صحافی کی موت اور تماشا گھر
ہر نیا حادثہ یا واقعہ تماشے کی طرح دیکھا اور برتا جاتا ہے جس میں تماشائی خوب شور شرابا اور انصاف کی دہائیاں دیتے ہیں
سنتے آئے ہیں کہ پچھلے زمانوں میں لوگوں کی تفریح کےلیے دور دراز کے قصبوں اور دیہاتوں میں پتلی تماشا سجایا جاتا تھا، جس میں مقامی فنکار پتلیوں کو اپنی انگلیوں سے لپٹی ڈوریوں سے ہلا کر اپنی مرضی کا تماشا دکھایا کرتے اور لوگوں سے داد وصول کرتے تھے۔
وقت بدلا تو پتلی تماشا نے بھی رنگ بدلا اور 'پپٹ شو' کا روپ دھار لیا۔ بڑے بڑے شہروں کی ایلیٹ کلاس مہنگے مہنگے ٹکٹ خرید کر تماشا دیکھنے جانے لگی تاکہ اپنے سرکل میں فن کی قدردانی اور 'روایتی چیزوں' سے محبت کو نمایاں کیا جاسکے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ پتلی تماشا کی بات کا یہ کون سا وقت اور موقع ہے لیکن اگر موجودہ منظرنامے پر نظر ڈالیں تو آپ کو سمجھنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگے گی، لیکن چلیے پھر بھی اس بات کو نئے سرے سے شروع کرتے ہیں۔
اتوار کی شام جب اکثر لوگ اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ چھٹی منا رہے تھے، اپنی نوکری کی مجبوری میں جکڑے کچھ ایسے بھی تھے جو ملک میں جاری سیاسی سرگرمی جسے 'لانگ مارچ' کا نام دیا گیا ہے، کی کوریج کےلیے سیاسی رہنماؤں کے کنٹینر پر یا اس کے اردگرد موجود تھے۔
پچھلے کئی برسوں سے اپنے شعبے میں ایمانداری اور لگن سے کام کرنے اور اپنی پہچان بنانے کی جدوجہد کرنے والی لاہور کے علاقے اچھرہ کی رہائشی صدف نعیم شاید اس شام کے بعد بھی تقریبا گمنام ہی رہتی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ کچھ گھنٹوں بعد اس کا نام ہر گلی، ہر محلے حتیٰ کہ پوری دنیا میں گونج رہا ہوگا۔ لیکن وہ خود جان گنوا کر اس سب سے بے نیاز ہوچکی ہوگی۔
انقلابی کنٹینر کے پہیوں تلے آکر جان گنوانے والی صدف نعیم کو سوشل میڈیا کے طفیل سب نے کوریج اور سیاسی رہنماؤں تک رسائی کےلیے کنٹینر کے ساتھ ساتھ بھاگتے دیکھا۔
بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ کنٹینر کے اوپر کھڑے 'عوام کے سمندر' کی ویڈیوز اور تصاویر بنانے میں مصروف سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی نظروں سے 'اسٹوری' یا 'انٹرویو' کےلیے اپنی جان داؤ پر لگاتی صدف نعیم اوجھل رہی ہو۔ لیکن کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کےلیے کنٹینر روک لیا جاتا یا چلنے سے پہلے اسے 'دربار' میں حاضری کا موقع دے دیا جاتا۔ نام نہاد 'بڑے بڑے چینلوں' کے ہجوم میں نسبتاً کم نام والے چینل کی نمائندہ جو تھی۔
صدف نعیم کنٹینر کے پہیوں تلے آکر ملک عدم روانہ ہوئی تو کنٹینر بھی رک گیا اور اچانک سب کو یاد آگیا کہ وہ کتنی محنتی اور کمیٹڈ صحافی تھی۔ صدف سے نام نہاد ہمدردی کا ایک سیلاب تھا جو امڈ آیا، جسے دیکھ کر یا تو غصہ آئے یا پھر گھن۔
صدف نعیم کی موت اس ملک میں نہ نیا اور پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔ اور بدقسمتی سے صدف کے واقعے پر سامنےآنا والا ردعمل بھی روایتی اور گھسا پٹا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے کسی بھی المناک واقعے پر ہم دوسروں کو الزام دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں لیکن صدف کی موت نے ایک بار پھر ہم سب کے انفرادی اور بطور معاشرہ اجتماعی کردار کو آئینہ دکھا دیا۔ ایسا آئینہ جسے دیکھ لیا جائے تو شاید پھر باقی کی زندگی خود سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہ رہیں۔ لیکن ہم تو ایسا کوئی چکر پالتے ہی نہیں۔
