خیبر پختونخوا حکومت کی بڑھتی ہوئی مشکلات

صوبائی حکومت کو سنجیدگی دکھانا ہو گی کیونکہ مرکز نے اپنی تحریری تنبیہ کے ذریعے پہلے ہی سے خبردار کیا ہے

مرکز میں تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے وفاق اور صوبے کے درمیان تعلقات کار خراب ہورہے ہیں۔

ماضی میں بھی جب مرکز میں نواز شریف کی حکومت تھی، تب پرویز خٹک وزیراعلیٰ تھی، عمران خان نے جب نواز شریف کے خلاف لاک ڈاؤن کی تحریک چلائی تو خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے اپنے وسائل اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے خرچ کیے تھے۔

اب کینیا میں ایک معروف اینکر کے قتل کا معاملہ اپنی نوعیت کا تیسرا بڑا واقعہ ہے جس میں خیبر پختونخوا حکومت نے اپنی پارٹی قیادت کی ہدایات پر عمل کرکے خود کو پھنسایا ہے۔ پہلے مرحلے میں کے پی حکومت نے مئی کے لانگ مارچ میں عمران خان کے لیے بھرپور طریقے سے سرکاری وسائل استعمال کیے۔ صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر کا استعمال تو سب کے علم ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار مرکزی حکومت نے باقاعدہ تحریری طور پر صوبے کے چیف سیکریٹری کو مرکزی حکومت کے خلاف سرکاری وسائل کے استعمال پر کافی سخت تنبیہ کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ صوبائی حکومت عمران خان کے احتجاجی مارچ میں اپنے سرکاری ملازمین کی عدم شرکت کو یقینی بنائیں بصورت دیگر وفاق قانونی کارروائی کا مجاز ہوگا۔

اگرچہ خیبرپختونخوا حکومت نے اس تحریری تنبیہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن چیف سیکریٹری کے لیے وزیراعظم کا ماتحت ہوتے ہوئے اس سے مفر ممکن نہیں، وہ ہر صورت وفاقی کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ اس خط کے مضمرات پرآخر میں بات کریں گے۔

دوسرا سنجیدہ معاملہ اس وقت پیدا ہوا جب خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا کی سابق وفاقی وز یر خزانہ شوکت ترین کی مبینہ آڈیو کال سامنے آئی جس میں تیمور جھگڑا آئی ایم ایف کے قرضے کے حصول کو ناممکن بنانے کے لیے شوکت ترین کی ہدایات پر عمل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔

اس معاملے پر ایف آئی اے کی انکوائری چل رہی ہے، اپنی نوعیت کا یہ ایک سنگین کیس ہے کیونکہ اگر ایسا ثابت ہو گیا تو یہ ریاستی مفادات کے خلاف کام کرنے کا معاملہ بن سکتا ہے جس کی ایک سنگین سزا پہلے سے موجود ہے۔

تیسرا سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ اب کینیا میں پاکستانی اینکر کے قتل کے حوالے سے پیدا ہوا ہے جس سے جان چھڑانے میں شاید صوبائی حکومت کو کافی تگ و دو کرنا پڑے۔ آئی ایس پی آر کی ڈی جی آئی ایس آئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ سپائی ماسٹر کو خود کیمرے کے سامنے آ کر صحافیوں کے ہر قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔


چونکہ تحریک انصاف اور ان کے حمایتیوں نے ایک ایساپروپیگنڈے کا طوفان بپا کر رکھا ہے کہ ادارے کو خود سامنے آ کر اپنی وضاحت دینا پڑی۔ اسی پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر جو پاک فوج کا ترجمان ادارہ ہے نے یہ سوال اٹھایا کہ پاکستانی صحافی کی زندگی کو خطرے کے حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت نے تھریٹ الرٹ کیوں جاری کیا حالانکہ ملک کی دیگر پرائم ایجنسیوں کے پاس اس قسم کی کوئی اطلاع موجود نہیں تھی۔

عمران خان نے خود کہا ہے کہ انھوں نے مقتول صحافی کو نہ صرف یہ اطلاع بتائی بلکہ انھیں مشورہ دیا کہ وہ ملک سے باہر چلے جائیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی بھی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ جس طرح سے ایک فریق کو اس قتل سے فائدہ پہنچا ہے یہ بھی ایک مشکوک امر ہے۔

تحریک انصاف کے پی میں پچھلے آٹھ نو برس سے اقتدار میں ہے، اب صوبہ براہ راست مرکز سے تصادم کی راہ پر نکل پڑتا ہے۔

2014 کے دھرنے میں بھی پرویز خٹک نے صوبے کی مشینری کو استعمال کیا۔ حالانکہ اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ خیبر پختونخوا کی کسی حکومت نے مرکز سے براہ راست تصادم کی راہ اختیار کی ہو۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں بھی اس وقت کی صوبائی حکومت مرکز میں صدر مشرف کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی حالانکہ مجلس عمل اور صدر مشرف کی سیاسی چپقلش کافی عروج پر تھی۔

پرویز خٹک نے 2014 کی چڑھائی کے بعداپنے تعلقات شہباز شریف کے ذریعے نواز شریف سے بہتر بنا لیے تھے۔ موجودہ حکومت کے پاس ایسی کوئی لائف لائن نہیں اور سیاسی وابستگی کی وجہ سے صوبائی حکومت مرکز کے ساتھ معاملات کافی تلخ کر چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پچھلے مہینے صوبائی ملازمین کی تنخواہ وقت پر نہ مل سکی اور اب بھی ایسے ہی خدشات ہیں کیونکہ مرکز نے وفاقی وسائل میں سے صوبے کے حصے کو معمول کے مطابق منتقل نہیں کیا۔

صوبائی حکومت کو سنجیدگی دکھانا ہو گی کیونکہ مرکز نے اپنی تحریری تنبیہ کے ذریعے پہلے ہی سے خبردار کیا ہے کہ اگر صوبائی ملازمین اور وسائل مرکز کے خلاف استعمال ہوئے تو کارروائی ہو گی اور ایسی کتنی کارروائیوں کا عندیہ مولانا فضل الرحمن پہلے ہی دے چکے ہیں مطلب گورنر راج۔ اب تک صوبے میں اتحادی حکومت نے اپنا گورنر نامزد نہیں کیا جس کا مطلب ہے کہ ابھی انھوں نے خیبر پختونخوا سے متعلق کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کیا اور لانگ مارچ کے بعد شاید اس طرف توجہ دیں۔

جس شخصیت کا آخری دفعہ گورنر شپ کے لیے نام لیا گیا ہے ، وہ غلام علی ہیں، وہ تحریک انصاف کے امیدوار کو میئر کے انتخابات میں پشاور میں ہرا چکے ہیں۔ غلام علی ایک متحرک عوامی شخصیت ہیں، اگر وہ گورنر تعینات ہوگئے تو وہ صوبائی حکومت کے لیے کافی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ دوسرا نام امیر مقام کا ہے جو وزیراعظم کے مشیر کے عہدے پر براجمان ہیں اور تمام تر وفاقی محکموں کے خیبرپختونخوا میں انچارج ہیں۔

ملک اور صوبے میں انتخابی سال ہونے کی وجہ سے مرکزی حکومت شاید گورنر راج لگانے سے گریز کرے لیکن اگر صوبائی حکومت نے مرکز کے ساتھ تصادم کی پالیسی کو مزید آگے بڑھایا تو صورتحال بدل بھی سکتی ہے۔
Load Next Story