ریکوڈک کیس 10 ارب کا جرمانہ ملک کے خلاف ہے چیف جسٹس
عالمی عدالت کا پاکستان پر عائد جرمانہ نیوکلیئر بم ہے، سپریم کورٹ
ریکوڈک کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت کا پاکستان پر عائد جرمانہ نیوکلیئر بم ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے سے پاکستان پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں ریکوڈک صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اگر بین الاقوامی کمپنی کے لئے رولز میں نرمی کرنے کا معاملہ پچھلے ریکوڈک معاہدے میں درج ہوتا تو عدالت اسے کالعدم قرار نا دیتی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کیا بلوچستان حکومت نے ہی بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے کان کنی کے رولز میں نرمی کی تھی؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بلوچستان حکومت نے پچھلے معاہدے کے لیے رولز میں نرمی کی۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت بتائے کون سی پالیسی کے تحت نیا ریکوڈک معاہدہ تشکیل دیا گیا، چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک مشاورتی باڈی بنانی چاہیے جو معاہدے کے تمام معاملات کی نگرانی کرے، ریکوڈک منصوبے میں ایک ارب کی سرمایہ کاری وفاق کر رہی ہے اور اختیارات بلوچستان حکومت کے سپرد کر دیے ہیں، ملک میں شفافیت کا حال یہ ہے کہ کابینہ میں کچھ فائلیں کھولے بغیر ہی منظوری دے دی جاتی ہے، 10 ارب کا جرمانہ کسی صوبائی ادارے کا معاملہ نہیں ملک کے خلاف ہے۔
وکیل بلوچستان بار امان اللہ نے کہا کہ ریکوڈک معاہدے سے آج تک بلوچستان کو کچھ نہیں ملا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عالمی عدالت کا پاکستان پر عائد جرمانہ نیوکلیئر بم ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے سے اثر انداز ہو سکتا ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ میں ریکوڈک صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اگر بین الاقوامی کمپنی کے لئے رولز میں نرمی کرنے کا معاملہ پچھلے ریکوڈک معاہدے میں درج ہوتا تو عدالت اسے کالعدم قرار نا دیتی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کیا بلوچستان حکومت نے ہی بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے کان کنی کے رولز میں نرمی کی تھی؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بلوچستان حکومت نے پچھلے معاہدے کے لیے رولز میں نرمی کی۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت بتائے کون سی پالیسی کے تحت نیا ریکوڈک معاہدہ تشکیل دیا گیا، چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک مشاورتی باڈی بنانی چاہیے جو معاہدے کے تمام معاملات کی نگرانی کرے، ریکوڈک منصوبے میں ایک ارب کی سرمایہ کاری وفاق کر رہی ہے اور اختیارات بلوچستان حکومت کے سپرد کر دیے ہیں، ملک میں شفافیت کا حال یہ ہے کہ کابینہ میں کچھ فائلیں کھولے بغیر ہی منظوری دے دی جاتی ہے، 10 ارب کا جرمانہ کسی صوبائی ادارے کا معاملہ نہیں ملک کے خلاف ہے۔
وکیل بلوچستان بار امان اللہ نے کہا کہ ریکوڈک معاہدے سے آج تک بلوچستان کو کچھ نہیں ملا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عالمی عدالت کا پاکستان پر عائد جرمانہ نیوکلیئر بم ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے سے اثر انداز ہو سکتا ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