لاہور کے باغات چڑیا گھروں اور تفریح گاہوں میں ٹھیکیدار مافیا کا راج

بعض جگہوں پر حکومتی ادارے بھی ان ٹھیکیداروں کے سامنے بے بس نظرآتے ہیں

—فائل فوٹو

پارک، چڑیا گھر اورتفریح گاہیں شہریوں کی سہولت کے لیے بنائے گئے تفریح مقامات ٹھیکیدارمافیا کی نذر ہوگئے ہیں جہاں وہ کھانے پینے کی اشیا، پارکنگ اور بچوں کے جھولوں سمیت رائیڈ سروس کے ٹکٹس پر زائد وصولی کررہے ہیں۔

علاوہ ازیں بعض جگہوں پر حکومتی ادارے بھی ان ٹھیکیداروں کے سامنے بے بس نظرآتے ہیں، لاہورچڑیا گھرمیں گزشتہ برس پارکنگ کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی کو تقریباً سوا کروڑ روپے میں دیا گیا تھا لیکن رواں سال پارکنگ کی نیلامی میں کوئی کمپنی شریک نہیں ہوئی، ٹھیکیداروں نے ملی بھگت سے ریزورپرائس سے بھی کم کی بولی لگائی جس پرانتطامیہ کو مجبوراً نیلامی منسوخ کرنا پڑی۔ اسی طرح کینٹین کا ٹھیکہ بھی کئی برس سے ایک ہی ٹھیکیدارکے پاس ہے۔

ایکسپریس ''ٹربیون'' کی تحقیق کے مطابق زیادہ ترپارکس اورتفریح مقامات میں فوٹوگرافی کا ٹھیکہ ایک ہی کمپنی کے پاس ہے۔ اسی طرح بچوں کے جھولوں، بگھی رائیڈ، گھڑسواری کے ٹھیکے بھی چند ٹھیکیداروں نے باہمی ملی بھگت سے حاصل کررکھے ہیں۔ یہ لوگ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں بھی اپنی مرضی سے مقررکرتے ہیں اورپھرپارک انتظامیہ کی ملی بھگت سے وہ ریٹ منظورکروالئے جاتے ہیں۔ ان ریٹس کی منظوری ہرپارک کی انتظامی کمیٹی یا بورڈ دیتا ہے جبکہ قیمتیوں کے تعین کا طریقہ کاربھی منفرد ہے۔
پنجاب وائلڈلائف کے سابق ڈائریکٹرچوہدری شفقت علی نے بتایا پنجاب پرکیومنٹ رولز کی وجہ سے ٹھیکھوں کی نیلامی کا طریقہ کارشفاف ہوگیا ہے، پارکوں اورتفریحی مقامات میں دو طرح کے ٹھیکے ہوتے ہیں،ایک مختلف اشیا کی خریداری کے لیے اوردوسرے پارکنگ، ٹکٹ، جھولوں ،کینٹین وغیرہ کے لیے دیے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ خریداری کے لئے ایسے ٹھیکیدارکو ترجیح دی جاتی ہے جوسب سے کم ریٹ دیتا ہے جبکہ پارکنگ، کینٹین وغیرہ کے ٹھیکے ان کودیئے جاتے ہیں جو نیلامی میں سب سے زیادہ پیش کش کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات ٹھیکیدارآپس میں مل کربھی ایک دوسرے کو ریلیف دیتے ہیں۔ وہ نیلامی میں شریک ہوتے ہیں لیکن جس ٹھیکیدارکوکامیاب کرواناچاہیں اس کے مقابلے میں کم پیش کش کرتے ہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ آپس میں سمجھوتا کرلیتے ہیں۔ چوہدری شفقت علی نے بتایا ٹھیکیداروں نے جب کسی نئے ٹھیکدارکو ناکام کرناہوتا ہے تو منفی مقابلہ بھی شروع کردیتے ہیں۔ انہوں نے بہاولپورچڑیاگھرکی مثال دی کہ وہاں جانوروں کے لیے گوشت کی خریداری کے لئے نیلامی میں فی کلوریٹ 178 روپے تھا مگر نئے ٹھیکے میں ٹھیکدارنے صرف 78 روپے کلومیں گوشت دینے کی پیش کش کردی، ہم نے وہ نیلامی منسوخ کرناپڑی، دوبارہ نیلامی میں ایک اورٹھیکیدارنے 38 روپے کلومیں گوشت دینے کا پیش کش کردی حالانکہ مارکیٹ میں گوشت کا ریٹ اس سے کئی گنازیادہ تھا۔

''ایکسپریس ٹربیون'' کی معلومات کے مطابق لاہورکے وائلڈ لائف سفاری پارک میں الیکٹرانکس جھولوں کی سروسزفراہم کرنیوالی نجی کمپنی کے شہرمیں ایک اورجگہ پربھی یہ سروسزفراہم کررہی ہے لیکن دونوں جگہوں کے ٹکٹوں کے ریٹس میں نمایاں فرق ہے۔ ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے لاہورکے معروف پارک میں کینٹین چلانے والے ٹھیکیدار محمداشرف نے بتایا '' یہ بات درست ہے کہ پارکوں میں کھانے پینے کی اشیا کے ریٹ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ہوتے ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں ،جس کی بڑی وجہ نیلامی کابہت زیادہ ریٹ ہے۔

پارکس اینڈہارٹیکلچراتھارٹی کے ترجمان حافظ حسن نے بتایا کہ '' تمام ٹھیکے حکومت کی طرف سے مقررہ ٹی اوآرز کوسامنے رکھ کردیئے جاتے ہیں، اوپن نیلامی ہوتی ہے اورسب سے زیادہ پیش کش کرنے والے کو ٹھیکہ دے دیاجاتا ہے۔ بعض اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ ایک سے زائد ٹھیکدارمل کر ٹھیکہ دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ادارہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کس پیش کش سے زیادہ فائدہ ہے اسے ٹھیکہ دے دیاجاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ٹھیکے کی نیلامی کے خلاف کسی ٹھیکیدار کو اعتراض ہوتا ہے تواس کا بھی طریقہ کارہے، وہ مجازکمیٹی کو اعتراض جمع کرواسکتا ہے۔

ماہرعمرانیات ڈاکٹرزینب کہتی ہیں کہ سرکاری محکموں میں ٹھیکیداری سسٹم کام ہی کچھ لو، کچھ دوکی بنیاد پرچل رہا ہے، ٹھیکیداروں اورانتظامیہ کی ملی بھگت کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے چاہے وہ کھانے پینے کی اشیا کے ریٹ اورکوالٹی ہویاپھردیگرسروسز،چیک اینڈبیلنس کا کوئی منظم طریقہ کارنہیں ہے۔
Load Next Story