پاکستان سے امتیازی سلوک کیوں
امتیازی سلوک کا شکوہ ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ پاکستان کو توانائی شعبہ میں درپیش بحران کی ایک ٹھوس حقیقت کا اظہار ہے
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ عالمی برادری پُرامن جوہری پروگرام کے معاملے پر پاکستان سے بھرپور تعاون کرے،امتیازی سلوک کی پالیسی اب ختم ہونی چاہیے، طورخم پرنیٹو سپلائی بحال کردی گئی ہے،افغانستان سے نیٹوفورسزکے انخلا میں بھرپور تعاون کریں گے ۔ ہالینڈ میں بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے موقع پر جرمن چانسلر اینجلا مرکل سے ملاقات میں انھوں نے کہا کہ خوشحال اور پرامن افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیںگے۔ اینجلا مرکل نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تجارتی، اقتصادی معاملات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھیںگے ۔
اس آفاقی اور مسلمہ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پر امن جوہری پروگرام پاکستان سمیت ہر اس ترقی پزیر ملک کا حق ہے جسے توانائی بحران نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ان ملکوں کو معاشی ترقی ، روزگار کی ادارہ جاتی فراہمی، بجلی کے نجی و صنعتی صارفین اور صنعتی و پیداواری سرگرمیوں کے فروغ کے لیے ایٹمی توانائی پلانٹوں کی تنصیب کی ضرورت ہے۔ وہ ممالک جو جمہوریت ،امن ، انسانی ترقی اور تہذیب و تمدن کی بقا پر یقین رکھتے ہیں پاکستان بھی ان ہی میں شامل ہے جسے سنگل آئوٹ کرنا ناانصافی ہے ۔امتیازی سلوک کا شکوہ ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ پاکستان کو توانائی شعبہ میں درپیش بحران کی ایک ٹھوس حقیقت کا اظہار ہے کیونکہ ایٹمی سپلائیرز گروپ کے 48 ممالک کی فہرست میں پاکستان شامل نہیں جب کہ برطانیہ اور فرانس کے بعد صدر بارک اوباما نے تو نومبر 2010 ء میں اپنے دورہ بھارت میں نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں بھارت کی پر زور حمایت کی تھی ۔
نواز شریف اپنے پیر کے خطاب میں واضح طور پر اس امتیازی طرز عمل کی نشاندہی کر چکے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے انبار سے نوع انسانی کے مستقبل کو مستقل خطرات لاحق ہیں ، ہیروشیما اورناگا ساکی کی دردناک یادیں ابھی ضمیر انسانی میں تازہ ہیں ، صدام حسین کے خلاف ڈبلیو ایم ڈیز WMDsکی موجودگی کا شور مچاتے ہوئے امریکا سمیت دیگر اتحادی فورسزنے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، پھر کویت عراق وار نے ہلاکت خیزی کے بہیمانہ ریکارڈ قائم کیے ، افغانستان پر جارحیت کے بدترین نتائج نکلے ۔ یہ سب بڑے پیمانے پر تیار ہونے والے ہلاکت خیز ہتھیاروںکی جنگ کا نتیجہ ہے کہ دنیا پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہے اور امن کے قیام کے لیے عالمی کوششوں کی ضرورت محسوس کی گئی ۔اس وقت دنیا میںسوا لاکھ ایٹمی ہتھیاروں میں 97 فیصد امریکا اور روس نے بنائے۔ جب کہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق بھارت اور پاکستان ہر ایک کے پاس 100 وار ہیڈ ہیں جب کہ ایٹمی جارحیت کی تاریخ رکھنے والا اسرائیل200 ہلاکت خیز ہتھیاروں کے ساتھ سب سے آگے ہے۔
