سماجی خدمات میں اہم نام یا کام

عوام کی حقیقی خدمت کرنے والے سیاست سے دور رہتے ہیں اور ایدھی کی طرح ان کا نام زندہ رہتا ہے

m_saeedarain@hotmail.com

حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں میں متاثرین کی حقیقی خدمات انجام دینے والوں میں بعض بڑے سماجی و فلاحی اداروں نے وہ خدمات انجام دیں جو ملک کی کوئی بھی ایک صوبائی حکومت نہیں کرسکی حالانکہ ان کے پاس لاتعداد سرکاری وسائل اور عملہ موجود تھا مگر پاکستان کی تینوں افواج، غیر سرکاری فلاحی بڑے ادارے الخدمت، اخوت، ایدھی، چھیپا، سیلانی، جے ڈی سی، انجمن آرائیاں سندھ اور چند دوسری تنظیموں کے سوا کوئی بھی سیلاب متاثرین کی مدد کرتا نظر نہیں آیا۔

تحریک لبیک، جماعت اسلامی اور جے یو آئی مذہبی اور سیاسی جماعتیں ہیں جن کے فلاحی ادارے ہیں۔ ایم کیو ایم کا فلاحی ادارہ ''خدمت خلق فاؤنڈیشن '' ہوا کرتا تھا جو ان کے باہمی انتشار کے باعث محدود ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی فلاحی خدمات شوکت خانم اسپتال اور نمل کے نام سے منسوب تعلیمی اداروں تک محدود ہے۔ عمران خان نے اپنی والدہ کے نام سے جو اسپتال بنائے یا بن رہے ہیں۔

ان میں ان کا ذاتی عطیہ برائے نام ہے۔ انھوں نے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے بڑی تعداد میں عطیات جمع کیے اور عطیات جمع کرنے کی مہم میں ملک کے مشہور قوال اور گائیک استاد نصرت فتح علی خان اور دیگر نے بلامعاوضہ اس کارخیر میں کردار ادا کیا تھا۔

ملک میں فلاحی کام کا آغاز عبدالستار ایدھی نے کیا تھا جس کے بعد اب ملک میں ہزاروں فلاحی ادارے مختلف ناموں سے کام کر رہے ہیں مگر حقیقی خدمات کے ادارے بہت ہی کم ہیں جو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔عمران خان نے اپنی کرکٹ کی شہرت سے فائدہ اٹھایا اور چندہ لے کر کینسر اسپتال بنایا ۔

میاں نواز شریف فیملی پر الزام لگتا ہے کہ انھوں نے اپنے طویل اقتدار میں اپنے آبائی شہر لاہور میں عالمی معیارکا ایک ایسا جدید اسپتال نہیں بنایا جہاں وہ خود بھی اپنا علاج کرا سکتے اور انھیں اپنے علاج کے لیے باہر نہ جانا پڑتا۔ اس لیے عمران خان ان پر مسلسل تنقید کرتے آ رہے ہیں۔ لاہور میں شریف فیملی کا جو اسپتال ہے وہ فلاحی نہیں بلکہ مہنگا اسپتال ہے ۔

عمران خان نے اپنے اقتدار میں اپنے اسپتال کے لیے جتنے عطیات جمع کیے انھیں اتنی بڑی رقم کبھی اقتدار میں آنے سے قبل نہیں ملی۔ وہ سرکاری شعبے میں جدید ترین اسپتال نہیں بنا سکے۔۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے انھیں جو بہت بڑی رقم ملی اس سے غریبوں کے علاج کے جدید سرکاری اسپتال بن سکتا تھا مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔


قیام پاکستان سے قبل ہندوستان میں ہندو فلاحی کاموں اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور سبیلوں کے قیام میں مسلمانوں سے آگے تھے اور وہ اپنی جیب سے بھاری رقم عطیہ کرکے بعض مخیر حضرات کے تعاون سے یا ذاتی طور پر اسپتال بناتے تھے جہاں لوگوں کا مفت علاج ہوتا تھا ، یہ واقعی عوام کی سہولت کے لیے تھے۔

جن میں بعض بڑے اسپتال موجود ہیں جو ہندوستان کے ہندوؤں نے بنائے تھے جن میں لاہور کا سر گنگا رام اسپتال، گلاب دیوی اسپتال اور میرے آبائی شہر شکارپور میں بنایا جانے والا رائے بہادر تارا چند اودھم داس بڑے اسپتال تھے۔ شکارپور میں ہیرا نند گنگا بائی زنانہ اسپتال اور موجودہ گورنمنٹ کالج کو چیتل داس نے تعمیر کرایا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل سندھ کا مشہور شہر شکارپور وہ شہر تھا جہاں ایران اور افغانستان کے تجارتی قافلے آ کر ٹھہرا کرتے تھے جو خود بھی اہم تجارتی شہر تھا اور ورکی شکار پور کہلاتا تھا۔

شکار پور کے ایک سندھی ہندو رائے بہادر تارا چند اودھم داس کی والدہ بیمار ہوگئی جسے وہ علاج کے لیے بمبئی لے گیا اور صحت یابی کے بعد وہ شکارپور واپس آئے تو اس کی والدہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تو تو امیر تھا اس لیے میرا علاج بمبئی سے کرا لایا مگر یہاں جو غریب ہیں وہ علاج کے لیے کہاں جائیں؟ اودھم داس نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ میں شکارپور میں اسپتال بناؤں گا۔

جب اسپتال تیار ہو گیا تو مین گیٹ کے سامنے اودھم داس نے اپنی مورتی بھی لگوائی اور گیٹ کے اوپر انگریزی کے پیتل کے الفاظ سے اپنا نام بھی لکھوایا اور اپنی والدہ کو افتتاح کے لیے بلایا جنھوں نے اپنے بیٹے کی مورتی اور اس کا گیٹ پر نام دیکھا تو اسپتال میں داخل ہونے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ''اودھم! تو نے یہ اسپتال اپنے نام اور دکھاؤے کے لیے بنایا ہے یا عوام کی خدمت کے لیے؟ اپنی مورتی ہٹا اور مین گیٹ پر نصب نام داخلے کی جگہ فرش پر لگا تاکہ آنے جانے والے لوگ تیرے نام پر پیر رکھ کر آئیں جائیں۔''

انھوں نے اپنے بیٹے سے مزید کہا '' نام نہیں کام کر کیونکہ لوگ مہان ہیں اور عوام کی سیوا کرتے ہیں ، دکھاؤا نہیں کیا کرتے۔'' اودھم نے اپنی ماں کا حکم مان کر اپنی مورتی ہٹائی اور اپنا نام اوپر سے ہٹا کر فرش پر نصب کرایا جو تقریباً سو سال بعد بھی فرش پر نصب ہے۔

آربی یو ٹی اسپتال اب شکارپور کا سول اسپتال ہے جس کے گیٹ کے بائیں طرف افتتاحی پتھر نصب ہے۔ اس پتھر پر لکھی تحریر کے مطابق اودھم داس نے اس وقت ایک لاکھ روپے اور سر عبداللہ ہارون نے بیس ہزار روپے اور دیگر نے بھی عطیات دیے تھے اور اودھم داس نے اپنا نام یا دکھاؤا نہیں بلکہ غریبوں کے علاج کا مفت اسپتال بنایا تھا۔

ایدھی سمیت عوام کے حقیقی خدمت گار سیاست میں نہیں آئے۔ عوام کی حقیقی خدمت کرنے والے سیاست سے دور رہتے ہیں اور ایدھی کی طرح ان کا نام زندہ رہتا ہے۔
Load Next Story