی امداد و تعمیر نو کیلئے بھی بہت زیادہ رقم درکار ہے۔ حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں کمی کرکے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے خرچ کئے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے کرنٹ اکاونٹ خسارے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا ہے۔

لہٰذا ہم پرُ یقین ہیں کہ آئی ایم ایف کو قائل کرلیا جائے گا کہ ہماری فنانشل مینجمنٹ شاندار ہے۔ آئی ایم ایف سے سیلاب کے نقصانات کے باعث نظرثانی کرنے اور رعایت لینے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر آئی ایم ایف پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہوجاتا ہے تو ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کی اگلی قسط ہمیں موصول ہوجائے۔

وزیراعظم میاں شہباز شریف کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں التواء کا شکار پچاس کروڑ ڈالر کے لگ بھگ مالیت کے سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ سے متعلق معاملات کو حل کرنے میں اہم پیشرفت کی گئی ہے۔

سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ سے ہائیڈرو پراجیکٹس اور ہسپتال سمیت دیگر منصوبوں کو فنڈنگ فراہم کی جاتی ہے مگر کچھ وجوہات کی وجہ سے پچھلے چار سال سے یہ فنڈ تعطل کاشکار تھا جسے اب بحال کیا جارہا ہے۔ اگلے چند روز میں وزیراعظم کا متوقع دورہ چین بھی انتہائی اہم ہے ،یہ دورہ درحقیقت سی پیک کی بحالی کا دورہ ثابت ہوگا، نئے معاہدے بھی کیے جائیں گے۔

چین اور سعودی عرب کے ساتھ حکومتی سطح پر تو پہلے سے ہی تعاون جاری ہے اب پاکستان میں نجی شعبہ کے تعاون سے صنعتکاری کے فروغ پر توجہ دی جارہی ہے۔ بدقسمتی سے ملک جب بھی معاشی طور پر بہتر ہونا شروع ہوتا ہے تو اسے سیاسی عدم استحکام سے دوچار کردیا جاتا ہے جس سے نقصان ہوتا ہے۔ ماضی میں جب چینی صدر پاکستان کے دورے پر آرہے تھے تو یہی عمران خان تھے۔

جنہوں نے دھرنا دے رکھا تھا اور آج پھر جب ملک میں بھاری سرمایہ کاری اور معاشی لحاظ سے اہم ڈویلپمنٹ ہونے جارہی ہیں تو عمران خان لانگ مارچ کر رہے ہیں۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے پاکستان کیلئے ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرض فراہم کیا گیا ہے جس سے ملکی ذرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جس سے توقع تھی کہ روپے کی قدر میں دو روپے تک اضافہ ہوگا اور سٹاک مارکیٹ میں بہتری آئے گی لیکن بدقسمتی سے سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کی وجہ سے روپے کی قدر میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی واقع ہوئی ہے اور ملکی سٹاک مارکیٹ میں بھی مندی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔

عمران خان مانتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے مگر تعجب ہے کہ وہ خود سیاسی عدم استحکام پھیلارہے ہیں اور ان کا بیانیہ پہلے ہی غلط ثابت ہوچکا ہے۔

حاجی غلام علی

(نائب صدرسارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے پر ملک کی بائیس کروڑ عوام،موجودہ حکومت اور سابق حکومتوں میں جو بھی فیٹف سے نکلنے کیلئے کردار ادا کرتا رہا ہے سب مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن فیٹف سے نکلنے کا کریڈٹ اور اعزاز موجودہ حکومت کو جاتا ہے جس کے دور میں پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے باہر آیا اور وائٹ لسٹ میں شامل ہوا۔

فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کے ثمرات کو سیاسی عدم استحکام کی نذر ہونے سے بچانا وقت کی اشد اور اہم ترین ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کاکلیدی کردار رہا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور کامیابیاں حاصل کیں۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں براہ راست پاکستان کا سب سے بڑا نقصان ہوا۔


ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی گئیں اور ہمارے مسلح افواج کے جوان اور افسران شہید ہوئے ۔ ہم گرے لسٹ سے نکل چکے، اب آگے کا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ جو قیمت ہم نے چکائی ہے، جو معاشی نقصان ہوا ہے، اب اس کے ازالے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

عالمی سطح پر ہمارا اعتماد بحال ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کیلئے ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرض جاری کر دیا۔ ذرمبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری ہونا شروع ہوئی سٹاک مارکیٹ میں مثبت رجحان شروع ہوا ہے لیکن اس سب کو برقرار رکھنے اور اسکی رفتار تیز کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچانا ہوگا، اگر اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم جلد معاشی بحران سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائیں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف حال ہی میں سعودی عرب کا اہم ترین دورہ کرکے آئے ہیں، ولی عہد سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں، توقع کی جارہی ہے کہ جلد سعودی ولی عہد پاکستان آئیں گے اور ان کے دورے کے دوران اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہوں گے۔

وزیر اعظم آئندہ ماہ چین کا دورہ کریں گے جس میں بڑے معاہدے متوقع ہیں، سی پیک کے اگلے مرحلے کو مکمل آپریشنل اور تیز بنایا جائے گا، چین کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کا امکان بھی موجود ہے، جو ملکی معیشت کیلئے بڑا بریک تھرو ہوگا۔ ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ کا اعلان کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

جب ملکی معیشت انتہائی بری حالت میں تھی اور ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہورہی تھیں تو مشکل وقت پر اتحادی حکومت نے چیلنج قبول کیا جومعیشت کو بحران سے نکالنے کیلئے دن رات کوشاں ہے اور اب جب معیشت بہتری کی طرف جانا شروع ہوئی ہے، عالمی ڈونرز اور ممالک کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا ہے تو پھر سے وہی ماضی والی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، پھر سے احتجاجی سیاست شروع کردی گئی ہے۔

جہاں تک آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان سے چھ سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کیلئے دباؤ ڈالنے اور ٹاسک فورس کے قیام کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی یہ شرط تسلیم کی جاتی ہے تو اس سے مہنگائی بڑھے گی اور عوام کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی، ملکی معیشت پر منفی اثرات پڑیں گے۔

یہ بات درست ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر مبنی معاہدہ کیا جس کے اثرات عوام بھگت رہے ہیں لیکن ہم بطور ایک ذمہ دار ملک و ریاست کے ہمیشہ عالمی معاہدوں کی پاسداری کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جو اقدامات اٹھائے ہیں اس سے معیشت بہتر ہونا شروع ہوئی ہے، ڈالر بھی نیچے آیا ہے اور پوری امید ہے کہ آئی ایم ایف کی جو ٹیم مذاکرات کیلئے پاکستان آئے گی وہ اسے قائل کرلیں گے اور چھ سو ارب روپے نئے ٹیکس لگانے کی نوبت نہیں آئے گی۔

البتہ اس بات سے کوئی انکار نہیں ہے کہ ٹیکس ریونیو بڑھانے کی ضرورت ہے یہ خود ہمارے مفاد میں ہے اور اس کیلئے نئے ٹیکس لگانے اور پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل لوگوں پرٹیکس کی شرح بڑھانے کی بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر خاقان نجیب

(سابق مشیر وزارت خزانہ)

پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں تقریباً ساڑھے چار سال کا عرصہ لگا ہے۔ یہ ایک ایسی فتح ہے جسے اس بات کی مثال کے طور پر منایا جانا چاہیے کہ جب تمام اسٹیک ہولڈرز ایک مشترکہ مقصد کے لیے مل کر کام کرتے ہیں تو ملک سب کچھ حاصل کر سکتا ہے۔

فیٹف نے پاکستان کو 21 اکتوبر کو اپنے مکمل اجلاس کے دوران منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف کام کرنے پر گرے لسٹ سے نکال دیا۔

یہ موجودہ اور پچھلی حکومت کی سیاسی قیادت، متعلقہ اداروں، فوج ، انٹیلی جنس اداروں کے اچھے کوآرڈینیشن سے حاصل ہوا اور موجودہ و گزشتہ حکومتوں کی سیاسی قیادت نے فیٹف ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان نے اپنے انسداد منی لانڈرنگ اور انسداد ٹیررازم فنانسنگ نظام کی تاثیر کو مضبوط کیا ہے اور تکنیکی خامیوں کو دور کیا ہے اور فیٹف ایکشن پلان کے چونتیس نکات پر عملدرآمد مکمل کیا۔

پاکستان کوگرے لسٹ سے ہٹانے سے ایک مثبت بیانیہ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ عالمی برادری کے لیے ایک اچھا اشارہ ہے کہ پاکستان اہم معاملات پر تعاون کے لیے سنجیدہ ہے اور قانون سازی، ضوابط اور ان پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے اہم ہے۔

یہ ترسیلات زر کی آمد کو باقاعدہ بنانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک اور دو طرفہ تعاون پر غور کرتے وقت فیٹف کی شرائط کا جائزہ لازمی لیتے ہیں۔ ستمبر 2022 میں مکمل ہونے والے ساتویں/آٹھویں جائزوں میں آئی ایم ایف نے انسداد بدعنوانی کے اداروں کی تاثیر کو مضبوط بنانے کے حوالے سے دو ساختی معیارات مرتب کئے ہیں جس میں پہلا الیکٹرانک اثاثہ جات کے اعلان کے نظام کے قیام کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب اور ٹاسک فورس قائم کرنا ہے۔