لیکن دوسری طرف ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کے لیے جوہری نظام اور اس کے فول پروف اور شفاف تکنیکی پروگرام کے لیے عالمی طاقتوں کو لیت ولعل اورپسند وناپسند کے بجائے پاکستان کی وار آن ٹیرر کے خلاف قربانیوں اور اقتصادی مشکلات کا ادراک کرنا چاہیے۔ وزیراعظم نواز شریف کا ہیگ کانفرنس کے بعد جرمن چانسلر اینجلا مرکل ، فرانسیسی صدر اولاندے ، اور لندن میں میڈیا سے گفتگو اور سیاسی اکابرین سے بات چیت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے حق سے پاکستان کو محروم رکھنا سخت زیادتی ہے۔ نواز شریف نے درست کہا کہ افغانستان کی سلامتی میں ہی پاکستان کی سلامتی ہے ۔ وزیراعظم نے جی ایس پی پلس کا درجہ دلانے کے لیے پاکستان کی حمایت کرنے پر جرمن چانسلرکا شکریہ ادا کیا ، ادھر فرانسیسی صدر فرانکوئس اولاندے سے ملاقات میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دوستوںکو دہشتگردی کے خلاف اس کی قربانیوںکا اعتراف کرنا چاہیے۔
اس جنگ کے نتیجے میں پاکستانی معیشت شدید متاثرہوئی،عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ تجارت اور معیشت کے شعبوں میں تعاون کے ذریعے پاکستان کی مددکرے جب کہ اس کے جواب میں فرانکوئس اولاندے نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا اور بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے پاکستان کے اقدامات کو سراہا ۔ دریں اثنا سربراہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں 35 ملکوں نے ایٹمی سیکیورٹی میں اضافہ کرنے اورخطرناک مواد دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے سے روکنے کے لیے صدراوباما کی کوششوںکی حمایت اور مل کرکام کرنے کا عزم کیا ہے۔مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ جوہری مواد کو القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں کے ہاتھ لگنے سے بچائیں۔اختتامی تقریب سے خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ ممکنہ ایٹمی دہشتگردی عالمی سلامتی کے لیے فوری اور انتہائی خطرہ ہے۔ ایک بھی ممکنہ حملے سے ہونے والی تباہ کاریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم مطمئن ہوکر نہیں بیٹھ سکتے۔
صدر اوباما اس سے پہلے بھی اپنی تقاریر میں ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دنیاکا عزم ظاہر کرچکے ہیں لیکن عالمی طاقتوں کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستان ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کی بات اقتصادی طور پر مصائب کے شکار ملکوں کی معاشی حالت زار کو مد نظر رکھتے ہوئے کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں آیندہ سال ایٹمی آلات اور خدمات کا 500 ارب سے 740 ارب ڈالر تک تخمینہ لگایا گیا ہے، اس کے مطابق ہر ایک ارب ڈالر کی برآمدات پر امریکی کمپنیاں 5 ہزار سے10ہزار ملازمتوں کے مواقع فراہم کرتی ہیں اور آجکل 2500 امریکی کمپنیاں سالانہ14 ارب20 کروڑ ڈالر مالیت کے آلات اور خدمات دنیا کو فراہم کررہی ہیں اور جو کمپنیاں ایک ایٹمی پلانٹ چلاتی ہیں وہ ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالر سالانہ ریاستی اور مقامی ٹیکسوں کی مد میں ادا کرتی ہیں۔ یہ وہ مثبت پہلو ہے جو ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کی صورتحال کی ترجمانی کرتی ہے ۔
