خدارا ملک پر ترس کھائیں

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سیاست برائے ریاست کو چھوڑ کر ریاست برائے سیاست کی غلط روش پر عمل پیرا ہیں


Shakeel Farooqi November 01, 2022
[email protected]

ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے پاکستان کو بنتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور بدقسمتی سے ٹوٹتے ہوئے بھی دیکھاہے۔ پاکستان کس طرح اور کن ناقابل فراموش قربانیوں کے بعد معرضِ وجود میں آیا۔

یہ کل کی سی بات ہے، ہم 1947کے فرقہ وارانہ فساد کے بھی شاہد ہیں جن میں مشرقی پنجاب، دہلی، یوپی، بِہار، بنگال اور غیر منقسم حصوں میں قیامِ پاکستان کی پاداش میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح سے کاٹا گیا۔ ہنستے بستے گھر اور خاندان کے خاندان اجاڑ دیے گئے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سیاست برائے ریاست کو چھوڑ کر ریاست برائے سیاست کی غلط روش پر عمل پیرا ہیں جس کاواحد مقصد کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا ہے۔اِسی روش نے ہمارے مشرقی بازو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کاٹ کرجدا کردیا اور ہم ہیں کہ اِسے فراموش کرکے آج بھی وہی گھناؤنا کھیل، کھیل رہے ہیں۔

عالم یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کبھی اِس وطن عزیز کا ایک اور بازو ہوا کرتا تھا جس کانام مشرقی پاکستان تھا اور جو اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔ ہمارا معمول یہ ہے کہ ہر سال دسمبر کی 16 تاریخ کوزندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نئی نسل کے لوگوں سے یہ معلوم کرتے ہیں کہ آج کے دن کیا ہوا تھا۔

اس کا جواب ہمیں اکثریت سے یہ ملتا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم البتہ گزشتہ سال چند نوجوانوں نے اس تاریخ کے حوالے سے صرف اتنا بتایا تھا کہ اس روز سانحہ پشاور پیش آیا تھا۔اس میں نوجوانوں کا کوئی قصور نہیں۔ سارا قصور ہم عمر رسیدہ لوگوں کا ہے۔

جنھوں نے یہ زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ نئی نسل کو پاکستان کی تاریخ بتائی جائے۔یہ ہے ہماری قوم کا حال جو پاکستان کا کھا رہی ہے اور جسے پاکستان کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں اُن کاجغرافیہ بدل جاتا ہے۔

ہمارا حال یہی ہے کہ ایک ٹھوکر کھانے کے باوجود ہم نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا۔ ہمارا دشمن مسلسل ہماری گھات میں ہے اور ہم سیاست کے لڑائی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں اور فروعی اختلافات کو اپنا مشغلہ بنائے ہوئے ہیں۔ہمارا حال یہ ہے کہ مسلم ممالک نے بھارت سے نہ صرف اپنے تجارتی اور سفارتی تعلقات کو برقرار رکھا ہوا ہے بلکہ اپنی سرزمین پر مندر تعمیر کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔

خلیجی ریاستوں میں نہ صرف ہندوؤں کی ایک بہت بڑی تعداد نہ صرف برسرِ روزگار ہے اور بے تحاشہ زرِ مبادلہ کماکما کر اپنے دیش کو بھیج رہی ہے بلکہ پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کے لوگوں پر ہندوؤں کو ترجیح دی جارہی ہے۔ہمارا ماننا یہ ہے کہ اگر یہ ریاستیں اسلامی بھائی چارے کے نام پر محض بھارت کو تجارتی تعلقات ختم کرنے کی صرف دھمکی ہی دے دیں تو نہ صرف بھارتی مسلمانوں کا جینا آسان ہوجائے گا بلکہ پاکستان کے لیے سوہان روح بنا ہوا مسئلہ کشمیر بھی حل ہوجائے گا۔

وطن عزیز کی سلامتی اور سالمیت کا تقاضہ ہے کہ تمام اختلافات کو بھول کر قومی یکجہتی کو فروغ دیا جائے اور ہر قسم کے اختلافات کو ختم کرکے وطن عزیز کا تحفظ کیاجائے۔

کوئی بعید نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں باہمی چپقلش کو ہوا دے کر دشمن اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اختلافِ رائے جمہوریت کی روح اور حسن ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے سیاستدان پارلیمانی آداب کو بالائے طاق رکھ کر ذاتیات اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر اُتر آئے ہیں اور نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ بازاری زبان استعمال کرکے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرکے جگ ہنسائی کر رہے ہیں۔

وطن عزیز مسائل گرفتہ ہے اور قومی مفاد کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنی توانائیاں منفی رویہ چھوڑ کر قوم اور وطن کے مفاد میں بروئے کار لائی جائیں تاکہ ملک کو معاشی دلدل سے نکال کر تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔ایسا نہ کرنا ملک و قوم کے لیے زہر قاتل ہوگااور وطن عزیز کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا۔ہماری تمام سیاسی قائدین سے صرف یہی اپیل ہے کہ خدارا ملک و قوم پر ترس کھائیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