سیاسی مقدمے


Muhammad Saeed Arain October 31, 2022
[email protected]

سابق وزیر اعظم عدالتوں سے اپنے ان سیاسی مخالفین کی بریت پر سخت برہم ہیں جنھیں وہ اپنی سیاست میں چور ، ڈاکو قرار دیتے آئے تھے اور اقتدار میں آ کر انھوں نے اپنے کسی سیاسی مخالف کو نہیں بخشا سب کو گرفتار کرایا۔

احتساب کے نام پر سب پر مقدمات بنوائے اور سالوں سے ان پر الزامات لگاتے آئے جو مہینوں سالوں جیلوں میں قید رہے۔ عدالتوں میں سالوں حاضریاں بھگتتے رہے۔

بعض کو ایسے مقدمات میں ملوث کرایا جن میں ثابت ہو جانے پر سزائے موت ہو سکتی تھی جن میں اس وقت کے رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ بھی شامل تھے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی اپنے مخالفین پر مشیر احتساب شہزاد اکبر، نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے سابق صدر آصف زرداری، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سابق وزرا احسن اقبال، خورشید شاہ، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی، خواجہ آصف و دیگر بلکہ اچھی شہرت کے حامل سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت اپنے مخالف خواتین رہنماؤں مریم نواز، فریال تالپور اور اچھی شہرت کے قابل سرکاری افسران کو بھی جیلوں میں ڈلوا دیا تھا۔

عمران خان نے اپنے ان محسنوں کو بھی نہیں بخشا تھا جو انھیں اقتدار میں لائے تھے صرف ایک خوش نصیب تھا جسے پنجاب کا اسپیکر بنایا پھر اقتدار بچانے کے لیے اپنے وسیم اختر پلس کو قربان کرکے اقتدار کے کھیل میں محض چند نشستوں کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب تک بنوا دیا۔

عمران خان پونے 4 سال کہتے رہے کہ این آر او نہیں دوں گا مگر انھوں نے این آر او مانگنے والے کسی ایک کا نام اس لیے نہیں بتایا کہ کسی نے بھی این آر او نہیں مانگا تھا۔

عمران حکومت میں گرفتار کیے گئے تمام اپوزیشن رہنما ان ہی کی حکومت میں عدالتوں سے ثبوت نہ ملنے پر ضمانت پر رہا ہوتے رہے مگر عمران خان خاموش رہے اور اب جب ہائی کورٹ اور متعلقہ عدالتوں سے مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز بے گناہ قرار پا کر بری ہوگئے تو عمران خان نے الزام لگانے شروع کر دیے ۔

عمران خان کی حکومت میں ہی ان کے مخالف تمام سیاسی مخالفین ضمانت پر رہا ہونا شروع ہوگئے تھے کیونکہ وہ تمام مقدمات سیاسی انتقام کے لیے بنائے گئے تھے اور مبینہ چور ڈاکوؤں پر نیب کی طرف سے عائد کیے گئے الزامات کے ثبوت احتساب عدالتوں میں پیش نہیں کیے گئے تھے اور صرف سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نگران حکومت میں عام انتخابات سے قبل نااہلی کی سزا دے کر ہٹایا گیا تھا اور یہ اقدام ان کی کسی کرپشن پر نہیں بلکہ پاناما میں ان کا نام شامل نہ ہونے پر دبئی کے اقامہ پر تھا کہ انھوں نے اپنے بیٹے سے مقررہ تنخواہ کیوں وصول نہیں کی تھی۔ احتساب عدالت سے نواز شریف کو نااہلی کے بعد دس سال کی سزا ہوئی تھی۔

