موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات

مصر میںCOP27 موسمیاتی سربراہی اجلاس کے آغاز سے چند دن قبل ایک بین الاقوامی تحقیقی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ عالمی سطح پر کی گئی یہ تحقیق خاصی اہمیت کی حامل ہے۔

مصر میں ہونے والے موسمیاتی سربراہی اجلاس میں موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار بننے والے ممالک کو معاوضے اور امداد پر غور کیا جائے گا۔ بین الاقوامی تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہیٹ ویوز سے 20 برسوں میں عالمی معیشت کو 16000ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

ہیٹ ویو نے گزشتہ 30 برسوں کے دوران عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے اور سب سے زیادہ نقصان غریب ملکوں کا ہورہا ہے۔ عالمی تحقیق کے مطابق1992 سے2013 کے درمیان ہیٹ ویو کے باعث عالمی معیشت کو تقریبا 16 ٹریلین ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی کے اثرات ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام نے اس کا مشاہدہ حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی غیرمعمولی تباہی سے کیا ہے۔

دنیا کے دیگر غریب اور ترقی پذیر ملکوں کے حالات بھی اسی طرح خراب ہیں خاص طور پر براعظم افریقہ میں مالی' نائجر اور موریطانیہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے شدید مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق بین الاقوامی تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری میں شامل ماہرین نے ہر سال کسی مخصوص علاقے کے لیے انتہائی گرم سمجھے جانے والے پانچ دنوں کے موسم کا جائزہ لیا ہے۔

کرہ ارض پر حدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں' سمندر کے پانیوں کی سطح بلند ہو رہی ہے' جس کی وجہ سے زمین پر صحرائی رقبہ بڑھ رہا ہے جب کہ بارشوں میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے سیلابی پانی ماضی کی نسبت بہت زیادہ تباہی پھیلا رہا ہے۔

عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ ہیٹ ویو سے امیر ترین ممالک کو بھی اپنی سالانہ فی کس جی ڈی پی کا تقریبا1.5 فیصد نقصان ہوا ہے جب کہ غریب ممالک کا نقصان6.7 فیصد ہے۔غریب ممالک کو زیادہ نقصان پہنچنے کی وجہ یہ ہے کہ تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر ممالک ان علاقوں میں واقع ہیں۔

جہاں کا موسم پہلے ہی گرم ہے اور ہیٹ ویوز کی وجہ سے یہاں کا درجہ حرارت مزید بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان ایسے ہی ملکوں میں شامل ہے۔ پاکستان میں بلوچستان' سندھ اور جنوبی پنجاب میں شدید گرمی پڑتی ہے اور گرم موسم کا دورانیہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

امریکا کے ڈارتھ ماتھ کالج سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جسٹن مانکن نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی سے شدید گرمی کی قیمت ان ممالک اور خطوں نے برداشت کی ہے جو گلوبل وارمنگ کے لیے سب سے کم ذمے دار ہیں اور یہی سب سے بڑا سانحہ ہے۔

پروفیسر جسٹن مانکن نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی عالمی پیمانے پر معاشی عدم مساوات بڑھا رہی ہے۔ ہمیں اب خود کو موجودہ آب و ہوا کے مطابق ڈھالنے اور ہمیں کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کی ضرورت ہے۔ مصر میں کانفرنس آف پارٹیز(کوپ 27) سربراہی اجلاس پاکستان کے لیے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔

اس اجلاس میں پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان شریک ہوں گی۔ کوپ کانفرنس میں پاکستان کے مطالبات پیش ہوں گے۔ 197 ممالک مصر میں موسمیاتی سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس لیے پاکستان کو اس کانفرنس میں اپنا موقف پوری تیاری کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔

پاکستان کی معیشت انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہے۔ پاکستان کو اس وقت عالمی سطح پر اپنا موقف پیش کر کے اپنی پوزیشن کو واضح کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کو عالمی قرضوں میں رعایت مل سکے اور اس کے ساتھ ساتھ امیر ملکوں کی جانب سے مالی امداد بھی مل سکے۔ پاکستان اس وقت مالیاتی بحران کا شکار ہے۔

موجودہ حکومت کے آنے کے بعد پاکستان کو معاشی اور خارجہ امور کے محاذ پر کچھ کامیابی ملی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بہتر ہوئے ہیں' فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں شامل کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے سخت محنت اور عالمی توازن کی ضرورت ہے۔


