تیروں کے نشانے
یہ تیروں والے بھی نشانہ تاک کر لگاتے ہیں۔ کبھی دل کے پار ہو جاتے ہیں اور مجنوں کو پتھر کھانے کے لیے
QUETTA:
یہ تیروں والے بھی نشانہ تاک کر لگاتے ہیں۔ کبھی دل کے پار ہو جاتے ہیں اور مجنوں کو پتھر کھانے کے لیے دنیا کے سامنے پھینک دیتے ہیں، تو کبھی ایک ہی وقت میں کئی نشانوں کو ایک ساتھ مار گراتے ہیںلیکن نہ تو دنیا والوں کی سمجھ میں آتا ہے اور نہ وہ سمجھنا چاہتے ہیں۔ جب اُن پر تنقید کے تیر برستے ہیں تو چپکے سے اپنی کمان کو نکال کر بس اتنا کہہ دیتے ہیں کہ ہم ہیڈ لائن میں نہیں تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔کبھی آپ نے گلی محلے میں سنا ہو گا کہ ایک شخص ملا، اُس نے آنکھوں میں دیکھا اور مجھے یاد نہیں رہا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن جب آنکھ کھولی تو دیکھا کہ سارے پیسے جیب سے چلے گئے ہیں۔ کتنے بھولے بادشاہ ہوتے ہیں۔ اتنی معصومیت سے یہ کہانیاں سناتے ہیں کہ دل بیٹھ جاتا ہے۔ آپ کو تو معلوم ہی ہو گا ہم کتنے معصوم تھے جب امریکا کے ڈالر کی جھنکار میں، ریال کی بارش میں سوویت یونین کو ختم کرنے چلے تھے۔ اور ہمیں 20 سال بعد معلوم ہوا کہ اوہ۔۔اوہ ۔۔ یہ آمر نے تو ہمیں مروا دیا ۔۔ اُف اُف۔۔ یہ فرقہ واریت کی عفریت کہاں سے آ گئی ۔۔۔؟ایسا ہی تو ایران میں ڈاکٹر مصدق کے ساتھ ہوا تھا۔ انھوں نے جب بڑی طاقتوں کے منہ سے اپنی تیل کی دولت کھینچی تو نہ جانے ایک دم پورے ایران کو کیا ہو گیا تھا ہر کوئی پتھر لے کر کھڑا تھا۔
یہ تو ایرانیوں کو بہت سالوں بعد پتہ چلا تھا کہ امریکا بہادر نے اُن کی آنکھوں میں نہ جانے کون سا سُرمہ لگا دیا تھا۔ فلپائن کے مارکوس کو بھی آنکھوں میں سرمہ لگا کر ہی اقتدار ملا تھا ۔۔ اوہ ۔۔اوہ ۔۔اتنا دور مت جائیں ۔۔اب تو آپ سب کو سمجھ آ گیا ہے مشرق وسطی میں یہ فیس بُک سے انقلاب کس نے برپا کیا تھا۔؟۔ یہ کون تھا جو صدام کے بتوں کو گرا کر آزادی کا اعلان کر رہے تھے ۔۔؟۔ اور آج عراق کے باسی آگ و خون کی ہو لی سے بھرے ہوئے ہیں ۔۔ یہ لیبیا میں انقلاب برپا کرنے والے کتنا پرسکون ہیں ۔۔؟۔ اور کیا کسی کی آنکھ میں پانی نہیں جو یہ جان سکیں کہ جناب اب شام میں کس کا کھیل چل رہا ہے ۔۔ کتنا شور مچا ہوا ہے کہ جناب پاکستان جیسی غیور قوم جو ہمیشہ سے اپنے پائوں پر کھڑی ہے اُسے ڈیڑھ ارب ڈالر کس وجہ سے دیے گئے ۔ یہاں بھی ایک سرمہ لگا ہوا ہے ۔کیوں ہمیں یہ رقم تحفہ میں دی گئی ہے ۔ہماری معرکہ انگیز تاریخ میں ایسا تو کبھی نہیں ہوا ۔آخر ایسا کیا ہو گیا۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہے ریاستیں دوستی میں اتنا کچھ نہیں دیتیں جتنا دشمنی میں دیتی ہیں ۔اب دوستی تو واضح ہے ۔۔ لیکن دشمنی بھی تو دیکھ لیں اسی دشمنی کو دیکھتے ہوئے تو مجھ جیسے کو بھی تیروں کی برسات یاد آ گئی ۔ویسے تیروں والوں کے ڈاکٹر عاصم کی طرح یہ صاحب مشہور تو نہیں لیکن کہنے کو ہمارے وزیر پٹرولیم ہیں۔