جہاں تک وزیراعظم کے ہالینڈ اور لندن دورے کے مفید اور مثبت نتائج کا تعلق ہے وہ وقت بتائے گا کہ ڈرون حملے نہ ہونے اور طالبان سے مذاکراتی عمل سے پاک امریکا تعلقات کی بہتری کا سفر کیا موڑ اختیار کرے گا اور ایٹمی کلب اور سپلائیرز گروپ کے ممالک پاکستان کے ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کے بنیادی حق کی توثیق میں کشادہ نظری اور دریا دلی کا کب مظاہرہ کرتے ہیں ۔تاہم وزیراعظم کا یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ اب پاکستان جمہوریت کے راستے پرچل پڑا ہے ،جس کے لیے پاکستان نے بڑی جدوجہد کی ہے۔ ادارے مستحکم ہو رہے ہیں ۔اب ضرورت اس جمہوریت کے تحفظ اور عوام کی خوش حالی کی ہے ۔ یاد رہے کہ کامیابی کی کلید معاشی ترقی ،انصاف ، داخلی امن اور غربت کے خاتمہ میں مضمر ہے۔
اس آفاقی اور مسلمہ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پر امن جوہری پروگرام پاکستان سمیت ہر اس ترقی پزیر ملک کا حق ہے جسے توانائی بحران نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ان ملکوں کو معاشی ترقی ، روزگار کی ادارہ جاتی فراہمی، بجلی کے نجی و صنعتی صارفین اور صنعتی و پیداواری سرگرمیوں کے فروغ کے لیے ایٹمی توانائی پلانٹوں کی تنصیب کی ضرورت ہے۔ وہ ممالک جو جمہوریت ،امن ، انسانی ترقی اور تہذیب و تمدن کی بقا پر یقین رکھتے ہیں پاکستان بھی ان ہی میں شامل ہے جسے سنگل آئوٹ کرنا ناانصافی ہے ۔امتیازی سلوک کا شکوہ ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ پاکستان کو توانائی شعبہ میں درپیش بحران کی ایک ٹھوس حقیقت کا اظہار ہے کیونکہ ایٹمی سپلائیرز گروپ کے 48 ممالک کی فہرست میں پاکستان شامل نہیں جب کہ برطانیہ اور فرانس کے بعد صدر بارک اوباما نے تو نومبر 2010 ء میں اپنے دورہ بھارت میں نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں بھارت کی پر زور حمایت کی تھی ۔
نواز شریف اپنے پیر کے خطاب میں واضح طور پر اس امتیازی طرز عمل کی نشاندہی کر چکے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے انبار سے نوع انسانی کے مستقبل کو مستقل خطرات لاحق ہیں ، ہیروشیما اورناگا ساکی کی دردناک یادیں ابھی ضمیر انسانی میں تازہ ہیں ، صدام حسین کے خلاف ڈبلیو ایم ڈیز WMDsکی موجودگی کا شور مچاتے ہوئے امریکا سمیت دیگر اتحادی فورسزنے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، پھر کویت عراق وار نے ہلاکت خیزی کے بہیمانہ ریکارڈ قائم کیے ، افغانستان پر جارحیت کے بدترین نتائج نکلے ۔ یہ سب بڑے پیمانے پر تیار ہونے والے ہلاکت خیز ہتھیاروںکی جنگ کا نتیجہ ہے کہ دنیا پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہے اور امن کے قیام کے لیے عالمی کوششوں کی ضرورت محسوس کی گئی ۔اس وقت دنیا میںسوا لاکھ ایٹمی ہتھیاروں میں 97 فیصد امریکا اور روس نے بنائے۔ جب کہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق بھارت اور پاکستان ہر ایک کے پاس 100 وار ہیڈ ہیں جب کہ ایٹمی جارحیت کی تاریخ رکھنے والا اسرائیل200 ہلاکت خیز ہتھیاروں کے ساتھ سب سے آگے ہے۔
لیکن دوسری طرف ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کے لیے جوہری نظام اور اس کے فول پروف اور شفاف تکنیکی پروگرام کے لیے عالمی طاقتوں کو لیت ولعل اورپسند وناپسند کے بجائے پاکستان کی وار آن ٹیرر کے خلاف قربانیوں اور اقتصادی مشکلات کا ادراک کرنا چاہیے۔ وزیراعظم نواز شریف کا ہیگ کانفرنس کے بعد جرمن چانسلر اینجلا مرکل ، فرانسیسی صدر اولاندے ، اور لندن میں میڈیا سے گفتگو اور سیاسی اکابرین سے بات چیت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے حق سے پاکستان کو محروم رکھنا سخت زیادتی ہے۔ نواز شریف نے درست کہا کہ افغانستان کی سلامتی میں ہی پاکستان کی سلامتی ہے ۔ وزیراعظم نے جی ایس پی پلس کا درجہ دلانے کے لیے پاکستان کی حمایت کرنے پر جرمن چانسلرکا شکریہ ادا کیا ، ادھر فرانسیسی صدر فرانکوئس اولاندے سے ملاقات میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دوستوںکو دہشتگردی کے خلاف اس کی قربانیوںکا اعتراف کرنا چاہیے۔
اس جنگ کے نتیجے میں پاکستانی معیشت شدید متاثرہوئی،عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ تجارت اور معیشت کے شعبوں میں تعاون کے ذریعے پاکستان کی مددکرے جب کہ اس کے جواب میں فرانکوئس اولاندے نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا اور بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے پاکستان کے اقدامات کو سراہا ۔ دریں اثنا سربراہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں 35 ملکوں نے ایٹمی سیکیورٹی میں اضافہ کرنے اورخطرناک مواد دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے سے روکنے کے لیے صدراوباما کی کوششوںکی حمایت اور مل کرکام کرنے کا عزم کیا ہے۔مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ جوہری مواد کو القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں کے ہاتھ لگنے سے بچائیں۔اختتامی تقریب سے خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ ممکنہ ایٹمی دہشتگردی عالمی سلامتی کے لیے فوری اور انتہائی خطرہ ہے۔ ایک بھی ممکنہ حملے سے ہونے والی تباہ کاریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم مطمئن ہوکر نہیں بیٹھ سکتے۔
صدر اوباما اس سے پہلے بھی اپنی تقاریر میں ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دنیاکا عزم ظاہر کرچکے ہیں لیکن عالمی طاقتوں کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستان ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کی بات اقتصادی طور پر مصائب کے شکار ملکوں کی معاشی حالت زار کو مد نظر رکھتے ہوئے کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں آیندہ سال ایٹمی آلات اور خدمات کا 500 ارب سے 740 ارب ڈالر تک تخمینہ لگایا گیا ہے، اس کے مطابق ہر ایک ارب ڈالر کی برآمدات پر امریکی کمپنیاں 5 ہزار سے10ہزار ملازمتوں کے مواقع فراہم کرتی ہیں اور آجکل 2500 امریکی کمپنیاں سالانہ14 ارب20 کروڑ ڈالر مالیت کے آلات اور خدمات دنیا کو فراہم کررہی ہیں اور جو کمپنیاں ایک ایٹمی پلانٹ چلاتی ہیں وہ ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالر سالانہ ریاستی اور مقامی ٹیکسوں کی مد میں ادا کرتی ہیں۔ یہ وہ مثبت پہلو ہے جو ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کی صورتحال کی ترجمانی کرتی ہے ۔
جہاں تک وزیراعظم کے ہالینڈ اور لندن دورے کے مفید اور مثبت نتائج کا تعلق ہے وہ وقت بتائے گا کہ ڈرون حملے نہ ہونے اور طالبان سے مذاکراتی عمل سے پاک امریکا تعلقات کی بہتری کا سفر کیا موڑ اختیار کرے گا اور ایٹمی کلب اور سپلائیرز گروپ کے ممالک پاکستان کے ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کے بنیادی حق کی توثیق میں کشادہ نظری اور دریا دلی کا کب مظاہرہ کرتے ہیں ۔تاہم وزیراعظم کا یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ اب پاکستان جمہوریت کے راستے پرچل پڑا ہے ،جس کے لیے پاکستان نے بڑی جدوجہد کی ہے۔ ادارے مستحکم ہو رہے ہیں ۔اب ضرورت اس جمہوریت کے تحفظ اور عوام کی خوش حالی کی ہے ۔ یاد رہے کہ کامیابی کی کلید معاشی ترقی ،انصاف ، داخلی امن اور غربت کے خاتمہ میں مضمر ہے۔