موجودہ حالات کے تناظر میں

بعض اوقات حکومتی اراکین کی طرف سے ایسے ایسے مضحکہ خیز بیانات سامنے آتے ہیں کہ بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے


Naseem Anjum March 27, 2014
[email protected]

بعض اوقات حکومتی اراکین کی طرف سے ایسے ایسے مضحکہ خیز بیانات سامنے آتے ہیں کہ بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے یا مسکرانے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ہنسنا چاہتا ہو، لیکن ہنس نہ سکے کہ مجبوری اور موقع کی نزاکت ہے۔

موجودہ حالات کے تناظر میں ہمارے وزیر اعلیٰ سندھ مسکرانے کے مواقعے فراہم کرتے ہی رہتے ہیں اور یہ ان کی دریا دلی اور خوش مزاجی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے واقعے کا ذکر بے حد خوش دلی کے ساتھ کرتے ہیں، تھر کی ہی تشویشناک صورت حال کو لے لیجیے کہ جب قحط بڑھتا گیا اور لوگ اپنے ننھے بچوں کو موت کی گود میں دینے پر مجبور ہو گئے اور تھر کے رہنے والے فاقہ کشی کا شکار ہوئے تو ان حالات کے پیش نظر وزیر اعظم پاکستان نے نہ صرف تھر کا دورہ کیا بلکہ ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان بھی کیا اور یہ بھی فرمایا کہ اس صورتحال کے ذمے داروں کو سخت سزا دی جائے، چولستان بھی تھر جیسا ہی علاقہ ہے، وہاں ایسی صورت حال کیوں نہیں پیدا ہوئی؟

یقینا 10 مارچ کو نواز شریف تشریف لائے ہوں گے اور 11 مارچ کی اخبار کی شہ سرخی ہے خبر کے مطابق قحط سالی کے باعث جو بیماریاں پھیلیں ان جان لیوا بیماریوں نے تھر کی ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں اور 127 بچے موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس قسم کے سنگین حالات میں وزیر اعلیٰ سندھ نے بے حد معصومیت کے ساتھ نواز شریف سے کہا کہ یہ تو (تھر کی خواتین) ہمارے سامنے گھونگھٹ کاڑہتی ہیں، پتہ نہیں، یہ آپ کے سامنے کیسے اٹھا دیا، میں پہلے بھی آیا تھا، یہ منہ سے بولتی نہیں تھیں، بات کرتی نہیں، ابھی کیسے انھوں نے بات کر لی ہے۔ مجھ سے تو بات نہیں کی۔ جواب میں وزیر اعظم زیر لب مسکرا کر رہ گئے۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ زیادہ تر بچے ٹھنڈ سے مرے ہیں، اور بچوں کی تعداد پچاس سے زیادہ نہیں ہے، اب سوچنے کی بات ہے کہ یہ بچے اگر سردی سے ٹھٹھر کر مرے ہیں، تب گندم کی جگہ تھر کے مظلوم و محروم لوگوں کے لیے گرم کپڑوں اور بستروں کا انتظام کیا جانا چاہیے، ایک لاکھ 20 ہزار گندم کی بوریاں فراہم کرنے کی ضرورت ہر گز پیش نہیں آتی۔

ہفتہ/دس دن گزرنے کے بعد بھی تھر کے حالات جوں کے توں ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ وفاقی حکومت کی ایک ارب روپے اور خیبر پختونخوا کی 10 کروڑ روپے کی امداد کہاں گئی؟ اس بڑی رقم سے تو اتنے دنوں میں حالات پر قابو پایا جا سکتا تھا، کئی ٹیوب ویلز لگ جاتے، بے شمار ہوٹل اور جنرل اسٹور کھل جاتے تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے تقسیم کیے جاتے اور ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں کلینک وجود میں آ جاتے، آسمان تلے پڑے ہوئے بے کس عوام کے لیے چھت کا انتظام کر دیا جاتا، لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا؟ لوگ اسی طرح ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں ہوتا ہے جس دن موت صحرائے تھر کے پھولوں کو اپنے پیروں تلے نہ مسل دے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تھر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور اسپتالوں میں جا کر مریضوں کی عیادت کی اور ان کی بہتر نگہداشت کے احکامات جاری کیے، ایک طرف پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے لوگوں کے آنسو پونچھنے کی کوشش کی تو دوسری طرف ان کی مٹھی آمد کی وجہ سے پولیس نے پورے شہر کو اپنے حصار میں لے لیا نہ کوئی پبلک ٹرانسپورٹ چلی اور نہ ہی بازار کھلنے کی اجازت دی گئی، ان حالات میں مریض اسپتال بھی نہ جا سکے بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے کئی بچے دم توڑ گئے۔ 3 سالہ سلمیٰ جو کہ مٹھی کی رہائشی تھی وہ بھی جان کی بازی ہار گئی اس کی وجہ اس کے لواحقین کو اہم شخصیات کی آمد کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہونے نہیں دیا تھا، وزیر اعظم کے احکامات کی بنا پر مٹھی کے تمام اسپتال کھول دیے گئے اور تمام کاروباری سرگرمیاں بھی بحال کرنے کا حکم دیا۔ وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں اور دکھوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے، یہ اہم شخصیات ایک طرف غمزدہ و بیماروں کے دکھوں کو کم کرنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف آنسوؤں کی سوغات بھی تقسیم کرتے ہیں۔