اس کیس میں مریم نواز شریف اور ان کے شوہر کو جس طرح سزا دلائی گئی تھی وہ تمام حقائق سامنے آ چکے ہیں۔ ایک احتساب جج کی مبینہ وڈیو بھی سامنے آ چکی ہیں جن میں سزا دلائے جانے کی تفصیلات تھیں۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی اور داماد کو جس کیس میں سزا دی گئی تھی اپیل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اب شہباز شریف دور میں ثبوت نہ ملنے پر بری کر دیا ہے اور نواز شریف کی اپیل زیر سماعت ہے۔

حال ہی میں ایف آئی اے نے عمران حکومت میں منی لانڈرنگ کے کیس شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر بنائے تھے اور دونوں کو گرفتار کرکے قید رکھا تھا اور دونوں عمران خان دور میں ضمانت پر رہا ہوگئے تھے۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد عدالت نے حال ہی میں دونوں کو ثبوت نہ ملنے پر بری کردیا ہے جس پر عمران خان سخت ناراض ہیں۔ اپوزیشن کے تمام گرفتار رہنما پی ٹی آئی حکومت میں ہی ضمانت پر رہا ہوئے تھے جن میں مخصوص کے سوا کسی کی ضمانت کے خلاف اپیل نہیں کی گئی تھی۔

ثبوت نہ ملنے پر رہا ہونے والوں میں شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز، احسن اقبال اور کیپٹن صفدر موجودہ حکومت میں بری ہوئے۔ اسحاق ڈار واپس آئے جس کو عمران خان این آر او ٹو قرار دے کر اب برہم ہیں اور ان عدالتی فیصلوں پر بیانات بھی دے چکے ہیں ، جس پر کیپٹن صفدر نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی ہائی کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔

موجودہ حکومت میں (ن) لیگ کے 5 رہنماؤں کی بریت ہوئی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف سمیت عمران خان کے مخالف سیاسی رہنما اب بھی عدالتوں میں دیگر مقدمات میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔

نواز شریف جب وزیر اعظم تھے اور اب شہباز شریف وزیر اعظم ہیں اور اپنے وزیر اعظم بھائی کی طرح عدالتوں میں حاضر ہو رہے ہیں جب کہ وزیر اعظم عمران خان پر اقتدار میں کوئی کیس بنا ہی نہیں بلکہ وہ اور صدر عارف علوی 2014 کے اسلام آباد دھرنے میں بنائے مقدمات میں باعزت بری اپنی ہی حکومت میں ہوئے تھے۔

عمران خان جن پر الزامات لگاتے رہے ہیں وہ عمران خان کے اقتدار میں طویل عرصہ قید میں رہے اور کسی کو سزا نہیں ہوئی تھی اور وہ ضمانتوں پر رہائی کے بعد اس لیے باہر آگئے تھے کہ نیب کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں نیب کو ججوں کے سخت ترین ریمارکس کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

عمران خان نے سیاسی مخالفین کے خلاف کرپشن کا جو بیانیہ بنایا وہ نہایت کامیاب رہا حالانکہ کسی عدالت نے اس کی تصدیق نہیں کی مگر عمران خان کے حامی اسے درست سمجھتے ہیں اور اس درستگی کے ذمے دار وہ ''کرپٹ'' ہیں جنھوں نے اپنے مقدمات کی سماعتوں کے درمیان کسی بھی عدالت میں درخواست نہیں دی کہ عمران خان کو مقدمات کے فیصلوں تک حکم امتناعی دے کر انھیں الزامات لگانے سے روکا جائے۔

عمران خان کے مخالفین صرف عدالتی فیصلوں کے منتظر ہیں جہاں ان کے مقدمات سالوں سے فیصلے کے منتظر ہیں اور طوالت کے باعث تاریخ پہ تاریخ پڑ رہی ہے کیونکہ کوئی عدالت فیصلہ جلد کرنے کی پابند نہیں ہے ۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اگران کے سیاسی مخالفین کو سزائیں ہو جاتیں تو یہ سیاستدان جیلوں میں اور وہ خود اب تک اقتدار میں ہوتے اور اقتدار طویل ہو سکتا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں