تین گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے
عمران خان ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے جو سیاسی فوائد مل رہے ہیں، انھیں سمیٹ رہے ہیں
آجکل عمران خان نے اپنی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف کیا ہوا ہے۔ ویسے تو جب سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ہے، تب سے ہی ان کی توپوں کا رخ اسی طرف ہے۔ انھیں اسٹیبلشمنٹ کا غیر سیاسی ہونا اور تحریک عدم اعتماد میں ان کی مدد نہ کرنے کا فیصلہ کسی طور پر بھی پسند نہیں آیا۔
اسی لیے انھوں نے کبھی نیوٹرل کو جانور سے تشبیح دی ہے کبھی مدد نہ کرنے کو میر جعفر اور میر صادق سے تسبیح دی ہے۔ تا ہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کی بہت مدد بھی کی ہے، جس کو آج وہ مکمل طور پر بھول گئے ہیں۔ ماضی میں کی گئی نوازشات کو بھول کر وہ آج محاذ آرائی کر رہے ہیں۔
اسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ڈائن بھی تین گھر چھوڑ دیتی ہے۔ بقول ان کے انسان کو اتنا محسن کش اور احسان فراموش نہیں ہونا چاہیے۔
انھوں نے کہا جتنی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی مدد کی ہے اتنا دھکا اگر کسی دھکا اسٹارٹ گاڑی کو بھی لگایا جاتا تو وہ بھی چل پڑتی۔ ویسے محاورہ تو ڈائن کے سات گھر چھوڑنے کا ہے لیکن شہباز شریف نے اسے تین گھروں تک محدود کر دیا ہے۔ کیا شہباز شریف کی اس منطق میں وزن ہے کہ عمران خان کی جانب سے پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی محسن کشی اور احسان فراموشی کے زمرے میں آتی ہے، یہ ایک دلچسپ منطق ہے۔
اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی بطور وزیر اعظم بہت مدد کی ہے۔ یہ بات عمران خان بھی تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بہت سے انٹرویوز میں یہ بات تسلیم کی ہے۔امور مملکت چلانے میں انھیں ایجنسیوں اور اسٹبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی تھی۔
جو انھی دی جاتی تھی۔ اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کے لیے انھیں اسٹبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی تھی، جو انھیں دی جاتی تھی تا کہ وہ اپنی حکومت کو چلا سکیں۔ اپوزیشن کو شکست دینے کے لیے انھیں اسٹبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی تھی جو انھیں دی جاتی تھی۔اہم مواقعے پر جب ان کی حکومت پھنس جاتی تھی تو اپوزیشن سے مدد بھی وہ اسٹبلشمنٹ کے ذریعے ہی لیتے تھے۔
وہ کبھی خود اپوزیشن سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ غرض حکومت چلانے کے بڑے سے بڑے معاملے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی انھیں اسٹبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی تھی وہ انھیں دی جاتی تھی۔ چار سال تک یہ مدد کی جاتی رہی لیکن عمران خان کی حکومت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکی۔ جس طرح فیڈر میں دودھ پینے کی انھیں پہلے دن ضرورت تھی، آخری دن تک انھیں فیڈر کے اسی دودھ کی ضرور ت تھی۔
اس لیے جس اسٹبلشمنٹ نے ان کی چار سال تک مدد کی۔ ان کے اقتدار کو چلایا بچایا، بلکہ پہلے انھیں اقتدار میں لائے پھر ان کے اقتدار کی بے بی سٹنگ کی۔ آج عمران خان اسی اسٹبلشمنٹ کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔
عمران خان کا آج بھی یہ مقدمہ نہیں ہے کہ مجھے اسٹبلشمنٹ نے کوئی سازش کر کے اقتدار سے نکالا ہے، ان کا مقدمہ ہے کہ جب مجھے اقتدار سے نکالنے کے لیے تحریک عدم اعتماد لائی جا رہی تھی تب اسے ناکام بنانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے ان کی مدد نہیں کی۔ اگر وہ میری مدد کرتے تو میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجاتی۔
وہ آج تک یہ نہیں کہہ رہے کہ میرے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار تھا بلکہ وہ یہ کہہ رہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں میری مدد نہیں کی ہے۔ عجب منطق ہے۔
ان کا آج بھی اسٹیبلشمنٹ سے سب سے بڑا مطالبہ کیا ہے کہ اس حکومت کو گرانے میں میری مدد کی جائے۔ ملک میں فوری انتخابات کرانے کے لیے اس حکومت کو فوری گرانا نا گزیر ہے۔ اس لیے جب وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مجھے فوری انتخابات کراکے دیے جائیں تو ساتھ وہ یہ بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اس حکومت کو گرانے میں میری مدد کی جائے۔ وہ آج بھی اپنی سیاسی طاقت پر اس حکومت کو گرانے میں یقین نہیں رکھتے۔
انھیں آج بھی اسٹبلشمنٹ کی مدد ہی چاہیے۔ وہ آج بھی سول بالا دستی کا نعرہ نہیں لگا رہے۔ وہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم کرنے کی بات نہیں کر رہے۔ انھیں آج بھی خود کو اقتدار میں لانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد چاہیے۔ ان کا سارا غصہ ہی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی مدد نہیں کر رہی۔ اسی لیے نیوٹرل جانور ہے، میر جعفر اور میر صادق ہے۔ آج مدد مل جائے تو اسٹیبلشمنٹ دوبارہ ڈارلنگ ہو جائے گی۔
ابھی تک عمران خان کے خلاف کچھ ہوا بھی نہیں ہے۔ وزارت عظمی سے ہٹنے کے بعد پنجاب حکومت انھیں پلیٹ میں رکھ کر دی گئی۔ مسلم لیگ (ن) سے پنجاب حکومت چھین لی گئی ہے۔
یہ اسٹبلشمنٹ کے غیر سیاسی ہونے کی کرامات ہیں کہ عمران خان کی تمام صوبائی حکومتیں اپنی جگہ موجود ہیں اور وہ ان صوبائی حکومتوں کے کندھے استعمال کرکے وفاق پر حملے کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی کامیاب نہیں ہو رہے۔
عمران خان ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے جو سیاسی فوائد مل رہے ہیں، انھیں سمیٹ رہے ہیں ورنہ اگر آج اسٹیبلشمنٹ کھل کر اس حکومت کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو عمران خان کو سمجھ آجائے۔ پنجاب تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
کیا پاکستان کا ماضی ہمارے سامنے نہیں ہے؟ عمران خان کے دور وزارت عظمیٰ میں اپوزیشن کے رہنماؤں کی کئی کئی ماہ ضمانتیں نہیں ہوتی تھیں اور آج چھٹی والے دن بھی ضمانت ہو جاتی ہے۔ تب اپوزیشن لیڈر بائیس ماہ سے زیادہ عرصہ تک جیل میں رہے ہیں۔ ضمانت رک جاتی تھی۔ پروڈکشن آرڈر نہیں ہوتے تھے۔ بنچ ٹوٹ جاتے تھے۔ عمران خان کی حالت اس بچے کی ہے جو برگر کھا رہے اور پیزا نہ ملنے پر روئے جا رہا ہے۔
کہیں نہ کہیں شہباز شریف کے اس طنز میں جان ہے کہ ڈائن بھی تین گھر چھوڑ دیتی ہے۔ عمران خان نے اپنے محسنوں کا ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا ہے۔ یہ کوئی خوشی بات نہیں ایک افسوسناک صورتحال ہے۔