جب ہم تھر میں ہونے والی اموات، فاقہ کشی اور بیماریوں کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں سندھ فیسٹیول بھی یاد آجاتا ہے۔ یہ کیسا تضاد ہے ایک طرف رقص و سرور کی محفلیں بام عروج پر جلوہ فگن ہیں تو دوسری طرف ناانصافی، ظلم و بربریت کی کہانیاں پروان چڑھ رہی ہیں، اس قدر بے خبری اور سفاکی کسی بھی صاحب اختیار کو زیب نہیں دیتی ہے۔ اپنے اختیارات و فرائض سے چشم پوشی کرنا عذاب اور انقلاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

ہمارے ملک سے انصاف کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے قحط سالی کے متاثرین پر کے ساتھ بھی ناانصافی کی جا رہی ہے، جیالے اور ارکان پی پی اپنے اپنے چاہنے والوں کو گندم تقسیم کر رہے ہیں، رینجرز، فوج اور پولیس ان حالات کا آخر کیوں نوٹس نہیں لے رہی ہے؟ اور نہ ہی عدالتی کارروائی کی جا رہی ہے۔ غیر منصفانہ رویے سے دل برداشتہ ہو کر لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں اس کی وجہ انھیں کسی قسم کی امداد میسر نہیں، فلاحی اداروں کی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن تھرپارکر کے ہزاروں لوگ استفادہ کرنے سے قاصر ہیں، سیکڑوں بوریاں گندم کی تقسیم کرنے کا جو دعویٰ کیا تھا اس سے بھی حقدار محروم رہے اور آپس میں ہی اجناس کو تقسیم کر لیا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ گندم ختم ہو گئی اور گوداموں میں تالے ڈال دیے گئے۔ لیجیے یہ ہو گئی مدد، وہ بھی کروڑوں اور اربوں روپے کی۔

حکومت سندھ کو اپنے رویے میں سنجیدگی لانے اور غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے، سندھ، خصوصاً کراچی کے حالات بھی ایک طویل عرصے سے بے حد خراب ہیں قتل و غارت گری بلاناغہ کی جاتی ہے، ساتھ میں لیاری کے مکینوں کا جینا بھی حرام کر دیا گیا ہے، رینجرز کے آپریشن کرنے کا کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ تمام نفری کو ان آپریشنوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے اب رینجرز کے اہلکاروں کی تعداد اس قدر کم ہے کہ وہ دوسری ذمے داریوں کو نبھائیں اور شہریوں کو تحفظ فراہم کریں، اسٹریٹ کرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بینک لوٹنے کے واقعات ہر روز جنم لے رہے ہیں پورا شہر کراچی لٹیروں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صوبہ یتیم ہو چکا ہے۔ اندرون سندھ میں سیلاب اور قحط کی تباہ کاریاں، تعلیم کی ناقدری زوروں پر ہے، غریب اور بے سہارا لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، وہ مریں یا جئیں، حکومت کو اس سے غرض نہیں۔ جب پانی سر سے اونچا ہوتا ہے اور میڈیا ظلم و بربریت کی کہانیوں کی خوب تشہیر کرتا ہے پھر اس وقت ذمے داران حرکت میں آ جاتے ہیں اور یہ بہت بڑا المیہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں