جام ساقی نوجوان سیاسی کارکنوں کے لیے مشعل راہ
پہلے فوج کے عمل دخل کی باتیں ہم کمیونسٹ کیاکرتے تھے ا ب اچھا ہے کہ دوسرے بھی یہ بات کہنے لگے ہیں
جام ساقی 31؍ اکتوبر 1944 کو تھرپارکر کے تعلقہ چھاچھرو کے ایک چھوٹے سے گاؤں جھنجی میں پرائمری اسکول کے ایک استاد کے گھر پیدا ہوئے۔
کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن یہ بچہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اپنا نام روشن کرے گا۔ جام ساقی نے اپنی پوری زندگی محکوم و مظلوم طبقات اور قومیتوں کے حقوق کی خاطر ایک ایسی بے مثال جنگ لڑی جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جاسکے گی، وہ ایک نہیں متعدد بار گرفتار ہوئے۔ ان پر جو بہیمانہ تشدد کیا گیا وہ ناقابل تصور ہے۔
قلعہ لاہور میں انھیں بہیمانہ اذیت کا نشانہ بنایا گیا جس سے ان کا جسمانی اور اعصابی نظام بری طور پر متاثر ہوا۔ ڈاکٹر ہارون نے ان کا علاج کیا اور زندگی کی آخری سانس تک وہ زیر علاج رہے۔ ڈاکٹر ہارون نے ہمیشہ ان سیاسی قیدیوں کا بلاتفریق علاج کیا جنھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب جام پر ملک سے غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔
اس وقت کا پاکستان آج کے پاکستان سے بہت مختلف تھا۔ جام ساقی کے محب وطن ہونے کی گواہی دینے ملک کے بڑے بڑے سیاستدان حیدرآباد آئے۔ا ن میں بے نظیربھٹوبھی تھیں جنھوں نے حیدر آباد ملٹری کورٹ میں کہا تھاکہ ''جام ساقی ایک محب وطن سیاسی رہنما ہے۔'' اس موقع کی ایک تاریخی تصویر بھی ہے۔
فوجی افسرکے سامنے بے نظیربیٹھی ہوئی ہیں اور جام اپنی ہتھکڑی کی زنجیر گلے میں ڈالے کھڑے ہیں اور چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ہے۔ یہ خواب دیکھنے اورخواب دکھانے کے دن تھے۔
جام ساقی کامیں نے اس کے بعض دوستوں سے بہت تذکرہ سنا تھا اور یہ شاید 1978 تھا جب مجھے جیل سے جام کاخط ملا۔ انھوں نے یہ خط میری ایک کہانی پڑھ کر لکھا تھا اور مجھ سے پوچھاتھا کہ تم نے''جسم وزباں کی موت سے پہلے''کیسے لکھی؟یہ کال کوٹھری میں اذیتیں سہنے والوں کی ذہنی اورنفسیاتی حالتوں کی دھوپ چھاؤں کامعاملہ ہے۔'' یہ تومیری کہانی ہے، وہ ان لوگوں میں سے تھاجو سرا ٹھا کریہ کہتاتھا کہ مجھے فخرہے کہ بہ طورفرد میں پہلا آدمی تھا جس نے بنگال کے عوام کے قتل عام کے خلاف آواز اٹھائی۔ آج اس کایہ نعرۂ مستانہ بہت کم لوگوں کویادہے۔
جام سے جب ایک بار پوچھا گیاکہ کیاایک سیاستدان ہونے کے ناتے آپ سیاسی اقتدار میں غیرسیاسی اداروں اورعناصر کی شرکت کو درست تصور کرتے ہیں کیونکہ اس نظریئے کے پرچار کرنے والے سیاستدان بھی اس ملک میں موجود ہیں۔ اس سوال کاجواب دیتے ہوئے جام نے کہاتھا کہ اس بارے میں میراموقف بالکل واضح اور دوٹوک ہے۔
غیرسیاسی عناصر اور اداروں کواقتدار سے بالکل دور رہنا چاہیے۔ اس میں ان کا بھی بھلاہے اور اس ملک اور اس کے عوام کامفادبھی اسی میں ہے۔ سیاسی اقتدار پرغیر سیاسی عناصر کاخمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔
لوگ اورخصوصاً سندھ کے نوجوان برسرعام کہنے لگے ہیں کہ جب یہ فوجی اشرافیہ محمد خان جونیجوجیساملازم وزیراعظم برداشت نہیں کرسکتی، جب وہ بے نظیر کو برداشت نہیں کرسکتی جس نے اس کی ہربات اورہرشرط کوتسلیم کیاتواس کا مطلب یہ ہواکہ یہ لوگ کسی بھی قیمت پرجمہوریت کو نہیں آنے دیناچاہتے اورجب ملک میں جمہوریت کوآناہی نہیں ہے توپھراس ملک سے الگ کیوں نہ ہوجائیں۔
اب آپ ہی بتائیں کہ اگر یہ عمل دخل یونہی جاری رہا اور جمہوریت کی راہیں اسی طرح مسدودکی جاتی رہیں تو کون ان بے چین اور مضطرب نوجوانوں کوتسلی بخش جواب دے سکے گا۔ اس لیے اگر ملک کو بچانا ہے اور اس ملک میں آبادتمام قومیتوں کے وفاق کوقائم رکھنا ہے توپھرایک حقیقی وفاقی اور جمہوری نظام حکومت کوقائم کرناہوگااسی میںسب کا بھلاہے۔
اس ضمن میں جام نے دوباتوں کاحوالہ دیا تھا ایک یہ کہ 54ء سے یعنی جب سے امریکا کے ساتھ فوجی معاہد ہ ہوا، اس وقت سے فوجی ٹولے کااقتدار میں بالادستی کاعمل شروع ہوگیاتھا، میں عام فوجی پرالزام عائدنہیں کرتا۔صرف چند جرنیل حضرات اقتدارپرقبضے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور بالخصوص 54ء کے بعد سے فوجی اشرافیہ کااقتدار میں بڑا گہراعمل دخل رہا ہے۔
اس بارے میں جام نے ایک واقعے کی مثال دی تھی جس کاتذکرہ عام طورہمارے سیاسی تجزیہ نگار نہیں کرتے۔ 58ء میں امریکی سفیرنے خان عبدالقیوم خان جیسے کمزوراور بزدل سیاستدان کوطلب کرکے کہاہم تم کو پاکستان کا سربراہ بناتے ہیں،تم پشاور کے بڈبیرکے ہوائی اڈے کی معیاد میں پانچ سال کی توسیع کردو۔ یاد رہے کہ یہ معیاد58ء میں ختم ہورہی تھی ۔خان قیوم خان جیسے کمزور سیاستدان نے بھی یہی کہاکہ جناب میں یہ کام نہیں کرسکوں گاکیوںکہ اس سے عوام ناراض ہوں گے۔
اس کے ایک ہفتے کے بعدجنرل ایوب خان کو مسند اقتدار پر لایا گیا اورانھوں نے مذکورہ اڈے کی معیاد میں پانچ کے بجائے دس سال کی توسیع کردی۔یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کمزور سیاستدان بھی بیرونی آقاؤں کی اتنی باتیں نہیں مانتا جتنا کہ ایک فوجی آمر مان لیتا ہے۔پھر جام نے بے نظیر بھٹو کی مثال دیتے ہوئے کہاتھاکہ اس ملک کی قانونی اورجمہوری طورپر منتخب وزیراعظم اپنی برطرفی کے فوراً بعدیہ کہہ چکی ہیںکہ صدرغلام اسحاق خان کی تقریرجی ایچ کیو میں تیار کی گئی اورخفیہ ایجنسی نے ان کی حکومت کوہٹانے میں اہم ترین کرداراداکیاہے۔
پہلے فوج کے عمل دخل کی باتیں ہم کمیونسٹ کیاکرتے تھے ا ب اچھا ہے کہ دوسرے بھی یہ بات کہنے لگے ہیں۔مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت (بے نظیر بھٹو) کوہٹانے اوراسمبلیوں کوختم کرنے کی سازش نوکرشاہی اوراس کے حلیفوں نے مل کرتیارکی تھی لیکن میں توقع کرتاہوں کہ فوج اس میں شامل نہیں ہوسکتی' یہ صرف چندمفادپرست ہیں جوملک کوبھی تباہی کے راستے پرلے جارہے ہیں۔
جام کاکہناتھاکہ احتساب کرنے والے اس ملک کے عوام ہیں۔ یہ ان کا ناقابل تنسیخ حق ہے۔ عوام سے بڑا، سچا اور اچھا منصف کوئی نہیں ہوسکتا۔ عوام انتخاب کے ذریعے احتساب کرتے ہیں، اگرآپ جمہوری عمل اور جمہوریت کی روح کو کچلنے کے لیے احتساب کے نعرے کواستعمال کریں گے تو پھر اس کا مقصدیہ ہوا کہ بعض مخصوص مفادات رکھنے والے عناصر اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطراحتساب کا ڈرامہ رچا رہے ہیں۔
