سفید بال اور کالے بال
بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے۔ حقیقت میں کالے اور سفید بال دو نسلوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔
سر کے بالوں کے رنگوں کے عنوان سے آج کا کالم ہے؟ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے۔ حقیقت میں کالے اور سفید بال دو نسلوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ نئی نسل اور پرانی نسل۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنے بالوں کو رنگ کر کے سفیدی کو سیاہی میں بدل دے۔ آج کل تو جوانی میں ہی بال سفید ہو جاتے ہیں۔ یہ رعایت دے دیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کے بال لڑکپن میں سفید ہو گئے ہوں۔ یہ بات نظر انداز کر دیں۔ کچھ بھی ہو ہم آج ان نوجوانوں کی بات کر رہے ہیں جو آج نوجوان ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ان نوجوانوں کی بھی بات کر رہے ہیں جو گزرے کل میں نوجوان تھے۔ الگ الگ عمر کے لوگوں کو کیا بات قریب لائی ہے؟ ہم شعر و نغمے کی محفل کی بات کریں گے جس نے سفید اور کالے بال والوں کو قریب کر دیا۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کرکٹ کے میچز پاکستانیوں کو قریب کر دیتے ہیں۔ پھر کوئی پٹھان، پنجابی، سندھی، اردو بولنے والا اور سرائیکی اور کچھ حد تک بلوچ نہیں رہتا۔ ہر کوئی پاکستانی بن کر میچ دیکھتا ہے۔ وطن کے جیتنے پر خوشی اور پاکستان کے ہارنے پر غم سانجھا ہوتا ہے۔ پھر کوئی شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی نہیں رہتا۔ ہر کوئی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہری بن جاتا ہے۔ جس طرح کرکٹ قومیتوں اور مسلکوں کی جنگ ختم کر کے تمام پاکستانیوں کو یکجا کر دیتا ہے اسی طرح پاکستانی گانوں اور نغموں نے نئی نسل اور پرانی نسل کو یکجا کر دیا ہے۔ یکجائی کا یہ عمل کس نے کیا؟ یہ نہایت دلچسپ کہانی ہے۔ پہلے سمجھیں کہ دوری کیا تھی۔
وحید مراد کا تھری پیس سوٹ میں ہونٹ ہلانا اور احمد رشدی کی آواز۔ فلم رنگین ہو گانا خوشی کا ہو اور پکچرائز ہو ایک کلب میں پھر بھی نوجوان نسل گانا سننے اور دیکھنے کو ایک منٹ ٹھہرنے کو تیار نہ رہتی۔ اگر بلیک اینڈ وائٹ دور کی فلم کا ہیرو ہو جو سر میں تیل لگائے پیانو پر دھیمے سروں میں نغمہ سرائی کر رہا ہو تو نئی نسل کا فرار سمجھ میں آتا۔ یہاں تو اسمارٹ ہیرو اور تیز گانا بھی نوجوانوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیتا۔ ایک دو وکیل دوستوں سے بات ہوئی تو انھوں نے بھی کہا کہ ہمارے بچے ہمارے پسندیدہ گانوں کو پسند نہیں کرتے۔ ان سے کہا کہ ہمارے والد اور چچا کے زمانے میں طلعت اور سہگل مشہور ہوا کرتے تھے۔ انور مقصود کو ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم اور مائی بھاگی کو پسند کرتے دیکھا گیا ہے۔ جس طرح ہمیں اپنے سے پہلے والی نسل کے پسندیدہ گانوں میں دلچسپی نہ تھی اسی طرح ہمارے بعد والی نسل ہمارے دور کے مقبول نغموں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی ہے۔ دل کے بہلانے کو دوستوں سے یہ بھی کہا کہ ممکن ہے ہمارے بچوں کی پسندیدہ فلموں اور گانوں کو ہمارے پوتے پوتیاں ناپسند کر کے مسترد کر دیں۔ کالم نگار کی اس مایوسی کا توڑ احمد، اقبال اور فاروقی نامی تین لوگوں نے کیا۔
45 سے 55 سال کی عمر کے لوگ تقریباً ہر شعبے میں فیصلہ کن حیثیت میں ہوتے ہیں۔ اگر ان کے پاس تعلیم و ہنر ہو تو تجربہ انھیں بلند مقام عطا کرتا ہے۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں اکلوتے پی ٹی وی اور فلم کی تفریح اس دور کے نوجوانوں کا رومانس تھی۔ لائن میں لگ کر ٹکٹ لینا اور ڈنڈے کھا کر بے مزہ نہ ہونا، اس زمانے کی خوشگوار یاد تھی۔ پہلے شو کی پہلی فلم اور دوستوں سے آگے نکل جانا پچاس اور ساٹھ کے عشرے کی یاد تھی۔ چچا اور ماموں سے سننا کہ اتوار کی ملاقات اور فلم دیکھنے کی پلاننگ میں ایک دو دوست کہتے کہ یہ فلم انھوں نے جمعے کو تین بجے والے شو میں دیکھ لی ہے۔ دوسری مرتبہ بھی فلم دیکھنا اور چند نادان دوستوں کا فلم کا اینڈ یا اسٹوری سن لینے کا قصہ مزہ دیتا۔ 65ء تک پاکستانی سینماؤں میں بھارتی فلمیں دکھائی جاتیں تو چچا اور ماموں دو طرفہ مزہ لیتے۔ اب ان کی عمریں ستر برس سے زیادہ کی ہیں۔ اب وہ کیا کریں جنھوں نے صرف پاکستانی فلمیں ہی سینماؤں میں دیکھی ہیں اور آج کل وہ چالیس اور پچاس کے پیٹے میں ہیں۔ آج سفید بالوں کے لوگوں کی پسند کو کالے بال والے لفٹ نہ کروائیں تو؟
بڑے عہدوں پر فائز اور فن کی دنیا میں اعلیٰ مقام رکھنے والے سفید بال والوں نے اس کا توڑ نکالا۔ انھوں نے اپنے مہدی حسن، نور جہاں، رونا لیلیٰ، مسعود رانا، احمد رشدی کے نغموں کو نوجوانوں سے گوایا۔ وحید مراد، شبنم، زیبا، شاہد، رانی، شمیم آرا، محمد علی، بابرا شریف اور ندیم پر فلم بند کیے ہوئے گانوں کو نئی نسل کی زبانی سن کر اپنی یادوں کو تازہ کیا۔ ٹی وی اور اسٹیج پر اچھی پوزیشن پر فائز سفید بال والوں نے دو نسلوں کے فاصلے کو کم کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔
''تم یاد آئے'' کے نام سے آرٹس کونسل میں سن پچاس سے 80ء کی دہائی کے نغموں کے پروگرام نے دل لوٹ لیا۔ تین گھنٹے میں تین عشروں کو تو نہیں سمویا جا سکتا تھا لیکن جس خوب صورتی سے نوجوانوں نے گایا، وہ قابل تحسین ہے۔ ادھیڑ عمر کے پڑھے لکھے اور شعر و نغمہ سے دلچسپی رکھنے والوں سے ہال بھر چکا تھا۔ کئی سو لوگ باہر ٹی وی اسکرین پر لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس مقبولیت کا سبب کیا ہے؟ آج جو لوگ سفید بال والے ہو چکے ہیں انھیں اپنی جوانی کی اس بھولی بسری یاد کو یاد کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ احمد شاہ، اعجاز فاروقی اور اقبال لطیف نے کراچی آرٹس کونسل میں ایک شاندار تقریب سجا کر با علم، با اختیار و تجربے کار سفید بال اور پرعزم و باہمت سیاہ بال والوں کے درمیان پل کا کام سر انجام دیا۔ مقبول ترین گلوکاروں کے شاندار بلکہ پیچیدہ و مشکل نغموں کو عمدگی سے گا کر ابھرتے ہوئے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی سے کم نہیں۔