خاص آدمی ہیں حکومت کے۔ جن کی وزارت آج کل پاکستان کی توانائی کی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ غیر ملکی دوست کی مدد سے چل رہی ہے ۔ اب آپ کو کیسے بتایا جائے کہ شاہد خاقان عباسی پر آج کل وزارت چلانے کے لیے عوامی دبائو سے زیادہ کس کا دبائو ہے۔ اس کے لیے تھوڑا سا تیروں والے بادشاہ کے پاس چلتے ہیں۔ جس کا نشان تو تیر ہے لیکن اُس پر ہی سب سے زیادہ تیر برسائے گئے ۔ پاکستان ایران گیس لائن کا منصوبہ تو یاد ہو گا۔ جناب سابق صدر نے جاتے جاتے معاہدہ کر دیا اور ایران نے اپنی طرف کی گیس لائن بھی بچھا دی۔ جب معاہدہ ہوا تو پاکستان کی حکومت اور بیوروکریسی یہ کہہ رہی تھی کہ امریکی پابندیوں کے باوجود یہ پائپ لائن بچھائی جا سکتی ہے۔ اور پھر کیا ہوا ۔۔ ایک حکم آتا ہے اور وہی بیوروکریسی اس وقت کے وزیر کو بتاتی ہے کہ وہ کون کون سی شقیں ہیں جس کی زد میں آ کر یہ پائپ لائن نہیں بچھائی جا سکتی ۔ آپ اور میں تو بھولے بادشاہ ہیں ہماری تو آنکھوں پر پردہ نہیں سرمہ لگا ہے ہم تو دیکھ ہی نہیں سکتے کہ وزیر صاحب نے کیوں کہا کہ یہ اب نہیں ہو سکتا ۔؟ شام تو آپ کے سامنے ہے جہاں سے آج کل اعلان ہو رہا ہے کہ ۔۔۔سارے قریبی ممالک کے لوگ واپس آ جائیں ہمارا خون بہت بہہ چکا اب ہم دوسروں کو بھیجیں گے۔
چلیں آئیں ۔۔آپ کو لے چلتے ہیں مصر جہاں ایک بار پھر فوجی انقلاب آیا ہے ۔۔ سنا گیا ہے کہ بھرپور پیسہ دیا گیا ہے نئے انقلاب کو تا کہ اخوان المسلمون کو روکا جا سکے ۔۔ کویت اور متحدہ امارات نے بھرپور طور پر لبیک کہا ہے وہی ایک اور عرب ملک قطر ہے جس نے اخوان کی نہ صرف زبانی حمایت کی ہے بلکہ اطلاعات ہیں کہ مالی امداد بھی کی ہے۔ اب ایسے میں کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے کہ کوئی اُن کے سامنے کھڑا ہو ۔۔ مگر آپ بھی تو سیانے ہیں جو یہ کہہ سکتے ہیں کہ مصر کو تو چھوڑیں یہ دونوں مل کر شام میں بشارالاسد کے سامنے کھڑے ہیں وہاں جنگجووں کو مدد کر رہے ہیں ۔ تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہاں بھی گروپ بندی ہو گئی ہے ۔۔ اب آپ نے فورا کڑی ملا دی ہو گی کہ پاکستان کو کیوں پیسے دیے گئے ۔
آگے تو سنیے کہ ان تین عرب ملکوں نے قطر سے اپنے سفیروں کو بھی بلا لیا ہے ۔۔ بات اتنی بڑھ گئی ہے اب کھُل کر دھمکیاں دی جا رہی ہے ۔۔ لیکن اس میں پھر پاکستان کہاں کود گیا ۔ تو چلیے تیروں والوں کے پاس ۔۔۔انھوں نے ایک بہت اہم معاہدہ کر لیا تھا ۔۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ زرداری صاحب کی خاص شمولیت کی وجہ سے قطر سے ڈھائی ارب ڈالر LNG کا معاہدہ ہونا تھا ۔ 2014ء میں جو 200 ملین کیوبک فٹ سے شروع ہو تا اور 2015ء میں یہ 400 تک جاتا ۔ اب آپ کو یاد آ گیا ہو گا کہ اُس زمانے میں کیوں یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ cng اس لیے بند کی جا رہی ہے کہ lng لائی جائے ۔ اب اس کے کراچی میں بن قاسم کے مقام پر ایک بین الاقوامی کمپنی کو ٹھیکہ بھی دیا جا رہا تھا جو کہ دنیا کے 80 ملکوں میں ٹرمینل پر storage کرتے ہیں ۔ اطلاعات یہ ہے کہ اب یہ بھی خطرہ میں ہے ۔ ۔تو آپ کو سمجھ آیا کہ تیروں والوں نے ایک ساتھ کتنے نشانے لگائے تھے اور اُس کے بعد سعودیہ نے ایک نشانہ لگا کر بتایا ہے کہ جناب ہم فائدہ لینا بھی جانتے ہیں ۔