یہ کام وزارت قانون و انصاف اور وزارت خزانہ سمیت عالمی و مقامی سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کیا جائے گا۔ پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن کی چیلنجنگ پوزیشن کے پیش نظر آئی ایم ایف کے ساتھ جاری پروگرام کو مکمل کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں بجٹ میں مقرر کردہ ہدف 850 بلین روپے کے رینیو میں کچھ کمی ہوسکتی ہے اور آئی ایم ایف کے طے کردہ بجٹ خسارے کے ہدف کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے کچھ نئے ٹیکس وصولی کے اقدامات کی ضرورت ہو سکتی ہے۔

ساجد امین

(ماہر معاشیات)

یقینی طور پر فیٹف سے باہر آنا ایک بہت بڑی خبر ہے کیونکہ ہم پچھلے کئی سال سے گرے لسٹ سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے مگر ہر مرتبہ کسی نہ کسی ایک نکتے پر آکر رک جاتے تھے اور بالآخر ہم فیٹف ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد میں کامیاب ہوگئے اور گرے لسٹ سے نکل آئے۔

اس کے ملکی معیشت کو بلواسطہ اور بلا واسطہ بہت سے فوائد ہونگے۔ ایک فائدہ یہ کہ بینکوں سے لین دین بہتر ہوگا اور عالمی بینکوں اور لینڈرز کے ساتھ پوزیشن بہتر ہو گی اور بانڈ مارکیٹ بہتر ہوجائے گی۔

بین الاقوامی سطح پر ٹرانزیکشنز میں بہتری آئے گی، ٹرانزیکشن کی لاگت میں بھی کمی واقع ہوگی جو کسی بھی معیشت کیلئے بہتر ہوتا ہے مگر یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان کو فیٹف ایکشن پلان پر عملدرآمد کرتے وقت جو اقدامات اٹھائے گئے تھے اور اصلاحات شروع کی گئی تھیں، انہیں جاری رکھنا ہوگا بلکہ انہیں مزید مضبوط بناناہوگا۔ہمیں ٹھوس شواہد کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ بیٹھنے کی اور پروگرام پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے اب آئی ایم ایف کی شرائط اور اہداف حقیقت پسندانہ نہیں رہے ہیں ۔

عالمی بینک سمیت دیگر عالمی ڈونرز پر مشتمل کمیٹی کی طرف سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے چالیس ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان ہوا ہے اور اگر ہم اس چالیس ارب ڈالر کے نقصان کے تخمینے کو ہی لیں تو یہ پچھلے سال کے جی ڈی پی کا دس فیصد ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ ٹیکس وصولیوں سمیت دیگر اہداف میں دس سے پندرہ فیصد کمی کرنی چاہیے۔ آئی ایم ایف کے قائل ہونے کے بعد ان سے جو رقم بچے گی اسے ملک کے پسماندہ اور غریب ترین طبقوں کو سہولت دینے اور ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کیلئے استعمال میں لانا چاہیے۔

اس لئے متوازن اپروچ کے ساتھ آئی ایم ایف سے مذاکرات کی ضرورت ہے جس کیلئے وزیر خزانہ ا سحاق ڈار اور انکی ٹیم یقینی طور پر کام کررہی ہے۔جہاں تک وزیراعظم کے سعودی عرب کے دورے کا تعلق ہے تومیرے نزدیک اب فرینڈلی کیش ڈیپازٹ اور ادھار پر تیل لینے کی بجائے سرمایہ کاری پر توجہ ہونی چاہیے، اس حوالے سے اچھی خبریں آرہی ہیں۔ فرینڈلی کیش ڈیپاذٹ بحران میں ہماری ضرورت ضرورہوتی ہے مگر طویل المیعاد ترقی کیلئے سرمایہ کاری مفید ہوتی ہے۔

جس طرح ہم نے سی پیک اور چین کے ساتھ معاملات کو رکھا، اس طرح ہم نے گلف ممالک سے سرمایہ کاری لانے پر فوکس نہیں کیا جبکہ انڈیا تو قطر،یو اے ای اور سعودی عرب کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے کرتا ہے، ہمیں بھی سرمایہ کاری لانے پر کام کرنا ہوگا۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کے حالیہ دورے میں آئل سیکٹر،پٹرولیم سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری پر توجہ دینا خوش آئند ہے،ان کا دورہ چین بھی انتہائی اہم ہوگا۔
Load Next Story