یہ مان لینا کہ ہم ایک معاشرے اور قوم کے طور پر اخلاقی زوال اور اقدار کے زوال کے عروج پر ہیں، بڑا مشکل ہے لیکن یہی تلخ حقیقت ہے۔ صدف نعیم کی افسوسناک موت کے کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر ان کے آخری لمحات کی ویڈیو چلنے لگی۔ الیکٹرانک میڈیا بھلا ریٹنگ کی دوڑ میں کیسے پیچھے رہتا، صدف نعیم کی تصاویر کے ساتھ لال ڈبے گھومنے لگے۔ ہر چینل کا اینکر چیخ چیخ کر صدف کی موت کا نوحہ پڑھنے لگا۔
ظالموں نے یہ بھی نہ سوچا کہ صدف صرف صحافی نہیں ایک انسان بھی تھی، جس کے وجود سے بہت سے رشتے وابستہ تھے۔ پتا نہیں ان تک اس ناقابل تلافی نقصان کی خبر پہنچی بھی ہے یا نہیں۔ صدف کے بچے یہ دیکھیں گے تو ان پر کیا گزرے گی۔
سوشل میڈیا پر جس کا جو بس چلا صدف نعیم سے متعلق تجزیہ کار بن کر دوسروں کو آڑے ہاتھوں لیتا رہا۔ ہر ایک نے صدف کی ناگہانی موت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
شاید یہ بات سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والوں کو بہت بری لگے لیکن صدف نعیم کا حادثہ سیاستدانوں کےلیے ایک اور فوٹو سیشن کا موقع ثابت ہوا۔ کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف، سب کیمروں کی چکاچوند میں صدف کے گھر جا پہنچے اور سیاست چمکائی۔ سازشی تھیوریز کے ذریعے سیاسی مخالفین کو صدف کی موت کا ذمے دار قرار دیا گیا اور تحقیقات کے مطالبے بھی ہوئے۔ دکھ کی اس گھڑی میں صدف کے غم سے نڈھال گھر والوں سے زبردستی اپنے مطلب کے بیان نکلوانے کی کوشش بھی سامنے آئی۔
ہم نہ زندہ لوگوں کو عزت دینا جانتے ہیں اور نہ ہی مرنے والوں کا احترام باقی رہا ہے۔ سنا تھا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن جو دیکھا اس سے پتا چلا کہ سیاستدانوں اور صاحب اقتدار کے دل بھی پتھر کے ہوتے ہیں۔ اس بات کا یقین نہ آئے تو صاحبان اقتدار کی جانب سے صدف کے اہل خانہ کو اپنے ایوان میں بلا کر کیمروں کی موجودگی میں تعزیت کرنے اور چیک دینے کی تصاویر دیکھ لیجیے۔ دنیا سے جانے والے کسی بھی شخص کی اس بڑی توہین کیا ہوگی۔
فوٹو سیشن کروانے والوں کا کوئی پیارا ان حالات میں تو چھوڑیے جس میں صدف کی موت ہوئی، نارمل حالات میں بھی مرتا تو کیا وہ اسی طرح کیمروں کے سامنے آتے اور تصاویر کھنچواتے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔
کیا ہونا چاہیے تھا کیا نہیں ہوا، کون ذمے دار ہے، اس بارے میں بہت باتیں ہورہی ہیں اور ابھی کچھ اور دن یہ باتیں اسی طرح چلیں گی اور پھر کوئی نیا واقعہ، نیا حادثہ صدف نعیم کا نام بھی لوگوں کو بھلا دے گا۔ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوگا۔
صحافیوں کی حالت زار اور میڈیا ہاؤسز کے بارے میں بات کرنا بھی اب ایک ایسا روٹین بن گیا ہے جس کا کوئی نوٹس لینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ جہاں کئی کئی مہینے انتھک محنت سے کام کرنے والوں کو تنخواہیں نہ ملتی ہوں اور بغیر کسی وجہ کے دفتر آنے والے صحافی کو کئی برسوں کی نوکری کے باجود دروازے سے واپس گھر بھیج دینے کا چلن عام ہو وہاں صدف یا کسی اور صحافی کےلیے حفاظتی اقدامات اور ڈیوٹی پروٹوکول کی باتیں ظالمانہ مذاق یا کسی اور دنیا کی باتیں لگتی ہیں۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ ہر نیا حادثہ یا واقعہ کسی تماشے کی طرح دیکھا اور برتا جاتا ہے جس میں تماشائی اور کردار سب مل کر خوب شور شرابا اور انصاف کی دہائیاں دیتے ہیں، فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر کسی اگلے حادثے تک اپنی اپنی زندگیوں اور معمول میں مگن ہوجاتے ہیں۔ اس تماشا گھر میں زندگی ہو یا موت تماشا یوں ہی چلتا رہے گا کیونکہ اس تماشے کے مرکزی کردار اور تماشائی سب ایک صفحے پر ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