یہ تیروں والے بھی نشانہ تاک کر لگاتے ہیں۔ کبھی دل کے پار ہو جاتے ہیں اور مجنوں کو پتھر کھانے کے لیے دنیا کے سامنے پھینک دیتے ہیں، تو کبھی ایک ہی وقت میں کئی نشانوں کو ایک ساتھ مار گراتے ہیںلیکن نہ تو دنیا والوں کی سمجھ میں آتا ہے اور نہ وہ سمجھنا چاہتے ہیں۔ جب اُن پر تنقید کے تیر برستے ہیں تو چپکے سے اپنی کمان کو نکال کر بس اتنا کہہ دیتے ہیں کہ ہم ہیڈ لائن میں نہیں تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔کبھی آپ نے گلی محلے میں سنا ہو گا کہ ایک شخص ملا، اُس نے آنکھوں میں دیکھا اور مجھے یاد نہیں رہا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن جب آنکھ کھولی تو دیکھا کہ سارے پیسے جیب سے چلے گئے ہیں۔ کتنے بھولے بادشاہ ہوتے ہیں۔ اتنی معصومیت سے یہ کہانیاں سناتے ہیں کہ دل بیٹھ جاتا ہے۔ آپ کو تو معلوم ہی ہو گا ہم کتنے معصوم تھے جب امریکا کے ڈالر کی جھنکار میں، ریال کی بارش میں سوویت یونین کو ختم کرنے چلے تھے۔ اور ہمیں 20 سال بعد معلوم ہوا کہ اوہ۔۔اوہ ۔۔ یہ آمر نے تو ہمیں مروا دیا ۔۔ اُف اُف۔۔ یہ فرقہ واریت کی عفریت کہاں سے آ گئی ۔۔۔؟ایسا ہی تو ایران میں ڈاکٹر مصدق کے ساتھ ہوا تھا۔ انھوں نے جب بڑی طاقتوں کے منہ سے اپنی تیل کی دولت کھینچی تو نہ جانے ایک دم پورے ایران کو کیا ہو گیا تھا ہر کوئی پتھر لے کر کھڑا تھا۔
یہ تو ایرانیوں کو بہت سالوں بعد پتہ چلا تھا کہ امریکا بہادر نے اُن کی آنکھوں میں نہ جانے کون سا سُرمہ لگا دیا تھا۔ فلپائن کے مارکوس کو بھی آنکھوں میں سرمہ لگا کر ہی اقتدار ملا تھا ۔۔ اوہ ۔۔اوہ ۔۔اتنا دور مت جائیں ۔۔اب تو آپ سب کو سمجھ آ گیا ہے مشرق وسطی میں یہ فیس بُک سے انقلاب کس نے برپا کیا تھا۔؟۔ یہ کون تھا جو صدام کے بتوں کو گرا کر آزادی کا اعلان کر رہے تھے ۔۔؟۔ اور آج عراق کے باسی آگ و خون کی ہو لی سے بھرے ہوئے ہیں ۔۔ یہ لیبیا میں انقلاب برپا کرنے والے کتنا پرسکون ہیں ۔۔؟۔ اور کیا کسی کی آنکھ میں پانی نہیں جو یہ جان سکیں کہ جناب اب شام میں کس کا کھیل چل رہا ہے ۔۔ کتنا شور مچا ہوا ہے کہ جناب پاکستان جیسی غیور قوم جو ہمیشہ سے اپنے پائوں پر کھڑی ہے اُسے ڈیڑھ ارب ڈالر کس وجہ سے دیے گئے ۔ یہاں بھی ایک سرمہ لگا ہوا ہے ۔کیوں ہمیں یہ رقم تحفہ میں دی گئی ہے ۔ہماری معرکہ انگیز تاریخ میں ایسا تو کبھی نہیں ہوا ۔آخر ایسا کیا ہو گیا۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہے ریاستیں دوستی میں اتنا کچھ نہیں دیتیں جتنا دشمنی میں دیتی ہیں ۔اب دوستی تو واضح ہے ۔۔ لیکن دشمنی بھی تو دیکھ لیں اسی دشمنی کو دیکھتے ہوئے تو مجھ جیسے کو بھی تیروں کی برسات یاد آ گئی ۔ویسے تیروں والوں کے ڈاکٹر عاصم کی طرح یہ صاحب مشہور تو نہیں لیکن کہنے کو ہمارے وزیر پٹرولیم ہیں۔
خاص آدمی ہیں حکومت کے۔ جن کی وزارت آج کل پاکستان کی توانائی کی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ غیر ملکی دوست کی مدد سے چل رہی ہے ۔ اب آپ کو کیسے بتایا جائے کہ شاہد خاقان عباسی پر آج کل وزارت چلانے کے لیے عوامی دبائو سے زیادہ کس کا دبائو ہے۔ اس کے لیے تھوڑا سا تیروں والے بادشاہ کے پاس چلتے ہیں۔ جس کا نشان تو تیر ہے لیکن اُس پر ہی سب سے زیادہ تیر برسائے گئے ۔ پاکستان ایران گیس لائن کا منصوبہ تو یاد ہو گا۔ جناب سابق صدر نے جاتے جاتے معاہدہ کر دیا اور ایران نے اپنی طرف کی گیس لائن بھی بچھا دی۔ جب معاہدہ ہوا تو پاکستان کی حکومت اور بیوروکریسی یہ کہہ رہی تھی کہ امریکی پابندیوں کے باوجود یہ پائپ لائن بچھائی جا سکتی ہے۔ اور پھر کیا ہوا ۔۔ ایک حکم آتا ہے اور وہی بیوروکریسی اس وقت کے وزیر کو بتاتی ہے کہ وہ کون کون سی شقیں ہیں جس کی زد میں آ کر یہ پائپ لائن نہیں بچھائی جا سکتی ۔ آپ اور میں تو بھولے بادشاہ ہیں ہماری تو آنکھوں پر پردہ نہیں سرمہ لگا ہے ہم تو دیکھ ہی نہیں سکتے کہ وزیر صاحب نے کیوں کہا کہ یہ اب نہیں ہو سکتا ۔؟ شام تو آپ کے سامنے ہے جہاں سے آج کل اعلان ہو رہا ہے کہ ۔۔۔سارے قریبی ممالک کے لوگ واپس آ جائیں ہمارا خون بہت بہہ چکا اب ہم دوسروں کو بھیجیں گے۔
چلیں آئیں ۔۔آپ کو لے چلتے ہیں مصر جہاں ایک بار پھر فوجی انقلاب آیا ہے ۔۔ سنا گیا ہے کہ بھرپور پیسہ دیا گیا ہے نئے انقلاب کو تا کہ اخوان المسلمون کو روکا جا سکے ۔۔ کویت اور متحدہ امارات نے بھرپور طور پر لبیک کہا ہے وہی ایک اور عرب ملک قطر ہے جس نے اخوان کی نہ صرف زبانی حمایت کی ہے بلکہ اطلاعات ہیں کہ مالی امداد بھی کی ہے۔ اب ایسے میں کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے کہ کوئی اُن کے سامنے کھڑا ہو ۔۔ مگر آپ بھی تو سیانے ہیں جو یہ کہہ سکتے ہیں کہ مصر کو تو چھوڑیں یہ دونوں مل کر شام میں بشارالاسد کے سامنے کھڑے ہیں وہاں جنگجووں کو مدد کر رہے ہیں ۔ تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہاں بھی گروپ بندی ہو گئی ہے ۔۔ اب آپ نے فورا کڑی ملا دی ہو گی کہ پاکستان کو کیوں پیسے دیے گئے ۔
آگے تو سنیے کہ ان تین عرب ملکوں نے قطر سے اپنے سفیروں کو بھی بلا لیا ہے ۔۔ بات اتنی بڑھ گئی ہے اب کھُل کر دھمکیاں دی جا رہی ہے ۔۔ لیکن اس میں پھر پاکستان کہاں کود گیا ۔ تو چلیے تیروں والوں کے پاس ۔۔۔انھوں نے ایک بہت اہم معاہدہ کر لیا تھا ۔۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ زرداری صاحب کی خاص شمولیت کی وجہ سے قطر سے ڈھائی ارب ڈالر LNG کا معاہدہ ہونا تھا ۔ 2014ء میں جو 200 ملین کیوبک فٹ سے شروع ہو تا اور 2015ء میں یہ 400 تک جاتا ۔ اب آپ کو یاد آ گیا ہو گا کہ اُس زمانے میں کیوں یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ cng اس لیے بند کی جا رہی ہے کہ lng لائی جائے ۔ اب اس کے کراچی میں بن قاسم کے مقام پر ایک بین الاقوامی کمپنی کو ٹھیکہ بھی دیا جا رہا تھا جو کہ دنیا کے 80 ملکوں میں ٹرمینل پر storage کرتے ہیں ۔ اطلاعات یہ ہے کہ اب یہ بھی خطرہ میں ہے ۔ ۔تو آپ کو سمجھ آیا کہ تیروں والوں نے ایک ساتھ کتنے نشانے لگائے تھے اور اُس کے بعد سعودیہ نے ایک نشانہ لگا کر بتایا ہے کہ جناب ہم فائدہ لینا بھی جانتے ہیں ۔