پاکستان کی حکومت اندرونی طور پر مالیاتی کنٹرول کو بہتر کر رہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق حکومت نے ڈالر کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر اور بلاجواز خریداری کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کرلیا ہے۔

خبر کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز کمرشل بینکوں کے سی ای اوز اور ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے نمایندوں کے اجلاسوں کی صدارت کی ہے، اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک اور معاون خصوصی برائے ریونیو بھی موجود تھے۔

اجلاس میں شریک ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل کے حوالے سے خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیر خزانہ کا موقف ہے کہ ڈالر کی حقیقی قیمت 180روپے سے 200 روپے ہے، معاشی حالات بہتر ہورہے ہیں لہٰذا دنوں اور ہفتوں میں ڈالر کمزور اور روپیہ تگڑا ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ وزیر خزانہ نے اجلاس میں واضح طور پر کہہ دیاہے کہ جو بینک یا کرنسی ڈیلر بھی ڈالر کی خریداری، ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہوگا اسے کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا اور اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

وزیرخزانہ کاکہنا تھا کہ ان کی اولین ترجیح معاشی صورتحال کو بہتر کرنا ہے، معاشی صورتحال بہتر ہونے کے بعد دیگر مسائل پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اجلاس میں وزیر خزانہ کو بتایا گیا کہ ڈالر افغانستان جانے سے ماہانہ دو ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔

ہفتے کو افغانستان میں ڈالر237روپے کا فروخت ہوا جب کہ پاکستان میں جمعے کو ڈالر کا انٹربینک ریٹ222روپے تھا، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ حوالہ ہنڈی کا کام کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا،انھوں نے کہا ہے کہ ملکی معیشت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

مالی صورت حال مکمل طور پر مضبوط ہے اور حکومت اپنے مقامی اور بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔

دورہ امریکا کے دوران بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں اور حکومت کی طرف سے بہت مثبت جواب ملا ہے۔شہباز شریف کا حالیہ دورہ سعودی عرب بھی انتہائی کامیاب رہا۔ انھوں نے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس اور مارکیٹ کے اعتماد کو بڑھانے اور بہتر بنانے کے لیے مختلف تجاویز بھی دیں۔

پاکستان کو مالیاتی ڈسپلن کی اشد ضرورت ہے' ملکی معیشت اور مالیاتی شعبے کو نگرانی کے بغیر ریگولرائز کرنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان سخت مالیاتی ڈسپلن قائم کر کے مالی مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔

افغانستان کی نرم سرحد پاکستانی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔وفاقی حکومت اور اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو پاک افغان سرحد کے ذریعے ہونے والی غیر قانونی تجارت کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت ضرور ہونی چاہیے لیکن یہ تجارت مسلمہ بین الاقوامی اصولوں اور قانون کے مطابق ہونی چاہیے تاکہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیرف وغیرہ کی مد میں دونوں ملکوں کی حکومتوں کو مالی فائدہ پہنچے۔

اس طریقے سے غیر قانونی تجارت کا بھی خاتمہ ہو گا اور کالے دھن پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔ ادھر اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی(جولائی تا ستمبر 2022)کے دوران قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی پرچھ بینکوں پرمجموعی طور پر 29 کروڑ 3لاکھ 63 ہزار روپے کے جرمانے عائد کیے ہیں۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ بینکوں کے ریگولیٹری قواعد و ضوابط میں کوتاہی پائی گئی ہے۔

پاکستان کے پاس پوٹینشل موجود ہے' اگر پاکستان کی حکومت اپنی پالیسیوں کو نقائص سے پاک کرے اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائے تو ملکی معیشت کو بحران سے نکالنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پاکستان کو افغانستان اور ایران کی سرحد کے ساتھ تجارت کو ضوابط اور قانون کا پابند بنانا چاہیے۔

غیرقانونی تجارت پاکستان کی معیشت کے لیے ہی تباہ کن نہیں ہے بلکہ افغانستان کی معیشت بھی تباہ ہورہی ہے۔ افغانستان کی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سرحدی کنٹرول کو سخت کرے تاکہ انھیں بھی ٹیکسوں کی مد میں خطیر رقم مل سکے۔

اس وقت افغانستان اور ایران کی سرحد کے ذریعے اربوں روپے کی تجارت ہورہی ہے لیکن اس کا زیادہ تر حصہ غیرقانونی تجارت پر مشتمل ہے۔ جس کا فائدہ نہ پاکستان کو ہے اور نہ ہی افغانستان اور ایران کو ہے۔ لہٰذا اس غیرقانونی تجارت کا خاتمہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔
Load Next Story