چلو پھر یونہی سہی
میں ایک طالب علم ہوں۔طالب علم متجسس ہوتا ہے۔سوال پہ سوال کرکے آگے بڑھتا ہے
میں ایک طالب علم ہوں۔طالب علم متجسس ہوتا ہے۔سوال پہ سوال کرکے آگے بڑھتا ہے۔میں بھی جانناچاہتا ہوں،اپنے علم میں اضافہ چاہتا ہوں۔اہل دانش کہتے ہیں کہ جاننے کا عمل مہد سے لحد تک جاری رہتا ہے۔اس لیے مجھے بھی ہر وقت جاننے کا حق حاصل ہے۔ یہ حق مجھے دارالحرب میں حاصل ہوجاتا ہے، مگر دارالایمان میں نہیں۔مجھے اسکول میں پڑھایا گیا، کالج میںسکھایا گیا اور یونیورسٹی میں سمجھایا گیا کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک امہ ہیں۔ میں نے اس قول کو خلوصِ دل سے تسلیم کیا اورذہن وقلب کے ہر گوشے میں یہ بٹھالیا کہ واقعی نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر ہزاروں میل پر محیط سرسبزوشاداب اور قدرت کی نعمتوں سے مالامال پورا خطہ میرا اپنا وطن ہے۔یہی وجہ ہے کہ میرا دل ارض مقدس سے سمرقند وبخارا اور مولانا رومی کے مولد ومدفن ترکی تک اور بحیرہ ظلمات سے بحرالکاہل کے ساحلوں تک پھیلی مملکتوں میں آباد مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ مجھے ان کے دکھ اپنے دکھ لگتے ہیں،ان کے پائوں میں چبھے کانٹے کی ٹیس اپنے وجود میں محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے سے اپنے مسلم بھائیوں کی بلند ہونے والی آواز پر لبیک کہتا ہوا ان کی مدد کو لپکتا ہوں۔
مگر ان تلخ حقائق کا کیا کروں جو میرے ذہنِ نارسا پر مسلسل کچوکے لگا کر مجھے اپنی راسخ سوچ تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔میرا کم عقل ذہن اکثر یہ سوال کرتا ہے کہ جب ہم ایک امہ اور ایک قوم ہیںاورکرہ ارض پر پھیلے تمام 56 مسلمان ممالک میرا وطن ہیں،تو پھر مجھے ان میں آنے جانے کے لیے ویزے کی کیوں ضرورت پڑتی ہے۔جب کہ کفر کی سرزمین یورپ میں تو ایسا نہیں ہوتا۔یورپی یونین کے شہری تو بغیر کسی ویزا پاسپورٹ ہر ملک میں دندناتے پھرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم جیسے ایشیائی وافریقی باشندے بھی یورپی یونین کا ویزا حاصل کرنے کے بعد تمام رکن ممالک میں بلاروک ٹوک آجاسکتے ہیں۔پھر یہ خیال بھی ذہن میں آتا ہے کہ وہ ان گنت محنت کش جوکسی برادر اسلامی ملک میں کئی دہائیوں سے نیک نیتی کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہے ہیں، انھیںکیوں ان ممالک کی شہریت نہیں ملتی۔جب کہ وہ تمام ایشیائی اور افریقی باشندے جو یورپ وامریکا میں جابستے ہیں، نہ صرف وہاں کے مستقل شہری ہوچکے ہیں، بلکہ انھیں وہاں ووٹ دے کر اپنے نمایندے منتخب کرنے اور خود انتخابات میں حصہ لے کر اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے کا حق بھی مل چکاہے۔
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تنزانیہ سے تعلق رکھنا والا ایک سیاہ فام شخص دو مرتبہ امریکا جیسی عالمی طاقت کا صدر منتخب ہوجاتا ہے۔ جس کا نسلی پس منظر اور خاندانی عقیدے کی چغلی کھاتا نام، اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ اسی طرح ان گنت ایشیائی وافریقی باشندے یورپی اور امریکی ممالک کی اسمبلیوں کے اراکین ہیں اور کئی ایک وزارتوں تک پر فائزہوئے ہیں۔ کوئی ان سے ان کے وطنِ مولوف کے بارے میں استفسار نہیں کرتا۔کوئی انھیں ان کے حق سے محروم نہیں کرتا۔ مگر برادر اسلامی ممالک میں ہم آج بھی عربی اور عجمی کی تقسیم کا شکار ہیں۔ہم سے ہماری قومی شناخت کے بارے میں استفسار کیا جاتا ہے۔ ذرا سی لغزش پر ہمیں ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے۔لیکن جب مفادات کے حصول کا موقع آتا ہے، تو حکمرانوں سے علماء تک سبھی ہمیں امہ کا حصہ ہونے کی یاد دہانی کراتے ہیں اور ہمیں امہ کے لیے کردار ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن جب ہمارے حقوق کا معاملہ درپیش ہوتا ہے،تو پھر وہی صدیوں پرانی قبائلی تقسیم آڑے آجاتی ہے۔ علماء اور حکمران ہماری طرف سے منہ پھیرلیتے ہیں۔
اب جہاں تک یورپ وامریکا کے دارالحرب ہونے کا تعلق ہے،تو یہ اصطلاح بھی آج تک سمجھ میں نہیں آئی۔لغت کے مطابق دارالحرب وہ مملکت ہوتی ہے، جہاں غیر مسلموں کی حکومت ہو اور جو مسلمانوں کو ان کے عقائد کے مطابق زندگی گذارنے کی اجازت نہ دے۔مگر ہمیں کسی بھی یورپی ملک میں ایسا کوئی اقدام نظر نہیں آتا۔ہر چھوٹے بڑے ملک میں جہاں مسلمانوں کی کتنی کم آبادی کیوں نہ ہو،مساجد اور امام بارگاہیں موجود ہیں۔مسلم ممالک کے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے تبلیغی جتھے بھی آئے دن ان ممالک میں تبلیغی دوروں پرآئے رہتے ہیں۔ہمیں یورپی ممالک میں نماز ادا کرتے ہوئے کوئی خوف نہیں ہوا، لیکن مسلم ممالک میں ہم چوکنا رہے کہ مباداً ہمارا اندازِ عبادت اس ملک کے اکثریت مسلک کے لیے ناراضگی کا سبب نہ بن جائے۔اس لیے تعریف کی رو سے یورپی اور امریکی ممالک کو بے شک غیر مسلم کہہ دیا جائے، لیکن دارالحرب قطعی قرار نہیںدیاجا سکتا۔ ویسے غیر مسلم کی اصطلاح بھی ان پر صادق نہیں آتی ،کیونکہ انھوں نے ریاست کو مذہب سے الگ کردیا ہے اور وہاںکسی شہری کی شناخت اس کے مذہب یا عقیدے کے بجائے اس کی قومیت سے ہوتی ہے اور کسی بھی مذہب کو ماننے والاشخص اپنی اہلیت کی بنیاد پر اعلیٰ ترین منصب تک پہنچ سکتاہے۔
بزرگوں کا قول ہے کہ خوفزدہ تین طرح کے افراد ہوتے ہیں۔اول، ذہنی طورپر کمزور۔دوئم،جسمانی طورپر کمزور۔سوئم،فکری طورپر غیر منطقی۔میں کسی اور کے بارے میں کچھ نہیں کہتا،البتہ مجھ میں یہ تینوں کمزوریاں موجود ہیں اور اسی لیے میں ہروقت خوفزدہ رہتا ہوں۔مجھے اکثر پڑوسیوں کے گھر پر قابض ہوجانے کا خطرہ لاحق رہتاہے۔اس کے علاوہ میں علمی گفتگو سے بھی گریز کرتا ہوں کہ مباداً میرے نظریات نہ تبدیل ہوجائیں اور دوسروں کا منطقی استدلال میرے عقائد کو متزلزل نہ کردے۔کئی برس پرانی بات ہے، میں نے کیمبرج یونیورسٹی کی تیار کردہ ایک دستاویزی فلم دیکھی تھی۔ نام تھا اس کا Triumph of the Westیعنی مغرب کی سربلندی ۔اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ دنیا میں وہی اقوام سربلند ہوئی ہیں، جنہوں نے تاریخ کے ارتقائی عمل کو سمجھا ہے۔اپنے علم کی بنیاد پر اپنے ذہنِ رساکو تحقیق و تخلیق کا عادی بنایا ہے۔ ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھتے ہوئے اس کی حفاظت کا بندوبست کرنے کے لیے آلاتِ حرب کوبھی تسلسل کے ساتھ جدید بنایا۔ مثال یہ دی کہ عظیم الشان رومن سلطنت تیسری اور چوتھی صدی کے دوران اپنے اندرونی خلفشار کے باعث سیاسی، معاشی اور ادارہ جاتی طورپر اس قدر کمزور ہوچکی تھی کہ غیر مہذب اور درندہ صفت گروہوں کے حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے زمیں بوس ہوگئی۔ کسریٰ کی عظیم الشان سلطنت جو دنیا کی چند باوقار تہذیبوں میں سے ایک تھی، ریگزارِ عرب سے اٹھنے والے بگولوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ڈھیر ہوگئی۔ اسی طرح بغداد میں جنم لینے والی تہذیب وحشی واجڈ منگولوں کے قدموںتلے روندی گئی۔پھر رام اور کرشن کی دھرتی جسے عظیم اشوکانے سلطنت کا منصب ومرتبہ عطاکیاتھا،وقت و حالات کے تھپیڑے کھاتے ہوئے اس حال کو پہنچی کہ شمال سے اٹھنے والے طوفانوں کی نذر ہوکرکر ایسی بکھری کہ پھر سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔
بات سے بات نکلتی ہے۔ پانچ ہزار برس کی تاریخ ہے۔درہ خیبر سے آنے والے حملہ آوروں کے قدم کبھی واپس نہیں لوٹے۔جو ایک بار سندھ و ہند کی خوشبوئوں کے حصار میں آگیا،وہ ایسا اسیر ہوا کہ پھر پلٹ کر اپنے اصل وطن کی طرف نہیں گیا۔مشرق میں بنگال اور جنوب میں راس کماری تک درہ خیبر عبور کرنے والوں کے قدموں کے نشان کئی صدیوں سے ثبت چلے آرہے ہیں۔اٹھارویں صدی میں دلی کے ایک جید نے سلطنت کی ابتری کو دیکھتے ہوئے شمال کے ایک حکمران کو اصلاح ِاحوال کے لیے دعوت دی ۔مگر تاریخ نے جومنظر دیکھا وہ ناقابل بیان ہے۔ صرف دلی ہی نہیں راستے میں آنے والا ہر شہر روندا گیا اور ہر ذی حیات بے توقیرہوا۔ کئی ہفتوں تک لوٹ مار کے بعد جب لشکر جرار واپس ہوا تو سلطنت ہند پہلے سے بھی زیادہ نحیف وناتواں ہوئی ،یہاں تک کہ انیسویں صدی کے آغاز سے ہی عملاً انگریزوں کی دست نگر ہوگئی۔ پھرچند سرپھرے حریت پسندوں کے جوشِ قوم پرستی نے1857ء میں رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔
آج پھر کچھ جیدوباصفاء شخصیات شمال سے اٹھنے والے بگولوں سے خیر کی توقع لگائے ہندوسندھ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی خواہش میں مبتلا ہیں۔وہ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ جسے ہم طوفانِ باد وباراں سمجھ رہے ہیں، وہ دراصل ابر رحمت ہے، جو ہمارے ذہنوں کی کدورتوں کو دھوکر ہمارے وجود کواجلا کردے گا۔اس لیے ہمیں 60ہزار لوگوں کی جانوں کو نذارانہ سمجھتے ہوئے فراموش کردینا چاہیے، کہ اسی میں ہم سب کا بھلا ہے اورشاید یہی خواہش خلیج میں بیٹھے میرے چند آقائوں کی بھی ہے۔جن کی دھن دولت میرے اندھیرے گھر میں چراغ جلانے اور چولہا دہکانے کا باعث ہے۔تو صاحبو ہم ہوئے کہ میر ہوئے اب سب اسی زلف کے اسیر ہوئے۔ایک بار پھر شمال سے اٹھنے والی دھول اور گھوڑوں کی چاپوں پر دھیان دیے اپنے مقدر کی تبدیلی کا خواب آنکھوں میں سجائے مگن ہیں۔ لیکن مجھ جیسے احمقوں ایسے بھی ہیں، جن کے دل وسوسوں اور خدشات کی آماجگاہ ہیں۔ہم اسی خوف میں مبتلاہیں کہ کہیںتاریخ اٹھارویں صدی والی کہانی تو نہیں دہرانے جارہی؟اگر ایسا ہوا تو مقتدر اشرافیہ (جن میں خاکی اور سفید پوش دونوں شامل ہیں) اور اہل جبہ ودستار سبھی دارالحرب کا رخ کرکے اماں پالیں گے، مگر ہم جیسے مفلس و لاچار انسانوں کا کیا بنے گا، جو پہلے ہی نانِ شبینہ کے محتاج اور کہیں آنے جانے کے قابل نہیں ہیں ۔