احتساب کسی بھی جمہوری معاشرے میں ایک جاری عمل کا نام ہوتا ہے۔ جمہوری عمل اور احتساب کا عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہمارے ملک میں احتساب اور جمہوری عمل کی روایات موجود نہیں ہیں۔
اس لیے یہاں جب بھی احتساب کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے تو اس کے پس پشت کوئی نیکی یاسچائی کار فرما نہیں ہوتی بلکہ یہ نعرہ مذموم مقاصد کے حصول اور عوام کو اقتدار اعلیٰ سے محروم کردینے کی سازش کا حصہ ہوتا ہے، جن لوگوں پرخود احتساب قرض ہے وہ احتساب کرنے چلے ہیں۔ گویا ہو یہ رہا ہے کہ بھینس، گائے کا اس بات پر احتساب کررہی ہے کہ اس کی دم کالی کیوں ہے جب کہ بھینس بجائے خود مجسم سیاہی ہے۔
جام کے ساتھ کتنی ہی محفلیںرہیں اور کتنے ہی بحث مباحثے ہوئے۔ میں ان دنوں بی بی سی میں تھی جب جام نے لندن کاسفرکیا۔مشتاق لاشاری جو طیارہ سازش کیس میں جلاوطن کیے گئے تھے، لندن میں بائیں بازوسے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کو جوڑ کر رکھتے تھے۔ انھوں نے جام کوایک شاندار استقبالیہ دیا جسے دیکھ کر جی خوش ہواکہ جام سے لوگوں کو کس قدرمحبت ہے۔
جام نے اس دنیا میں اپنی زندگی کے 73 سال گزارے۔ 5؍ مارچ 2018 کو ہمیں ہمیشہ کے لیے الوداع کہا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس نے اعلیٰ آدرشوں اور مقاصد کی خاطر اپنی زندگی گزاری۔ معمولی علم رکھنے والا سندھ کا شاید ہی کوئی فرد ایسا ہوگا جو جام ساقی کے نام سے واقف نہ ہو۔ پاکستان میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتوں کے تمام کارکن ان کے نقش قدم پر چلنے کو اپنے لیے ایک اعزاز تصور کرتے ہیں۔
ہماری نئی نسل کو، جو بڑی حد تک غیرسیاسی ہوگئی ہے یا کردی گئی ہے، اسے یہ آگاہ کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں آج جس قدر بھی سیاسی اور جمہوری حقوق حاصل ہیں وہ جام ساقی جیسے بہت سے سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کی بے لوث انقلابی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔
آج کے دور کے نوجوان سیاسی کارکن جام ساقی جیسے سیاسی کارکنوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ چند دہائیوںپہلے کا سیاسی کارکن زبردست سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ اس نے ادب، شاعری اور فلسفے کے بنیادی اصول پڑھ رکھے تھے یا اگر وہ ناخواندہ تھا تو اسٹڈی سرکل میں بیٹھ کر بنیادی علم حاصل کرلیتا تھا۔
اس دور کا سیاسی کارکن بحث اور مباحثے کے دوران بدکلامی نہیں کرتا تھا، بدترین نظریاتی مخالفین بھی ایک دوسرے سے تہذیب کے دائرے میں رہ کر گفتگو کرتے تھے۔ آج کے پاکستان میںایک روادار اور مہذب سیاسی کلچر کا شدید فقدان ہے۔ سیاسی عمل میں دلچسپی رکھنے والی ہماری نئی نسل جام ساقی سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