دل خوش کیوں ہوا؟ جب کوئی شخص پچیس تیس سال قبل کی کوئی چیز یاد کرتا ہے تو اسے اپنا ماضی یاد آ جاتا ہے۔ کالج یا یونیورسٹی کا نوجوان بھی اگر اپنے اسکول چلا جائے تو بچپن کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ گانوں سے گلوکار و اداکار اور پھر وہ دور یاد آ جاتا ہے کہ جوانی میں یہ فلم کس کے ساتھ دیکھی تھی۔ یہ فلم فلاں شہر میں ان دوستوں کے ساتھ دیکھی تھی۔ یہ فلم انٹر کے امتحان ختم ہونے کے چند گھنٹوں بعد دیکھنے گئے تھے۔ اس فلم کے ٹکٹ کے لیے بڑی جدوجہد کی تھی۔ فلاں گانوں کی کیسٹ فلاں بازار سے لی تھی۔ یوں یہ صرف چند گانے، غزلیں یا گیت نہیں ہوتے بلکہ سہانی یادیں ہوتی ہیں۔ کچھ بھولی بسری داستانیں ہوتی ہیں جو یاد آ جاتی ہیں۔ ذہن کے پردہ اسکرین پر جوانی کے وہ مناظر چلنے لگتے ہیں جنھیں وقت کے بے رحم تھپیڑوں نے گرد آلود کر دیا ہے۔ نوجوان کی صاف و شفاف آواز نے وقت کے آئینے سے مٹی ہٹاکر دور شباب کی یاد تازہ کر دی۔ جوانی میں نغمے سننے والوں کو بالوں میں چاندی آ جانے پر آج کے نوجوانوں نے ہماری اپنی موسیقی کے وہ گیت سنائے جو انھوں نے خود اس سے قبل نہ سنے تھے۔
''جنریشن گیپ''کا مسئلہ ہر دور میں ہر نسل کو پیش آتا ہے۔ ہر زمانہ اپنے آپ کو جدید اور پچھلے کو قدیم سمجھتا ہے۔ پسند و ناپسند بدل جاتی ہیں اور فیشن تبدیل ہو جاتے ہیں۔ نوجوان سمجھتے ہیں کہ ہم سے بڑوں نے نہ کبھی ہلہ گلہ کیا ہو گا اور نہ ہماری طرح انجوائے کرتے ہوں گے۔ بالوں میں ہلکی سی چاندی اور بچوں کے بڑھتے قد و عمر انھیں سنجیدگی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ بات ''طاؤس و رباب اول'' کی نہیں بلکہ سفید اور کالے بال والوں کی ذہنی ہم آہنگی کی ہے۔ اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ آنے والا بڑھاپا خیریت سے گزر جائے۔ کرکٹ اور دوسرے کھیل صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ تمام ممالک کی مختلف آبادیوں کو اکٹھا کر دیتے ہیں۔ اسی طرح سن پچاس سے 80ء تک کے نغمے ہوں اور نوجوانوں کی آواز پر ادھیڑ عمر کے لوگوں کا بھرپور داد دینا کیا کر گیا؟ کمال کر گیا کہ دو نسلوں کو قریب کر گیا۔ ٹی وی کے کئی چینلز نوجوانوں کو پرانے دور کی فلموں کے سریلے، مدھر اور مترنم گانوں کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ بتا رہے ہیں کہ ہمارا ماضی شاندار تھا۔ بزرگوں یا نوجوانوں کو اسے کم اہم سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سب کچھ صرف گانے بجانے تک محدود نہیں بلکہ قریب کر رہا ہے دو نسلوں کو۔ ان کو جن کے ہیں سفید بال اور کالے بال۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کرکٹ کے میچز پاکستانیوں کو قریب کر دیتے ہیں۔ پھر کوئی پٹھان، پنجابی، سندھی، اردو بولنے والا اور سرائیکی اور کچھ حد تک بلوچ نہیں رہتا۔ ہر کوئی پاکستانی بن کر میچ دیکھتا ہے۔ وطن کے جیتنے پر خوشی اور پاکستان کے ہارنے پر غم سانجھا ہوتا ہے۔ پھر کوئی شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی نہیں رہتا۔ ہر کوئی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہری بن جاتا ہے۔ جس طرح کرکٹ قومیتوں اور مسلکوں کی جنگ ختم کر کے تمام پاکستانیوں کو یکجا کر دیتا ہے اسی طرح پاکستانی گانوں اور نغموں نے نئی نسل اور پرانی نسل کو یکجا کر دیا ہے۔ یکجائی کا یہ عمل کس نے کیا؟ یہ نہایت دلچسپ کہانی ہے۔ پہلے سمجھیں کہ دوری کیا تھی۔
