محض ایک رسم

جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانان ہند نہایت ذلت آمیز اور غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔


[email protected]

جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانان ہند نہایت ذلت آمیز اور غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اب ان کے سامنے کوئی لائحہ عمل نہ تھا، ان میں علم اور ہمت کی بھی کمی تھی۔ وہ سیاسی اور اقتصادی طور پر بری طرح دبے ہوئے تھے۔ ان کا جذبہ آزادی مردہ ہو چکا تھا۔ ان کی ایمانی قوت عمل ضعیف ہو چکی تھی۔ قوم انتشار و افتراق کا شکار تھی، امرا انگریز کے زیر اثر تھے اور مغربی تہذیب کے دلدادہ بن کر رہ گئے تھے۔ دنیوی لالچ نے ان کی زبانیں بند کی ہوئی تھیں۔ مسلمانوں کی کوئی قیادت نہ تھی۔ ہندو ہر میدان سے آگے نکل گئے تھے اور ہر شعبے میں انھی کا سکہ چلتا تھا۔ مسلمانوں کی زبوں حالی کے سبب ان کے لیے ترقی کی راہیں مسدود ہو چکی تھیں ایسے میں ایک مرد مجاہد جو دیکھنے میں نہایت دبلا پتلا اور کمزور تھا مگر ارادہ مصمم، قوائے عمل فولادی اور نگاہ بلند رکھتا تھا۔ میدان میں نکلا، اس نے انگریز اور ہندو دونوں کو للکار کر کہا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ ان کی مذہبی اور معاشرتی اقدار ہندوئوں سے بالکل الگ ہیں ان کی تہذیب و تمدن جدا ہے، مسلمان اپنے مخصوص فلسفہ حیات کی ترقی اور نشوونما کے لیے ایک الگ ملک چاہتے ہیں جہاں پر وہ یہ ثابت کر سکیں کہ مسلمان واقعی ایک الگ قوم ہیں جس کے نظریات بھی الگ ہیں۔ وہ مرد مجاہد ہمارے عظیم قائد اعظم محمد علی جناحؒ تھے جن کی سیاسی بصیرت اور بے مثال جرأت و استقلال کی بدولت پاکستان معرض وجود میں آیا۔

پاکستان اﷲ کی خاص نعمت ہے جو ہمیں عطا کی گئی، اس نعمت خداداد کے وجود میں آنے سے پہلے کے حالات و واقعات جب بھی ذہن میں آتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواب خالق پاکستان کے یقین محکم، عمل پیہم، عظمت کردار، بلندی نظر، پختگی ارادہ، جذبہ حریت و قومیت اور خلوص و ایثار کی وجہ سے شرمندۂ تعبیر ہوا ورنہ ہندو اور انگریز جیسی دو دھاری تلوار سے بچ کر نکلنا ہی مشکل تھا چہ جائیکہ سلامت بچ کر حصول مقصد میں کامیابی بھی حاصل کی جائے۔ آج سے تقریباً نصف صدی قبل برطانوی حکومت دنیا کے بیشتر حصے پر چھائی ہوئی تھی، طاقت کے اعتبار سے بہت مضبوط حکومت کے رموز کی پوری طرح واقف، انگریز کی نظر محتاط، ذہن چالاک اور مستزاد اندرون ملک کی اکثریتی ہندو قوم اس کی حاشیہ بردار بنی ہوئی تھی۔

ایسے حالات میں قدرت نے پاکستان جیسی عظیم نعمت مسلمانوں کو عطا فرمائی اور اس کے قیام کا شرف قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو حاصل ہوا۔ جنھوں نے آخری سانس تک وطن عزیز کی خدمت کی۔ آپ نے قوم کی قیادت اس وقت سنبھالی جب مسلمانان ہند کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ انگریز اور ہندو کی انتہائی مخالفت کے باوجود انھوں نے پاکستان حاصل کر کے ہی دم لیا۔ آپ نصف صدی تک نگاہ بلند سے قوم کی رہنمائی کرتے رہے اور درس حریت دیتے رہے اور جواب دشمنان دینے کا فریضہ پوری لگن، ہمت اور خلوص سے سر انجام دیتے رہے، آپ نے نظریہ اقبالؒؔ کی کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور ان کی مذہبی، سیاسی، معا شرتی ترقی کے لیے علیحدہ خطہ ارض چاہیے خوب ترجمانی کی اور بالآخر انگریز اور ہندو سے مطالبہ پاکستان منوا کر ہی دم لیا۔ اقبالؔؒ نے مسلمانوں بالخصوص مسلم نوجوانوں کی زندگی گزارنے کا صحیح ڈھنگ بتانے کے لیے ان الفاظ میں اپنے پیغام کی وضاحت کی۔

آ ئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی

اقبالؒ نے جو درس لفظوں میں دیا قائد اعظم نے اس پر عمل کر کے دکھایا اور ہمیشہ اس اصول پر کاربند رہے۔

ہمارا وطن ہمیں وراثت میں نہیں ملا بلکہ پاکستان کی بنیادیں استوار کرنے کے لیے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ، گوشت گاڑے کی جگہ اور خون پانی کی جگہ استعمال ہوا۔ اتنی گراں قدر تخلیق کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے تعمیر پاکستان میں تن من دھن، بیوی بچے، بہن بھائی، عزیز و اقارب، گھر بار قربان کیے۔ اس وطن کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ کتنی مائوں کے سامنے ان کے بچے قتل کر دیے گئے، کتنے بے بسوں کے سامنے ان سے خاندان کو مکانوں میں بند کر کے نذر آتش کر دیا گیا، کتنی پاک دامنوں نے نہروں اور کنوئوں میں ڈوب کر پاکستان کی قیمت ادا کی۔ کتنے بچے یتیم ہوئے جو ساری عمر اپنے والدین کی شفقت کے لیے ترستے رہے۔ اس وطن عزیز کی وادیاں اپنے اندر فردوس کی رعنائیاں لیے ہوئے ہیں۔ ہرے بھرے اور وسیع و عریض کھیت سونا اگل رہے ہیں، اس کے پہاڑ اور صحرا قیمتی معدنیات اور دیگر نعمتوں سے مالا مال ہیں۔ ہمیں ہر قسم کی آزادی اور ہر طرح کا سامان آسائش و آرائش میسر ہے مگر ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس میں ٹیپو سلطان کا خون، سر سید کی نگاہ دور بین، اقبال کے افکار، قائد اعظم کی جہد مسلسل اور دوسرے اکابرین کا ایثار بھی شامل ہے، ان بزرگوں کا ایک ہی مقصد تھا، ایک آزاد اور خود مختار اسلامی مملکت کا حصول آزادی کے حصول کے لیے مسلمانوں کا یہی نعرہ تھا۔

لے کے رہیں گے پاکستان

بن کے رہے گا پاکستان

اور

پاکستان کا مطلب کیا

لا الٰہ الا اﷲ

پاکستان کی قدر ان لوگوں کو ہے جن کا خون تعمیر پاکستان میں کام آیا، جب یوم پاکستان منایا جاتا ہے تو ہمارے دلوں میں ان قربانیوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ ہم تصور کی وادیوں میں دور دراز تک نکل جاتے ہیں۔ 1857ء سے لے کر 1947ء تک کے تمام واقعات ہماری نگاہوں میں گھوم جاتے ہیں اور فکر و خیال کا دھارا پاکستان تک آ کے رک جاتا ہے اور یہاں سے ایک نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے جس کے لیے نئے ولولے، نئے حوصلے اور نئی امنگوں کی ضرورت ہے۔

اس 23 مارچ کو ہم نے چوہترواں یوم پاکستان روایتی جوش و خروش سے منایا یہ وہی روز ہے جس نے قیام پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہیں سے حقیقی معنوں میں آزادی کی جد و جہد کو فیصلہ کن موڑ ملا اور 14 اگست 1947ء کو وطن پاک دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا۔ 23 مارچ مسلمانوں کی تاریخ کا وہ سنہرا دن ہے جس روز برصغیر کے کونے کونے سے ایک لاکھ مسلمانوں نے آزادی اور ایک الگ وطن کے قیام کے لیے قرارداد منظور کی جسے قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جو 1941ء میں نہ صرف مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی بلکہ اس کی بنیاد پر سات برس بعد پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا چونتیسواں سالانہ اجلاس 22 سے 24 مارچ 1940ء کو منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں منعقد ہوا، قائد اعظم محمد علی جناح نے اجلاس کی صدارت کی، نواب سر شاہ نواز ممدوٹ نے استقبالیہ خطبہ دیا اور اے کے فضل الحق نے تاریخ ساز قرارداد لاہور پیش کی، قیام پاکستان کے تیرہ برس بعد مینار پاکستان کا سنگ بنیاد 23 مارچ 1960ء کو ایک سادہ لیکن پر وقار تقریب میں ٹھیک اس جگہ رکھا گیا جہاں 1940ء میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

22 مارچ 1968ء میں مینار کی تعمیر مکمل ہوئی پانچ لاکھ روپے لاگت آئی، ترک آرکیٹیکٹ مودات خان نے آزادی کی اس 62 میٹر بلند یادگار کو زمین سے 2 میٹر اونچا چبوترے پر ڈیزائن کیا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ یوم پاکستان محض ایک رسم بن کر نہ رہ جائے کیوں کہ جب کوئی چیز رسم بن جاتی ہے تو اس کی روح ختم ہو جاتی ہے اس کی دھڑکنیں خاموش ہو جاتی ہے اور ولولے سرد و ساکت ہو جاتے ہیں، ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ کہ ہمارے کسی فعل سے وطن کے عزت پر آنچ نہ آئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد کو برقرار رکھنا چاہیے اور ذاتی اغراض کو قومی اغراض پر قربان کر دینا چاہیے۔ ہمارے اتحاد سے دشمنوں کے تمام ناپاک ارادے خود بخود ختم ہو کر رہ جائیں گے، خدا کرے ہماری نگاہوں میں نگاہ مرد مومن کی کیفیت آ جائے ہمارے دل نور ایمان سے منور ہو جائیں اور ہم ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیں جس پر تاریخ کو فخر ہو، یوم پاکستان بھی اس جذبے اور اسی مقصد کے تحت منایا جاتا ہے تا کہ ہم آیندہ نسل کے لیے ایسے عمل چھوڑ جائیں جن سے وہ اپنے دلوں کو گرماتے، جذبوں کو پروان چڑھاتے اپنی روح میں یقین سماتے رہیں، اﷲ ہر پاکستانی کو اس ملک پاک سے سچی محبت کی توفیق عطا فرمائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