وقت بدلا تو پتلی تماشا نے بھی رنگ بدلا اور 'پپٹ شو' کا روپ دھار لیا۔ بڑے بڑے شہروں کی ایلیٹ کلاس مہنگے مہنگے ٹکٹ خرید کر تماشا دیکھنے جانے لگی تاکہ اپنے سرکل میں فن کی قدردانی اور 'روایتی چیزوں' سے محبت کو نمایاں کیا جاسکے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ پتلی تماشا کی بات کا یہ کون سا وقت اور موقع ہے لیکن اگر موجودہ منظرنامے پر نظر ڈالیں تو آپ کو سمجھنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگے گی، لیکن چلیے پھر بھی اس بات کو نئے سرے سے شروع کرتے ہیں۔
اتوار کی شام جب اکثر لوگ اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ چھٹی منا رہے تھے، اپنی نوکری کی مجبوری میں جکڑے کچھ ایسے بھی تھے جو ملک میں جاری سیاسی سرگرمی جسے 'لانگ مارچ' کا نام دیا گیا ہے، کی کوریج کےلیے سیاسی رہنماؤں کے کنٹینر پر یا اس کے اردگرد موجود تھے۔
پچھلے کئی برسوں سے اپنے شعبے میں ایمانداری اور لگن سے کام کرنے اور اپنی پہچان بنانے کی جدوجہد کرنے والی لاہور کے علاقے اچھرہ کی رہائشی صدف نعیم شاید اس شام کے بعد بھی تقریبا گمنام ہی رہتی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ کچھ گھنٹوں بعد اس کا نام ہر گلی، ہر محلے حتیٰ کہ پوری دنیا میں گونج رہا ہوگا۔ لیکن وہ خود جان گنوا کر اس سب سے بے نیاز ہوچکی ہوگی۔
انقلابی کنٹینر کے پہیوں تلے آکر جان گنوانے والی صدف نعیم کو سوشل میڈیا کے طفیل سب نے کوریج اور سیاسی رہنماؤں تک رسائی کےلیے کنٹینر کے ساتھ ساتھ بھاگتے دیکھا۔
بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ کنٹینر کے اوپر کھڑے 'عوام کے سمندر' کی ویڈیوز اور تصاویر بنانے میں مصروف سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی نظروں سے 'اسٹوری' یا 'انٹرویو' کےلیے اپنی جان داؤ پر لگاتی صدف نعیم اوجھل رہی ہو۔ لیکن کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کےلیے کنٹینر روک لیا جاتا یا چلنے سے پہلے اسے 'دربار' میں حاضری کا موقع دے دیا جاتا۔ نام نہاد 'بڑے بڑے چینلوں' کے ہجوم میں نسبتاً کم نام والے چینل کی نمائندہ جو تھی۔
صدف نعیم کنٹینر کے پہیوں تلے آکر ملک عدم روانہ ہوئی تو کنٹینر بھی رک گیا اور اچانک سب کو یاد آگیا کہ وہ کتنی محنتی اور کمیٹڈ صحافی تھی۔ صدف سے نام نہاد ہمدردی کا ایک سیلاب تھا جو امڈ آیا، جسے دیکھ کر یا تو غصہ آئے یا پھر گھن۔
صدف نعیم کی موت اس ملک میں نہ نیا اور پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔ اور بدقسمتی سے صدف کے واقعے پر سامنےآنا والا ردعمل بھی روایتی اور گھسا پٹا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے کسی بھی المناک واقعے پر ہم دوسروں کو الزام دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں لیکن صدف کی موت نے ایک بار پھر ہم سب کے انفرادی اور بطور معاشرہ اجتماعی کردار کو آئینہ دکھا دیا۔ ایسا آئینہ جسے دیکھ لیا جائے تو شاید پھر باقی کی زندگی خود سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہ رہیں۔ لیکن ہم تو ایسا کوئی چکر پالتے ہی نہیں۔