وحید مراد کا تھری پیس سوٹ میں ہونٹ ہلانا اور احمد رشدی کی آواز۔ فلم رنگین ہو گانا خوشی کا ہو اور پکچرائز ہو ایک کلب میں پھر بھی نوجوان نسل گانا سننے اور دیکھنے کو ایک منٹ ٹھہرنے کو تیار نہ رہتی۔ اگر بلیک اینڈ وائٹ دور کی فلم کا ہیرو ہو جو سر میں تیل لگائے پیانو پر دھیمے سروں میں نغمہ سرائی کر رہا ہو تو نئی نسل کا فرار سمجھ میں آتا۔ یہاں تو اسمارٹ ہیرو اور تیز گانا بھی نوجوانوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیتا۔ ایک دو وکیل دوستوں سے بات ہوئی تو انھوں نے بھی کہا کہ ہمارے بچے ہمارے پسندیدہ گانوں کو پسند نہیں کرتے۔ ان سے کہا کہ ہمارے والد اور چچا کے زمانے میں طلعت اور سہگل مشہور ہوا کرتے تھے۔ انور مقصود کو ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم اور مائی بھاگی کو پسند کرتے دیکھا گیا ہے۔ جس طرح ہمیں اپنے سے پہلے والی نسل کے پسندیدہ گانوں میں دلچسپی نہ تھی اسی طرح ہمارے بعد والی نسل ہمارے دور کے مقبول نغموں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی ہے۔ دل کے بہلانے کو دوستوں سے یہ بھی کہا کہ ممکن ہے ہمارے بچوں کی پسندیدہ فلموں اور گانوں کو ہمارے پوتے پوتیاں ناپسند کر کے مسترد کر دیں۔ کالم نگار کی اس مایوسی کا توڑ احمد، اقبال اور فاروقی نامی تین لوگوں نے کیا۔
45 سے 55 سال کی عمر کے لوگ تقریباً ہر شعبے میں فیصلہ کن حیثیت میں ہوتے ہیں۔ اگر ان کے پاس تعلیم و ہنر ہو تو تجربہ انھیں بلند مقام عطا کرتا ہے۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں اکلوتے پی ٹی وی اور فلم کی تفریح اس دور کے نوجوانوں کا رومانس تھی۔ لائن میں لگ کر ٹکٹ لینا اور ڈنڈے کھا کر بے مزہ نہ ہونا، اس زمانے کی خوشگوار یاد تھی۔ پہلے شو کی پہلی فلم اور دوستوں سے آگے نکل جانا پچاس اور ساٹھ کے عشرے کی یاد تھی۔ چچا اور ماموں سے سننا کہ اتوار کی ملاقات اور فلم دیکھنے کی پلاننگ میں ایک دو دوست کہتے کہ یہ فلم انھوں نے جمعے کو تین بجے والے شو میں دیکھ لی ہے۔ دوسری مرتبہ بھی فلم دیکھنا اور چند نادان دوستوں کا فلم کا اینڈ یا اسٹوری سن لینے کا قصہ مزہ دیتا۔ 65ء تک پاکستانی سینماؤں میں بھارتی فلمیں دکھائی جاتیں تو چچا اور ماموں دو طرفہ مزہ لیتے۔ اب ان کی عمریں ستر برس سے زیادہ کی ہیں۔ اب وہ کیا کریں جنھوں نے صرف پاکستانی فلمیں ہی سینماؤں میں دیکھی ہیں اور آج کل وہ چالیس اور پچاس کے پیٹے میں ہیں۔ آج سفید بالوں کے لوگوں کی پسند کو کالے بال والے لفٹ نہ کروائیں تو؟
بڑے عہدوں پر فائز اور فن کی دنیا میں اعلیٰ مقام رکھنے والے سفید بال والوں نے اس کا توڑ نکالا۔ انھوں نے اپنے مہدی حسن، نور جہاں، رونا لیلیٰ، مسعود رانا، احمد رشدی کے نغموں کو نوجوانوں سے گوایا۔ وحید مراد، شبنم، زیبا، شاہد، رانی، شمیم آرا، محمد علی، بابرا شریف اور ندیم پر فلم بند کیے ہوئے گانوں کو نئی نسل کی زبانی سن کر اپنی یادوں کو تازہ کیا۔ ٹی وی اور اسٹیج پر اچھی پوزیشن پر فائز سفید بال والوں نے دو نسلوں کے فاصلے کو کم کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔
''تم یاد آئے'' کے نام سے آرٹس کونسل میں سن پچاس سے 80ء کی دہائی کے نغموں کے پروگرام نے دل لوٹ لیا۔ تین گھنٹے میں تین عشروں کو تو نہیں سمویا جا سکتا تھا لیکن جس خوب صورتی سے نوجوانوں نے گایا، وہ قابل تحسین ہے۔ ادھیڑ عمر کے پڑھے لکھے اور شعر و نغمہ سے دلچسپی رکھنے والوں سے ہال بھر چکا تھا۔ کئی سو لوگ باہر ٹی وی اسکرین پر لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس مقبولیت کا سبب کیا ہے؟ آج جو لوگ سفید بال والے ہو چکے ہیں انھیں اپنی جوانی کی اس بھولی بسری یاد کو یاد کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ احمد شاہ، اعجاز فاروقی اور اقبال لطیف نے کراچی آرٹس کونسل میں ایک شاندار تقریب سجا کر با علم، با اختیار و تجربے کار سفید بال اور پرعزم و باہمت سیاہ بال والوں کے درمیان پل کا کام سر انجام دیا۔ مقبول ترین گلوکاروں کے شاندار بلکہ پیچیدہ و مشکل نغموں کو عمدگی سے گا کر ابھرتے ہوئے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی سے کم نہیں۔
دل خوش کیوں ہوا؟ جب کوئی شخص پچیس تیس سال قبل کی کوئی چیز یاد کرتا ہے تو اسے اپنا ماضی یاد آ جاتا ہے۔ کالج یا یونیورسٹی کا نوجوان بھی اگر اپنے اسکول چلا جائے تو بچپن کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ گانوں سے گلوکار و اداکار اور پھر وہ دور یاد آ جاتا ہے کہ جوانی میں یہ فلم کس کے ساتھ دیکھی تھی۔ یہ فلم فلاں شہر میں ان دوستوں کے ساتھ دیکھی تھی۔ یہ فلم انٹر کے امتحان ختم ہونے کے چند گھنٹوں بعد دیکھنے گئے تھے۔ اس فلم کے ٹکٹ کے لیے بڑی جدوجہد کی تھی۔ فلاں گانوں کی کیسٹ فلاں بازار سے لی تھی۔ یوں یہ صرف چند گانے، غزلیں یا گیت نہیں ہوتے بلکہ سہانی یادیں ہوتی ہیں۔ کچھ بھولی بسری داستانیں ہوتی ہیں جو یاد آ جاتی ہیں۔ ذہن کے پردہ اسکرین پر جوانی کے وہ مناظر چلنے لگتے ہیں جنھیں وقت کے بے رحم تھپیڑوں نے گرد آلود کر دیا ہے۔ نوجوان کی صاف و شفاف آواز نے وقت کے آئینے سے مٹی ہٹاکر دور شباب کی یاد تازہ کر دی۔ جوانی میں نغمے سننے والوں کو بالوں میں چاندی آ جانے پر آج کے نوجوانوں نے ہماری اپنی موسیقی کے وہ گیت سنائے جو انھوں نے خود اس سے قبل نہ سنے تھے۔
''جنریشن گیپ''کا مسئلہ ہر دور میں ہر نسل کو پیش آتا ہے۔ ہر زمانہ اپنے آپ کو جدید اور پچھلے کو قدیم سمجھتا ہے۔ پسند و ناپسند بدل جاتی ہیں اور فیشن تبدیل ہو جاتے ہیں۔ نوجوان سمجھتے ہیں کہ ہم سے بڑوں نے نہ کبھی ہلہ گلہ کیا ہو گا اور نہ ہماری طرح انجوائے کرتے ہوں گے۔ بالوں میں ہلکی سی چاندی اور بچوں کے بڑھتے قد و عمر انھیں سنجیدگی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ بات ''طاؤس و رباب اول'' کی نہیں بلکہ سفید اور کالے بال والوں کی ذہنی ہم آہنگی کی ہے۔ اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ آنے والا بڑھاپا خیریت سے گزر جائے۔ کرکٹ اور دوسرے کھیل صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ تمام ممالک کی مختلف آبادیوں کو اکٹھا کر دیتے ہیں۔ اسی طرح سن پچاس سے 80ء تک کے نغمے ہوں اور نوجوانوں کی آواز پر ادھیڑ عمر کے لوگوں کا بھرپور داد دینا کیا کر گیا؟ کمال کر گیا کہ دو نسلوں کو قریب کر گیا۔ ٹی وی کے کئی چینلز نوجوانوں کو پرانے دور کی فلموں کے سریلے، مدھر اور مترنم گانوں کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ بتا رہے ہیں کہ ہمارا ماضی شاندار تھا۔ بزرگوں یا نوجوانوں کو اسے کم اہم سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سب کچھ صرف گانے بجانے تک محدود نہیں بلکہ قریب کر رہا ہے دو نسلوں کو۔ ان کو جن کے ہیں سفید بال اور کالے بال۔