یہ مان لینا کہ ہم ایک معاشرے اور قوم کے طور پر اخلاقی زوال اور اقدار کے زوال کے عروج پر ہیں، بڑا مشکل ہے لیکن یہی تلخ حقیقت ہے۔ صدف نعیم کی افسوسناک موت کے کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر ان کے آخری لمحات کی ویڈیو چلنے لگی۔ الیکٹرانک میڈیا بھلا ریٹنگ کی دوڑ میں کیسے پیچھے رہتا، صدف نعیم کی تصاویر کے ساتھ لال ڈبے گھومنے لگے۔ ہر چینل کا اینکر چیخ چیخ کر صدف کی موت کا نوحہ پڑھنے لگا۔
ظالموں نے یہ بھی نہ سوچا کہ صدف صرف صحافی نہیں ایک انسان بھی تھی، جس کے وجود سے بہت سے رشتے وابستہ تھے۔ پتا نہیں ان تک اس ناقابل تلافی نقصان کی خبر پہنچی بھی ہے یا نہیں۔ صدف کے بچے یہ دیکھیں گے تو ان پر کیا گزرے گی۔
سوشل میڈیا پر جس کا جو بس چلا صدف نعیم سے متعلق تجزیہ کار بن کر دوسروں کو آڑے ہاتھوں لیتا رہا۔ ہر ایک نے صدف کی ناگہانی موت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
شاید یہ بات سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والوں کو بہت بری لگے لیکن صدف نعیم کا حادثہ سیاستدانوں کےلیے ایک اور فوٹو سیشن کا موقع ثابت ہوا۔ کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف، سب کیمروں کی چکاچوند میں صدف کے گھر جا پہنچے اور سیاست چمکائی۔ سازشی تھیوریز کے ذریعے سیاسی مخالفین کو صدف کی موت کا ذمے دار قرار دیا گیا اور تحقیقات کے مطالبے بھی ہوئے۔ دکھ کی اس گھڑی میں صدف کے غم سے نڈھال گھر والوں سے زبردستی اپنے مطلب کے بیان نکلوانے کی کوشش بھی سامنے آئی۔
ہم نہ زندہ لوگوں کو عزت دینا جانتے ہیں اور نہ ہی مرنے والوں کا احترام باقی رہا ہے۔ سنا تھا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن جو دیکھا اس سے پتا چلا کہ سیاستدانوں اور صاحب اقتدار کے دل بھی پتھر کے ہوتے ہیں۔ اس بات کا یقین نہ آئے تو صاحبان اقتدار کی جانب سے صدف کے اہل خانہ کو اپنے ایوان میں بلا کر کیمروں کی موجودگی میں تعزیت کرنے اور چیک دینے کی تصاویر دیکھ لیجیے۔ دنیا سے جانے والے کسی بھی شخص کی اس بڑی توہین کیا ہوگی۔
فوٹو سیشن کروانے والوں کا کوئی پیارا ان حالات میں تو چھوڑیے جس میں صدف کی موت ہوئی، نارمل حالات میں بھی مرتا تو کیا وہ اسی طرح کیمروں کے سامنے آتے اور تصاویر کھنچواتے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔
کیا ہونا چاہیے تھا کیا نہیں ہوا، کون ذمے دار ہے، اس بارے میں بہت باتیں ہورہی ہیں اور ابھی کچھ اور دن یہ باتیں اسی طرح چلیں گی اور پھر کوئی نیا واقعہ، نیا حادثہ صدف نعیم کا نام بھی لوگوں کو بھلا دے گا۔ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوگا۔
صحافیوں کی حالت زار اور میڈیا ہاؤسز کے بارے میں بات کرنا بھی اب ایک ایسا روٹین بن گیا ہے جس کا کوئی نوٹس لینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ جہاں کئی کئی مہینے انتھک محنت سے کام کرنے والوں کو تنخواہیں نہ ملتی ہوں اور بغیر کسی وجہ کے دفتر آنے والے صحافی کو کئی برسوں کی نوکری کے باجود دروازے سے واپس گھر بھیج دینے کا چلن عام ہو وہاں صدف یا کسی اور صحافی کےلیے حفاظتی اقدامات اور ڈیوٹی پروٹوکول کی باتیں ظالمانہ مذاق یا کسی اور دنیا کی باتیں لگتی ہیں۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ ہر نیا حادثہ یا واقعہ کسی تماشے کی طرح دیکھا اور برتا جاتا ہے جس میں تماشائی اور کردار سب مل کر خوب شور شرابا اور انصاف کی دہائیاں دیتے ہیں، فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر کسی اگلے حادثے تک اپنی اپنی زندگیوں اور معمول میں مگن ہوجاتے ہیں۔ اس تماشا گھر میں زندگی ہو یا موت تماشا یوں ہی چلتا رہے گا کیونکہ اس تماشے کے مرکزی کردار اور تماشائی سب ایک صفحے پر ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